Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

آزمائش یا عذاب؟ عذاب کا نزول ہلاکت کیلئےہی نہیں آزمائش کے لئے بھی ہوتا ہے

Mir Ajaz
Last updated: September 6, 2024 1:20 am
Mir Ajaz
Share
16 Min Read
SHARE
الطاف جمیل شاہ ،سوپور
زندگی از برائے بندگی انسان کو رب العزت نے اشرف بنایا ،پھر اسے ایمان کو یقین کا سبق سکھایا، اب اسے اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا ہے سو کچھ لوگوں نے حکم الہٰی پر سر خم کرتے ہوئے صدائے لا الہ پر تصدیق کی اور اہل ایمان کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ اب ان اہل ایمان کے لئے احکام بیان ہوئے، ان کے لئے دروس نازل ہوئے، زندگی کے مختلف مراحل کے لئے تعلیمات کو نازل کیا گیا ، تو اہل ایمان کی زندگی یا تو خوشی و مسرت کے ساتھ گزرتی گئی یا امتحان و آزمائش کے کٹھن امتحان میں اسے نور ِربّ سے سرفراز کیا گیا ،جہاں خوشی و مسرت کے لئے احکام الٰہی بتائے گئے وہیں غم و اندوہ کے آنے پر صبر استقامت کا مظاہرہ کرنے کی تعلیمات سے روشناس کرا کر اہل ایمان کو صبر و استقامت پر انعام و اکرام کی نوید سنائی گئی ۔
سال رواں میں اہلیان وادی کے لئے موسم کے مختلف مراحل سخت آزمائش کی طرح تھے، گرمی کی شدت اور بارشوں کے نازل نہ ہونے کے سبب زراعت و باغبانی کا شعبہ بہت زیادہ حد تک متاثر ہوا، جو لوگ اس پیشے سے منسلک ہیں ان کے لئے یہ سب انتہائی تکلیف دہ تھا ،بارشوں کے لئے دعائیں ہوئیں ،نمازیں ادا کی گئیں کہ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا ،جس سے قدرے راحت ملی ۔ اسی دوران وادی کے چند علاقوں میں کل پرسوں بارشوں اور ہواؤں نے سخت رُخ اختیار کرتے ہوئے وادی کے چند علاقوں کے باغبانی سے منسلک لوگوں کی امیدوں پر ایسا قہر کیا کہ باغبانی کے شعبے کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ اس نقصان کا کرب وہی محسوس کرسکتا ہے جس پر یہ لمحے گزرتے ہیں کہ سامنے رزق تیار ہے، پر جوں ہی اسے ہاتھ سے مس کیا تو احساس ہوا کہ یہ تو برباد ہوگیا ہے، یہ ان لوگوں سے پوچھا نہیں جاسکتا کہ کیسا محسوس کر رہے ہوں گے، بس یوں سمجھ لیں ایک قیامت ہے جو ان پر نازل ہوئی اور ایک دم اُن کی دنیا بربادیوں کا مسکن ہوگئی۔
اللہ ان سب کو صبر و سکون سے نوازے اور قرار دل کے ساتھ ساتھ انہیں رزق میں برکت سے نوازے۔مطالعہ قرآن کریم کریں تو یہ دو چیزیں سمجھ آتی ہیں جن میں اہل عقل کے لئے کافی نصائح موجود ہیں گر وہ نصیحت قبول کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ پہلی بات یہ کہ اگر آپ ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہیں، زکوٰۃ، صدقات ادا کرتے ہوئے خوف خدا اور لذت ایمانی سے آشناء ہی نہیں بلکہ مزین ہیں تو یہ اقتباس آپ کے لئے ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آزمائش میں مبتلاکرے گا، صرف اس لئے کہ آپ کے ایمان و یقین کا مقام جانچا جاسکے، اس لئے تو ربّ کبریا نے قرآن کریم میں فرمایا ہے، آپ یہ اقتباس پڑھیں جسے ڈاکٹر اسرار احمدؒبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ دیکھ لو ‘ جس راہ میں تم نے قدم رکھا ہے یہاں اب آزمائشیں آئیں گی ،تکلیفیں آئیں گی، رشتہ دار ناراض ہوں گے، شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق ہوگی، اولاد والدین سے جدا ہوگی، فساد ہوگا، فتور ہوگا، تصادم ہوگا، جان و مال کا نقصان ہوگا۔ ہم خوف کی کیفیت سے بھی تمہاری آزمائش کریں گے اور بھوک سے بھی۔ چناچہ صحابہ کرامؓ نے کیسی کیسی سختیاں جھیلیں اور کئی کئی روز کے فاقے برداشت کیے۔ غزوۂ احزاب میں کیا حالات پیش آئے ہیں ! اس کے بعد جیش العسرۃ غزوۂ تبوک میں کیا کچھ ہوا ہے۔ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ مالی اور جانی نقصان بھی ہوں گے اور ثمرات کا نقصان بھی ہوگا۔ ثمرات یہاں دو معنی دے رہا ہے۔ مدینہ والوں کی معیشت کا دار و مدار زراعت اور باغبانی پر تھا۔ خاص طور پر کھجور ان کی پیداوار تھی ‘ جسے آج کی اصطلاح میں cash crop کہا جائے گا۔ اب ایسا بھی ہوا کہ فصل پک کر تیار کھڑی ہے اور اگر اسے درختوں سے اتارا نہ گیا تو ضائع ہوجائے گی، ادھر سے غزوۂ تبوک کا حکم آگیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں ! تو یہ امتحان ہے ثمرات کے نقصان کا۔ اس کے علاوہ ثمرات کا ایک اور مفہوم ہے۔ انسان بہت محنت کرتا ہے، جدوجہد کرتا ہے، ایک کیریئر اپناتا ہے اور اس میں اپنا ایک مقام بنا لیتا ہے۔ لیکن جب وہ دین کے راستے پر آتا ہے تو کچھ اور ہی شکل اختیار کرنی پڑتی ہے۔ چناچہ اپنی تجارت کے جمانے میں یا کسی پروفیشن میں اپنا مقام بنانے میں اس نے جو محنت کی تھی، وہ سب کی سب صفر ہو کر رہ جاتی ہے اور اپنی محنت کے ثمرات سے بالکل تہی دامن ہو کر اسے اس وادی میں آنا پڑتا ہے۔
سو اہل ایمان اس صورت حال سے دوچار ہوجائیں تو انہیں صبر و استقامت کا سہارا لینے کی تعلیم دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں نوید رحمت سناتے ہوئے کہتے ہیں بے شک صبر کا دامن تھامنے والوں کے ساتھ ہوں میں، یعنی اس غم و اندوہ پر جو صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کا کفیل رب العزت کی ذات خود ہے ۔
ان آسمانی وباؤں کے نزول کا ایک سبب اور بھی ہے ،وہ ہے حدود اللہ کو پامال کرتے ہوئے اللہ رب العزت کی عطا کو مال غنیمت سمجھ کر اس عطا ہوئے رزق سے اللہ تعالیٰ کے حصے کو مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کر جانا اور اپنی خواہشات کی اتباع کرتے ہوئے مساکین ،یتیم و فقراء سے لاتعلق ہوکر اپنی دولت میں اضافے کی خواہش پال لینا، جس کا ثمر خاصا تباہ کن بھی ہوسکتا ہے۔ رب العزت نے زکوٰۃ و عشر کی ادائیگی کا جو حکم دیا ہے ،اگر بندہ پورے اخلاص و عقیدت سے اسے ادا کرتا ہے تو رب کبریاء اسے مزید سے نوازتا ہے ۔اسی طرح جب آدمی اللہ تعالیٰ کے دئیے رزق پر شکر بجا لاتا ہے تو اللہ اس رزق میں برکت عطا فرماتا ہے لیکن اس کے برعکس اگر کوئی انسان زکوٰۃ و عشر کی ادائیگی میں کمی پیشی کے طریقہ اختیار کرتا ہے، گر وہ شکر ادا کرنے کے بجائے ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے، جب وہ مجبوروں کے حقوق پر شب خون مارتا ہے تو اللہ تعالیٰ کبھی ایسی صورت پیدا فرماتا ہے کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ کیا سے کیا ہوگیا۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کے سورۃ القلم کا یہ سبق ہماری رہنمائی کے لئے اکثیر ہے۔ آپ مطالعہ قرآن کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اسے بغور پڑھ کر خود کا احتساب کرسکتے ہیں ،تفسیر روح القرآن سے یہ اقتباس ہم سب کے لئے
