عبید احمد آخون
دنیا میں بہت سارے انسانی رشتے ہوتے ہیںجن میں کچھ رشتے خون کے ہوتے ہیں اور کچھ روحانی رشتے ہوتے ہیں۔ان ہی رشتوں میں سے ایک اْستاد کا رشتہ ہے۔ اسلام میں استاد کا رشتہ ماں باپ کے برابر ہے کیو نکہ یہ استاد ہی ہے جو والدین کے بعد اصل زندگی کے معنی سکھاتاہے، ہمیں زندگی جینا سکھاتاہے ، حق اور ناحق میں فرق کرنا سکھاتاہے۔ اْستاد کی اہمیت میں پیارے نبیؐ نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے استاد کا مرتبہ کتنا بلندہے کہ نبی کریم ؐ اپنی تعریف خود کو مْعلم بتا کر کر رہے ہیں۔
اْستاد اور دور ِ جدید:تدریسی پیشہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے مسلسل محنت ، اتھاہ علم، لگن ، جذبہ ، اخلاقیات ، انسانیت ، شعور ، روحانیت ، اور پرسکون انسانی رویے کی ضرورت ہے۔ اْستاد دوسروں کو وہی علم، وہی آگاہی فراہم کرسکتا ہے جس پر اْسے خود دسترس حاصل ہو۔دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم کا بھی موجودہ دور میں خاص خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ علم بغیر اخلاقی تعلیم شجر بے ثمر کی طرح ہے۔ علم کا خْمار سر پر رکھ کر بھی انسان بدتمیز زمانہ ہی رہتا ہے۔ کتابوں کو دیمک کی طرح چاٹ کے بھی بدخلقِ دہر ہی رہتا ہے۔ جو علم، تغیر اخلاق و تطہیر کردار کا باعث نہیں وہ ذہنی عیاشی تو ضرور ہے لیکن نتیجہ خیزی نہیں۔ قرآنی موضوعات میں مرکزی موضوع تعلیم الاخلاق ہے۔ کثیر آیات مقدسہ کا موضوع تشکیل کردار اور تجسیم اخلاق ہے۔
یوں تو اْم الکتاب میں 6236 آیات مقدسہ ایجابی اقدار ( values Positive) یا منفی اقدار ( Values Negative) سے متعلق ہیں مگر ہر دو صورتوں میں حاصل ِ تعلیم اخلاق ہے۔ ’’اخلاق الانبیاء والصالحین‘‘ موضوعات قرآنیہ میں اہم ترین موضوع ہے۔تصور علم، تصور اخلاق کے ساتھ مربوط ہے۔ وہ علم جو صرف شکم پری کے لئے ہو، بلند معیار زندگی کے لئے نہ ہو یعنی علم برائے معاش ہو ،وہ زہر ہلاہل ہے، وہ سم قاتل ہے۔ آپ جس علم کے داعی ہیں وہ انسان ساز، اخلاق ساز، کردار ساز ہونا چاہئے۔
معلم کے اوصاف: پاکیزہ سیرت اور خندہ جبین ہو، شرین کلام ہو، خوب پڑھا لکھا اور قابل ہو۔ اسباق کو ذہین نشین کرانے والا ہو۔ محنت اور دلچسپی سے پڑھانے والا ہو۔ پچھلے اسباق کا جائزہ لیتا اور اعادہ کراتا ہو۔ ہوم ورک کا زیادہ بوجھ بچوں کو اکتاتا نہ ہو۔ روزانہ کام کی جانچ پڑتال کرتا ہو۔ ڈانٹ ڈپٹ غیض و غضب اور لاٹھی چارج کا عادی نہ ہو۔ بچوں کے جذبات اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھتا ہو۔ سزا دینے میں محتاط اور انفرادی طریقہ اپناتا ہو۔ بچوں کی نفسیات اور مشکلات سے واقف ہو۔ کمزور بچوں کی الگ سے مدد کرتا ہو۔نادار طلباء کی اعانت کے لیے فکر مند ہو۔ بچوں کے کھیل کود اور سیر و سیاحت میں دلچسپی رکھتا ہو۔ بچوں کی سیرت سازی کی طرف خاص توجہ دیتا ہو۔ بچوں کی ذہنی و جسمانی قوتوں کو نشو نما دلانے کی کوشش کرتا ہو۔ جسمانی ورزش ، تقریر و تحریر کے موجوہ طریقہ کار سے کام لیتا ہو۔ بچوں کے سامنے اپنے آپ کو اونچے اخلاق کی ، اچھے گفتار کی اور ہمدردانہ جذبے کاعملی نمونہ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
حاصل کلام: اَساتذہ کو جدید تعلیم کے ساتھ آراستہ کرانے کے لئے اِن سروس ٹریننگ کورسز کو متعارف کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اساتذہ بچوں کو جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے روشناس کرا سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اساتذہ کی ذہانت کو پرکھنے کے لئے ہر سال بچوں کی طرح اساتذہ صاحِبان کا بھی امتحان کرایا جائے تاکہ تعلیم کا معیار سرکاری سکولوں میں بھی بلند رہے اور والدین اپنے بچوں کا سرکاری سکولوں میں داخلہ لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں ۔
akhoon.aubaid@gmail.com