مسعود محبوب خان
زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا۔ ہر انسان کسی نہ کسی موڑ پر مشکلات، پریشانیوں اور آزمائشوں کا سامنا کرتا ہے۔ یہ آزمائشیں درحقیقت ہمارے صبر، حوصلے اور استقامت کا امتحان ہوتی ہیں، جو شخص ان کا سامنا صبر اور حوصلے سے کرتا ہے، وہی حقیقی کامیابی کے قابل ہوتا ہے۔ مشکلات زندگی کا حصّہ ہیں مگر جو لوگ صبر کرتے ہیں، وہی اللہ کے انعامات کے حقدار بنتے ہیں۔ اگر راہیں دشوار ہوں اور منزلیں دور دکھائی دیں تو یقین رکھیے کہ اللہ کی حکمت ہر چیز سے بالا تر ہے۔ وہ نہ ہمیں بےسبب کسی مشکل میں ڈالتا ہے اور نہ ہی بےمقصد آزماتا ہے۔پس، مشکلات میں گھبرانے کے بجائے شکر گزاری کو اپنائیے، آزمائش کو تربیت سمجھ کر قبول کیجیے اور ہر لمحہ اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ کیونکہ وہی ہے جو اندھیروں کو روشنی میں، مشکلات کو آسانیوں میں اور آزمائشوں کو نعمتوں میں بدلنے والاہے۔ زندگی اگر ہر لمحہ ہماری مرضی کے مطابق بہتی جائے، ہر راستہ ہموار ہو، ہر دروازہ خودبخود کھلتا رہے اور کسی پریشانی کی پرچھائی بھی ہم پر نہ پڑے تو یہ درحقیقت ایک خاموش خطرہ ہے، جو ہمیں بے خبری کی میٹھی نیند میں مبتلا کر دیتا ہے۔
یہ دنیا امتحان گاہ ہے، ایک آزمائش کی سرزمین جہاں مشکلات اور مسائل ہمارے حقیقی جوہر کو نکھارنے کے لئے آتے ہیں، جب سب کچھ ہماری خواہشوں کے مطابق ہو تو یہ گمان جنم لینے لگتا ہے کہ ہم کامیابی کی بلند چوٹی پر پہنچ چکے ہیں، حالانکہ حقیقت میں یہ ایک ٹھہراؤ، ایک جمود ہوتا ہے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اللہ اپنے محبوب بندوں کے لئے آزمائشوں کے دروازے اس لیے کھولتا ہے کہ وہ انہیں کسی بڑے مرتبے، کسی عظیم مقام پر فائز کرنا چاہتا ہے۔
مصائب اور مشکلات اصل میں نعمت کی پیش خیمہ ہوتی ہیں، جیسے سخت سردی کے بعد بہار کا موسم دل و جان کو معطر کر دیتا ہے۔ وہ لوگ جو مشکلات کے اندھیروں سے گزر کر آتے ہیں، وہی روشنی کی قدر جانتے ہیں اور صبر اور استقامت کے زیور سے آراستہ ہو کر دنیا میں اپنی پہچان چھوڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر زندگی میں مشکلات آئیں، مسائل درپیش آجائیں تو گھبرانے کے بجائے شکر کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ قدرت ہمیں کسی اعلیٰ مقام کے لیے تیار کر رہی ہے۔ یہ تکلیفیں اصل میں اس صیقل کی مانند ہیں جو انسان کو کندن بنا دیتی ہیں اور جب وقت آتا ہے تو وہی آزمائشیں کامیابی کے دروازے کھولنے کا سبب بن جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے لیے کوئی عظیم مرتبہ اور بلند مقام مقدر کر دیتا ہے تو اس کی راہ میں آزمائشوں کے چراغ جلا دیتا ہے۔ یہ مشکلات بےسبب نہیں ہوتےبلکہ ان کا ہر پہلو ایک گہری حکمت سے معمور ہوتا ہے۔ اس فانی دنیا میں حاصل ہونے والے تجربات انسان کو ابدی بصیرت عطاء کرتے ہیں۔ جب اللہ اپنے کسی بندے کو کسی بلند رتبے پر فائز کرنا چاہتا ہے تو وہ اُسے پہلے مشکلات اور آزمائشوں کے طوفان سے گزار دیتا ہے تاکہ وہ وقت آنے پر ان طوفانوں سے نمٹنے کا فن سیکھ لے۔