اِنَّا بَلَوْنٰـھُمْ کَمَا بَلَوْنَـآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ ج اِذْا اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّھَا مُصْبِحِیْنَ ۔ وَلاَ یَسْتَـثْـنُوْنَ ۔ (القلم : ١٧، ١٨) ’’ہم نے ان کو اس طرح امتحان میں ڈالا ہے جس طرح باغ والوں کو امتحان میں ڈالا جبکہ انھوں نے قسم کھائی کہ وہ صبح سویرے ضرور ہی اس کے پھل توڑ لیں گے اور کچھ بھی نہ چھوڑیں گے۔‘‘
 قریش کے سرداروں کے لیے ایک تمثیل ، قریش کو اپنی تجارت کی وسعت، اس سے حاصل ہونے والی دولت اور طائف میں ان کے پھیلے ہوئے باغات نے اس غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا تھا کہ ہماری یہ دولت و ثروت ہمارے برسرحق ہونے کی دلیل ہے۔ اگر ہم غلط راستے پر ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں یہ خوشحالیاں نصیب نہ کرتا۔ علاوہ ازیں مال و دولت کی کثرت نے ان کے اندر عجب اور غرور پیدا کردیا تھا، جس کی وجہ سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دولت و ثروت کی حقیقت کو ظاہر کرنے اور اپنے عذاب سے انذار کے لیے ایک تمثیل بیان فرمائی ہے، جس میں ان کو یہ سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اپنے جس اقتدار پر ان کو اس قدر غرور ہے اس کی بنیاد بالکل ریت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا چشم زدن میں اس کو خاک میں ملا دے گا۔ اس کی تمثیل کو دیکھنا چاہیں تو اس واقعہ میں دیکھ لیں کہ باغ کے مالکوں کو کس قدر اپنی دولت پر ناز تھا اور اس دولت نے انھیں کس طرح راہ ہدایت سے برگشتہ کر رکھا تھا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو سب کچھ تباہ ہو کر رہ گیا۔
 سوال یہ ہے کہ اس باغ کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہاں کا واقعہ ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ یہ باغ یمن میں تھا اور حضرت سعید بن جبیر کی روایت ہے کہ صنعاء یمن کا مشہور شہر اور دارالسلطنت ہے۔ یہ باغ اس سے چھ میل کے فاصلے پر تھا اور بعض حضرات نے اس کا محل وقوع حبشہ کو بتلایا ہے۔ آیات کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باغ کے اندر یا اس کے ملحق کاشت کی زمینیں بھی تھیں۔ لیکن باغ کی شہرت کی وجہ سے اس واقعہ کو باغ والوں کا واقعہ کہا گیا ہے۔
 محمد بن مروان حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ صنعاء یمن کے دو فرسخ کے فاصلے پر ایک باغ تھا جس کو صردان کہا جاتا تھا۔ یہ باغ ایک صالح اور نیک بندے نے لگایا تھا۔ اس کا عمل یہ تھا کہ جب کھیتی کاٹتے تو جو درخت درانتی سے باقی رہ جاتے تھے ،ان کو فقراء اور مساکین کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ اور یہ لوگ اس سے غلہ حاصل کرکے  اپنا گزارہ کرتے تھے۔ اسی طرح جب کھیتی کو گاہ کر غلہ نکالتے تو جو دانہ بھوسے کے ساتھ اڑ کر الگ ہوجاتا، اس دانے کو بھی فقراء اور مساکین کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ اسی طرح جب باغ کے درختوں سے پھل توڑتے تو توڑنے کے وقت جو پھل نیچے گر جاتا، وہ بھی فقراء کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس کی کھیتی کٹنے یا پھل توڑنے کا وقت آتا تو بہت سے فقراء اور مساکین جمع ہوجاتے تھے۔ اس مرد صالح کا انتقال ہوگیا۔ اس کے تین بیٹے باغ اور زمین کے وارث ہوئے۔ انھوں نے آپس میں کہا کہ اب ہمارا عیال بڑھ گیا ہے اور پیداوار ان کی ضرورت سے کم ہے۔ اس لیے اب ان فقراء کے لیے اتنا غلہ اور پھل چھوڑ دینا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ان لوگوں نے آزاد نوجوانوں کی طرح یہ کہا کہ ہمارا باپ تو بیوقوف تھا ،اتنی بڑی مقدار غلہ اور پھل کی لوگوں کو لٹا دیتا تھا، اب ہمیں یہ طریقہ بند کرنا چاہیے۔ چناچہ قرآن کریم نے اسی واقعہ کو بیان کیا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ان نوجوانوں نے آپس میں قسم اٹھا کے یہ عہد کیا کہ اب کی مرتبہ ہم صبح سویرے ہی جا کر کھیتی کاٹ لیں گے تاکہ مساکین اور فقراء کو خبر نہ ہو۔ کیونکہ اگر انھیں خبر ہوگئی تو وہ حسب سابق ہم سے غلہ اور پھل کا مطالبہ کریں گے اور انھیں کھیتی کاٹنے کا اس حد تک یقین تھا کہ انھوں نے انشاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی بلکہ تاکید کے انداز میں کہا کہ ہم صبح سویرے جا کر ضرور کھیتی کاٹ لیں گے۔ اب جب وہ کھیتی کاٹنے پہنچ گے تو صورت حال ان کے اندازوں کے بالکل مختلف تھے ،وہاں کچھ نہ دیکھ کر ان کے درمیان مکالمہ ہوا تو ایک بھائی نے کہا۔نہیں، بلکہ ہم تو محروم ہو کے رہ گئے،اب اس محرومی کا جو سبب ہوا وہ قابل غور ہے ،اسی نے پھر کہا سنو ،ان میں جو سب سے بہتر آدمی تھا اس نے کہا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم لوگ ربّ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے،اس صورت حال سے دوچار ہونے پر گرچہ انہوں نے حمد و ثناء کی اللہ سے معافی بھی طلب کی پر کیا کیجئے کہ کائنات کے رب کا قانون ہے کہ عذاب کی مار جب پڑ جاتی ہے تو بندہ ہوش میں تو آتا ہے لیکن دیر ہونے کے بعد ۔اس لئے ان تعلیمات کی روشنی میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ سب کیوں، کیسے ہورہا ہے، اس کے لئے اداسیاں غم کوئی دوا بھی کار آمد نہیں سوائے اس صدا کے بلند کرنے کے کہ بیشک یا ربّ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہمیں معاف فرما دے ۔ان مشکل اور صبر آزما لمحات میں مولائے کریم آپ کی ہم سب کی کفالت فرمائے اور اس سے بہتر اور اعلی نعم البدل عطا فرما کر سب کے قلوب کو مسرت وشادمانی کی دولت سے سکون عطا فرمائے۔ یہ لمحے گرچہ سخت اذیت ناک ہیں لیکن اللہ کی رحمتوں سے ہمیشہ پُر امید رہیں، وہ ہر لمحہ آپ کا خیال رکھتا ہے اور آپ کو سب کو نوازتا رہتا ہے، سو نا امیدی کو پاس نہ آنے دیں امید رکھیں وہ مولا جس نے یہ غم دیا ہے وہی دامن اپنی رحمتوں سے آباد فرمائے گا        فی امان اللہ ۔
<[email protected]
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
انسدادِ بدعوانی بیورو کی کارروائی، جے ڈی اےملازم کو رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا
تازہ ترین
پارلیمنٹ کو آپریشن سندور میں تباہ ہونے والے جنگی طیاروں کے سلسلے میں فوجیوں کے بیان پر بحث کرنی چاہئے: کانگریس
برصغیر
میرواعظ عمر فاروق کو مذہبی فرائض کی ادائیگی سے روکنا ناقابل فہم: محبوبہ مفتی
تازہ ترین
لداخ کی شناخت کو عالمی سطح پر اجاگر کریں گے: ایل جی کویندر گپتا
برصغیر

Related

مضامین

ایمان، دل کی زمین پر اُگنے والی مقدس فصل ہے روشنی

July 17, 2025
مضامین

انسان کی بے ثباتی اور اس کی غفلت فہم و فراست

July 17, 2025
مضامین

حسد کا جذبہ زندگی تباہ کردیتا ہے فکر وفہم

July 17, 2025

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دورِ حاضر میں انسان کی حُرمت دیدو شنید

July 17, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?