سرینگر// آصفہ یوسف قتل و عصمت ریزی کیس میں مجرموں کو بچانے کیلئے فرقہ پرست ماحول تیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سیول سوسائٹی ممبران، معالجین،وکلاء،طلاب،سماجی کارکنوں اور رضاکاروں نے یک زباں میں کہا کہ اس کیس کی تحقیقات میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔سرمائی دارالحکومت جموں کے کھٹوعہ علاقے میں کمسن بچی آصفہ یوسف کی عصمت ریزی اور قتل میں نظربند پولیس اہلکار کی حمایت میں2وزراء کے کھل کر سامنے آنے کے بعد’’آصفہ کیلئے حصول انصاف‘‘ کے مطالبے میں شدت آرہی ہے۔اس دوران سرینگر میں اتوار کو’’آصفہ کیلئے حصول انصاف فورم برائے یکجہتی‘‘ کی طرف سے ایک گول میز مباحثے کا انعقاد کیا گیا۔ آصفہ کی وکیل اور سماجی کارکن ایڈوکیٹ دپیکا سنگھ نے مباحثے میں شرکت کرتے ہوئے ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران بتایا کہ اس کیس کی تحقیقات کو فرقہ پرستی کی نذر کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا’’مفاد پرست عناصر فرقہ پرستی کی ہوا کھڑی کر کے اس کیس کی تحقیقات میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہمارا صرف اتنا مطالبہ ہے کہ مجرم چاہے،کسی بھی فرقے سے وابستہ ہو،اس کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جانی چاہے۔ ایڈوکیٹ دپیکا نے مزید کہا کہ ریاستی ہائی کورٹ اس کیس کی نگرانی کر رہا ہے،جبکہ ہر شخص کو یہ موقف اختیار کرنا چاہے کہ اس کیس میں ملوث مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی جانی چاہے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی سیاسی دبائو کو قبول نہیں کیا جانا چاہئے۔متحرک سیول سوسائٹی ’’سینٹر فار سوشیل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈئز‘‘ کے ممبر شکیل قلندر نے حال ہی میں مرکزی وزیر کی طرف سے آصفہ قتل و عصمت ریزی کیس کو مرکزی تفتیشی ادارے’’سی بی آئی‘‘ کو منتقل کرنے کے بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی شدو مد سے مخالفت کی جائے گی۔انہوں نے کہا’’آصفہ کیلئے حصول انصاف کے خاطر پرامن احتجاج اور دھرنے دیں جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کی تحقیقات کیلئے سابق تجربوں کے مد نظر کسی بھی بیرون ریاستی تحقیقاتی ایجنسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ آصفہ کیلئے حصول انصاف میں محو سماجی کارکن طالب حسین نے ٹیلی فون پر مباحثے میں شرکت کرتے ہوئے کہا’’ہندو ایکتا منچ کو اسی وقت قائم کیا گیا،جب ایس پی ائو کی گرفتاری عمل میں لائی گئی،اس سے قبل یہ منچ کہیں پر موجود نہیں تھا‘‘۔انہوں نے کہا کہ اصل میں اس عصمت ریزی اور قتل کی سازشیں کرنے والے کئی لوگ ہیں اور’’ہندو ایکتا منچ کے مکھوٹے میں وہ خود کو بچانا چاہتے ہیں‘‘۔طالب حسین نے کہا کہ کہ اس سے پہلے بھی کھٹوعہ میں گزشتہ برسوں کے دوران ایک مخصوص طبقے کے خلاف کئی واقعات رونما ہوئے اور آصفہ قتل و عصمت ریزی واقعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،ان کا کہنا تھا کہ فرقہ پرست قوتیں کھٹوعہ میں ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی کوششوں میں ہیں،اور گجروں میں خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سی بی آئی کو یہ کیس منتقل کرنے کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ کچھ لوگوں کو بچایا جاسکے۔لائرس کلب کے صدر ایڈوکیٹ بابر قادری نے کہا کہ ماضی کے تجربوں سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ بیرون ریاستوں کے تحقیقاتی ادارے نا قابل بھروسہ ہیں۔انہوں نے کہا’’آپ کو معلوم نہیں ہے کہ شوپیاں دہرے قتل و عصمت ریزی کیس اور جنسی اسکینڈ ل کیس کا حشر کیا ہوا‘‘۔ایڈوکیٹ بابر قادری نے کہا کہ آصفہ کی عصمت ریزی اور قتل کیس کو فرقہ پرستی کی چادر میں لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے،تاکہ اس کو بھی قومی مفاد کے کھاتے میںڈال دیا جائے۔اس مباحثے میں شرکت کرتے ہوئے ایک طالبہ بابرا شفیقی نے کہا کہ اقتدار غلط ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا خواتین اور بچوں کو کرنا پڑتا ہے،بابرا نے کہا کہ کنن پوشہ پورہ اور شوپیاں میں عصمت ریزی کے واقعات پیش آئے،اور آج تک حصول انصاف کیلئے متاثرین در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں،جبکہ سرکار نے بھی ان متاثرین کو انصاف کے نام پر منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افسپا کی وجہ سے پہلے ہی کوئی بھی بات کرنے سے کترا رہا ہے،جبکہ اس قانون کی وجہ سے وردی میں ملبوس اہلکاروں کو استثنیٰ حاصل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آصفہ بھی اقتدار اور طاقت کے بیچ میں پھنسی ہوئی ہے۔