انسان کو صبر، حکمت، استقامت آزمائشوں کے دوران نصیب ہوتی ہے۔ درحقیقت زندگی وہ درسگاہ ہےجس میں ہر مشکل ایک نیا سبق سکھاتی ہے۔جب کوئی انسان سختیوں کی تپتی دھوپ سے گزرتا ہےتو وہ جان لیتا ہے کہ سکون کا سایہ کہاں اور کیسے تلاش کرنا ہے۔ جب اسے مشکلات کی بھٹی میں تپایا جاتا ہے تو وہ کندن بن کر نکلتا ہے۔وہ یہ جان لیتا ہے کہ زندگی کی راہوں میں کن قدموں کو آگے بڑھانا ہے اور کن قدموں کو روک لینا ہے، کس سمت جانا خیر کا سبب بنے گا اور کس سمت جانے سے اندھیروں میں بھٹکنے کا خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ زندگی کی سختیوں کا سامنا کئے بغیر بڑی منازل پر پہنچ جاتے ہیں، وہ اکثر کمزور فیصلے کرتے ہیں، مشکلات میں گھبرا جاتے ہیں اور انجامِ کار اپنی حیثیت کھو بیٹھتے ہیں۔ مگر وہ شخص جو مشکلات کی کٹھن وادیوں سے گزر کر آگے بڑھا ہو، وہ جانتا ہے کہ حالات کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے، مسائل کے حل کیسے نکالے جاتے ہیں اور منزلوں تک پہنچنے کے لیے کس طرح قدم بہ قدم چلنا ضروری ہوتا ہے۔پس! اگر زندگی میں پریشانیاں آئیں، مشکلات گھیر لیں اور راستے دشوار ہو جائیں تو مایوس ہونے کے بجائے خوش ہونا چاہیے کہ یہ سب اس بلند مقام کی تیاری ہے، جہاں اللہ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے تاکہ ہم جب اپنی منزل پر پہنچیں تو نہ صرف وہاں تک رسائی کے قابل ہوں بلکہ اس مقام کے حق دار بھی ثابت ہوں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کے لیے بلندیوں کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے زندگی کے نشیب و فراز میں ایسا پختہ کر دیتا ہے کہ وہ نہ صرف راستے کے کانٹوں کو پہچان لے بلکہ ان سے دامن بچا کر گزرنے کا ہنر بھی سیکھ جائے۔ وہ بندے کو ایسے تجربات کی بھٹی میں ڈالتا ہے، جہاں اسے لوگوں کی ذہنی چالاکیوں، رویوں کی نزاکتوں اور نیتوں کی اصلیت کا بخوبی اندازہ ہو جائے۔ وہ جان لے کہ کون اس کے ساتھ اخلاص کا پیکر ہے اور کون محض مصلحتوں کا لبادہ اوڑھے کھڑا ہے۔
اس دنیامیں ہر چہرہ وہ نہیں ،جو دکھائی دیتی ہے، ہر لب پر سجی مسکراہٹ وہ نہیں جو دل کی گہرائی سے نکلے اور ہر ہاتھ بڑھانے والاحقیقی رفاقت کا خواہاں نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے چنیدہ بندوں کو ان تلخ سچائیوں سے روشناس کراتا ہے تاکہ وہ فریب کے جال میں نہ اُلجھیں، مخلص اور منافق میں تمیز کر سکیں اور اپنی راہ کا تعین دانائی اور بصیرت کے ساتھ کر سکیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ربّ، جو اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت رکھتا ہے، اپنے بندے کو مصائب میں یونہی جھونک دے؟ جس طرح ایک ماں کبھی اپنے بچّے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی بلکہ اگر اسے کسی کٹھن راہ سے گزارتی بھی ہے تو اس کے پیچھے محبت کی حکمت کارفرما ہوتی ہے، اسی طرح اللہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا بندہ مضبوط ہو، مصائب کے تھپیڑوں سے گھبرانے کے بجائے ان کا مردانگی سے سامنا کرے اور جب اسے نعمتوں سے نوازا جائے تو وہ کسی خوف یا بے یقینی کا شکار نہ ہو، بلکہ اپنے ظرف کی وسعت اور اپنے کردار کی مضبوطی کے ساتھ ان نعمتوں کا حق ادا کر سکے۔ اس کی زبان سچائی کی ترجمان ہو، اس کے الفاظ اس کے اخلاص اور حق پر ہونے کا ثبوت ہوںاور اس کی شخصیت روشنی کا وہ مینار بن جائے جس سے زمانہ راہنمائی حاصل کرے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو دیکھنا چاہتا ہے،ایسے مقام پر جہاں بلندیوں کے جھولے میں بیٹھ کر بھی وہ زمین کی حقیقتوں کو نہ بھولے اور مشکلات کی آندھی اس کے قدموں کو متزلزل نہ کر سکے۔ آزمائش کا ہر لمحہ محض ایک امتحان نہیں بلکہ یہ قدرت کی طرف سے عطاء کردہ وہ تربیت گاہ ہے جہاں بندے کو صبر، حوصلے اور بصیرت کی دولت سے نوازا جاتا ہے۔ آزمائشیں انسان کو کمزور اور بے حال کرنے کے لئے نہیں آتیںبلکہ انہیں اس کے کردار کی مضبوطی، ارادے کی پختگی اور اس کے صبر کی آزمائش کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ یہ زندگی کی وہ بھٹی ہے جہاں سے کندن بن کر نکلنے والے ہی حقیقتاً کامیاب کہلاتے ہیں۔اگر کوئی بندہ آزمائشوں کی سختی میں ناشکری اور ناامیدی کا شکار ہو جائے تو سمجھ لے کہ وہ ان رتبوں اور نعمتوں سے دور ہونے لگا ہے جو اس کے مقدر میں تھیں، مگر جن کے لیے اس کا صبر اور استقامت شرط تھی۔ جو لوگ مشکلات کو شکوہ اور شکایت کے آئینے میں دیکھتے ہیں، وہ درحقیقت اپنی تقدیر میں لکھی گئی بلندیوں سے خود کو محروم کر لیتے ہیں۔ اللہ اپنے بندے پر کبھی بھی ظلم نہیں کرتا۔ وہ نہ اسے بےسبب کسی تکلیف میں ڈالتا ہے اور نہ ہی کسی بےمقصد آزمائش کا شکار کرتا ہے بلکہ وہ اپنے بندے کے لیے ایسا مستقبل چاہتا ہے جہاں وہ ہر کٹھن لمحے کا مقابلہ نہ صرف ثابت قدمی سے کر سکےبلکہ اپنے اچھے اور برے کی پہچان بھی رکھے۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ کسی بھی فریب میں نہ آئے، دھوکے اور سچائی میں تمیز کرنا سیکھےاور جب اسے بلندیوں پر بٹھایا جائے تو وہ وہاں صرف قسمت کے زور پر نہ پہنچا ہو بلکہ اپنے تجربے، اپنی استقامت اور اپنی سچائی کی بنیاد پر کھڑا ہو۔
یہ آزمائشیں وہ چراغ ہیں جو منزل کی راہ روشن کرتے ہیں۔ جو ان کا سامنا مسکراہٹ اور یقین کے ساتھ کرتا ہے، وہی کامیابی کے اس مقام تک پہنچتا ہے جہاں اللہ اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ پس اگر زندگی میں مشکلات آئیں، اگر راستے دشوار ہو جائیں، تو نااُمیدی کو دل میں جگہ نہ دیں بلکہ یہ یقین رکھیں کہ یہ سب آنے والی عظیم نعمتوں کی تیاری ہے۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کو کوئی عظیم نعمت عطاکرنا چاہتا ہے، جب اسے بلندیوں کی جانب لے جانا چاہتا ہے، تو پہلے اسے مشکلات کی گود میں ڈال دیتا ہے۔ یہ مشکلات بےسبب نہیں ہوتیںبلکہ ان کے پس پردہ ایک گہری حکمت اور محبت کی روشنی چھپی ہوتی ہے۔ آزمائش کا ہر لمحہ دراصل اس بندے کو اپنے ربّ کے قریب کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے تاکہ وہ اس کے در پر جھکے، اس سے لو لگائے اور اپنے ہر دُکھ، ہر کمی، ہر محرومی کو صرف اسی کے سامنے بیان کرے۔
اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ انسان کو ہمیشہ بہتر سے بہترین عطاکرتا ہے۔ وہ کبھی اپنے عاجز بندے کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا بلکہ اسے آزمائش کے مراحل سے گزار کر ایک ایسے مرتبے پر پہنچاتا ہے جہاں وہ نعمتوں کا صحیح حق دار بن سکے۔ جس طرح کوئی قیمتی تاج کسی ناتجربہ کار شخص کے سر پر نہیں رکھا جا سکتا، اسی طرح اللہ بھی کسی عظیم کامیابی کا دروازہ کھولنے سے پہلے اپنے بندے کو صبر، حوصلہ، دانشمندی اور بصیرت کے زیور سے آراستہ کرتا ہے تاکہ جب وہ فتح حاصل کرے تو اس کا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی ہو۔
اگر زندگی میں کبھی ایسا محسوس ہو کہ کچھ چیزیں کم ہونے لگی ہیں، کچھ راستے بند ہو رہے ہیں اور کچھ امیدیں دم توڑ رہی ہیں، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ درحقیقت وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ اپنے بندے کو اپنی طرف بلا رہا ہوتا ہے۔ اس وقت شکایت کے بجائے، صبر اور شکر کا دامن تھام لیجیے۔ اپنے ربّ کے سامنے جھک جائیں، اس سے فریاد کریں، اس کے در پر اپنی آنکھوں کے آنسو بہائیں۔ دیکھیے گا، وہ کیسے ایسے دروازے کھولے گا، ایسی راہیں نکالے گا اور ایسی نعمتیں عطاء کرے گا کہ انسان حیرت میں گم ہو جائے گا۔ یہی اللہ کی شان ہے کہ جب وہ کسی کو نوازتا ہے، تو اس انداز میں نوازتا ہے کہ نہ صرف وہ بندہ خود شکر ادا کرتا ہے بلکہ زمانہ بھی اس کی قسمت پر رشک کرتا ہے۔
پس آزمائشیں زندگی کا لازمی حصّہ ہیں مگر یہ محض مشکلات کا نام نہیں بلکہ ترقی اور بلندی کی سیڑھیاں ہیں، جو ان کا سامنا صبر، حوصلے اور استقامت سے کرتا ہے، وہی حقیقی کامیابی کے مستحق ہوتے ہیں۔ اگر راہیں دشوار ہوں، اگر منزلیں دور دکھائی دیں، تو یہ یقین رکھئے کہ اللہ کی حکمت ہر چیز سے بالاتر ہے۔ وہ نہ ہمیں بےسبب کسی مشکل میں ڈالتا ہے اور نہ ہی بےمقصد آزماتا ہے۔ اس کی ہر آزمائش میں خیر چھپی ہوتی ہے اور وہ اپنے بندے کو ہمیشہ بہترین راستے کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ پس! ہر مشکل میں شکر گزاری اختیار کیجیے، ہر آزمائش کو تربیت سمجھ کر قبول کیجیے اور ہر لمحہ اللہ پر بھروسہ رکھیے، کیونکہ وہی ہے جو مشکلات کو آسانیوں میں بدلنے والا، اندھیروں کو روشنی میں ڈھالنے والااور آزمائشوں کو نعمتوں میں تبدیل کرنے والاہے۔
[email protected]