جموں//وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ سنجواں آرمی سٹیشن پر حملہ اور ہیرانگر کٹھوعہ میں ایک 8سالہ بچی کی آبرو ریزی و قتل جموں خطہ کے خرمن امن کو آگ لگاکر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آپسی بھائی چارے کو تباہ کرنے نیز ہندوئوں اور مسلمانوں کے بیچ خلیج پیدا کی ایک گہری سازش ہے ۔سنجواں ملٹری سٹیشن پر ہوئے حالیہ حملہ اور رسانہ ہیرا نگر میں بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد اس کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ کچھ تخریبی طاقتیں ماحول کو بگاڑنے کی مسلسل کوششیں کر رہی ہیں تا کہ جموں کے امن ، بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کیا جا سکے ۔ دسہرہ گرائونڈ میں پی ڈی پی کی یکروزہ یوتھ کنونشن کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’سنجواں کے ملٹری کیمپ پر حملہ جموں خطہ میں آپسی بھائی چارے کو تباہ کرنے اور ہندوئوں و مسلمانوں کے بیچ دراڑ پیدا کرنے کی ایک کوشش تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں،وہیں ہیرا نگر میں ایک معصوم بچی کا قتل بھی ایسی ہی سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد دونوں طبقوں کے مابین منافرت پیدا کرنا ہے ، اور بد قسمتی سے کچھ طاقتیں اس افسوسناک واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جموں کے لوگوں کو روایتی بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگوں نے صدیوں سے بے مثال رواداری کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ سلسلہ ہر حال میں برقرار رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے باوجود آج بھی جموں نہ صرف پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں آپسی میل ملاپ اور بھائی چارے کی مثال ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود جموں کے لوگوں نے سبھی کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا ہے چاہے وہ کشمیری پنڈت ہوں یا مسلمان۔ترقی اور خوشحالی کو امن سے مشروط قرار دیتے ہوئے وزیرا علیٰ نے کہا کہ ریاست کو بے روزگاری سمیت کئی چیلنج درپیش ہیں لیکن ان کا تبھی مقابلہ کیا جا سکتا ہے جب یہاں امن قائم ہو۔ امرناتھ اور ویشنو دیوی یاتر ا نیز سیاحت کو ریاستی معیشت کیلئے اہم قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا فدائین حملے، ملی ٹینسی ، سرحدی کشیدگی اور تشدد نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ شر پسند عناصر کی ریشہ دوانیوں سے گمراہ نہ ہوں اور امن قائم رکھنے میں حکومت کے ساتھ تعائون کریں تا کہ ترقی کو یقینی بنانے کے علاوہ بیروزگاری سمیت دیگر مسائل کا ازالہ بھی ممکن ہو سکے ۔بیروزگاری کے لئے پچھلی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتیہوئے انہوں نے کہا کہ 60ہزار نوجوانوں کو ڈیلی ویجز، کنسالیڈیٹیڈ اور دیگر زمروں میں لا کر روزگار کے نام پر ان کے ساتھ بھدا مذاق کیا گیا تھا۔ان ساٹھ ہزار نوجوانوں کو 500سے ایک ہزار روپے کے بیچ تنخواہ دی جاتی تھی وہ بھی کہیں عید یا دیوالی پر جا کر ادا ہوتی تھی، ان کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ سرکار نے انہیں ریگولرائز کر کے با وقار زندگی جینے کا حق دیا ہے ۔انہوں نے حکومت کی حصولیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شفاف انتظامیہ کی فراہمی ان کی ترجیحات میں شامل ہے ،جہاں کہیں سے بھی کوئی شکایت ملتی ہے اس کی فوری طور پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جاتی ہے تا کہ نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے ۔