مختار احمد قریشی
بستی کے ایک کنارے پر ایک خستہ حال مکان میں شبیر اپنی بیوی سکینہ اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ شبیر ایک مزدور تھا اور دن رات کی محنت کے باوجود بمشکل اپنے گھر کا خرچ چلا پاتا تھا۔ اس کا بڑا بیٹا ریحان نویں جماعت کا طالب علم تھا جبکہ چھوٹا بیٹا کاشف پانچویں جماعت میں تھا۔ سکینہ ہر وقت اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے خواب دیکھتی رہتی تھی لیکن شبیر اپنی ذمہ داریوں کو دوسروں پر ڈالنے کا عادی تھا۔
ریحان کو بچپن سے ہی آزادی کا شوق تھا۔ وہ ہمیشہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتا، جو اکثر مشکوک حرکات میں مبتلا رہتے تھے۔ اسکول سے گھر آتے ہی ریحان گلیوں میں کھیلنے نکل جاتا اور رات دیر سے لوٹتا۔ سکینہ بارہا اس پر نظر رکھنے کا کہتی، لیکن شبیر ہمیشہ یہ کہہ کر بات ٹال دیتا کہ “یہ بچہ ہے، کھیلنے دو۔”
ایک دن سکینہ نے ریحان کے بیگ میں ایک عجیب سی بو محسوس کی۔ جب اس نے غور سے دیکھا تو بیگ سے سگریٹ کے چھوٹے پیکٹ نکلے۔ وہ حیران اور پریشان ہوئی اور فوراً شبیر کو بتایا۔ شبیر نے بجائے ریحان کو ڈانٹنے کے کہا، “یہ تو معمولی بات ہے۔ لڑکے ایسے چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔” سکینہ نے احتجاج کیا لیکن شبیر نے اس کی بات کو نظرانداز کر دیا۔
رفتہ رفتہ ریحان کی عادتیں بگڑنے لگیں۔ وہ نشہ آور چیزوں میں مبتلا ہو گیا اور چھوٹے موٹے جرائم کرنے لگا۔ پہلے پہل اس نے اپنے جیب خرچ کی رقم سے نشہ خریدا، لیکن جب رقم ختم ہو گئی تو اس نے گھر کی چیزیں بیچنا شروع کر دیں۔ پہلے گھڑی پھر موبائل، اور بعد میں سکینہ کی دیگچیوں تک کو بیچ ڈالا۔ سکینہ بےبس ہو کر روتی لیکن شبیر ہمیشہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتا۔
ایک دن ریحان اسکول جانے کے بجائے اپنے دوستوں کے ساتھ کسی سنسان مقام پر بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے نشہ کیا اور ایک چھوٹے سے ہوٹل میں پیسے نہ ہونے کے باوجود کھانا کھایا۔ جب مالک نے پیسے مانگے تو انہوں نے اسے دھمکایا۔ یہ خبر جب شبیر کے محلے تک پہنچی تو لوگ غصے میں آگئے اور اس کے دروازے پر جمع ہو گئے۔
شبیر شرمندہ ہوا اور اپنے بیٹے کو گھر واپس بلایا۔ لیکن ریحان اب وہ معصوم بچہ نہیں رہا تھا۔ اس کے اندر ایک باغی پرورش پا چکا تھا۔ جب شبیر نے اسے ڈانٹنے کی کوشش کی تو ریحان نے پلٹ کر کہا، “آپ نے میری پرورش کی ہے؟ آپ نے کب مجھ پر توجہ دی؟ مجھے وہ آزادی دی جس نے میری زندگی خراب کر دی۔”
یہ جملے شبیر کے دل میں خنجر کی طرح لگے۔ اس نے پہلی بار اپنی غلطی کا اعتراف کیا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ریحان کو نشے کی لت چھڑانے کے لیے مرکز لے جایا گیا لیکن وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو سکا۔
یہ کہانی صرف شبیر کی نہیں بلکہ ان ہزاروں والدین کی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو کر بچوں کو “آزاد” چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک آزاد اور مست دنیا کے خواب میں مبتلا ہو کر وہ اپنے بچوں کو اس گہرے گڑھے میں دھکیل دیتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔
ریحان کی کہانی نے پورے محلے میں ہلچل مچا دی تھی۔ لوگ شبیر کی غفلت کو زیر بحث لانے لگے۔ کچھ اس پر تنقید کرتے تو کچھ سکینہ کی بے بسی پر افسوس کرتے۔ سکینہ دن رات اپنے رب سے دعا کرتی کہ اس کے بیٹے کو ہدایت نصیب ہو لیکن ریحان کا حال بد سے بدتر ہوتا جا رہا تھا۔ وہ مرکز سے واپس آ کر پھر انہی دوستوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا جنہوں نے اسے اس اندھیری گلی میں دھکیلا تھا۔
ایک شام، سکینہ نے دیکھا کہ ریحان نے چھوٹے بھائی کاشف کو اپنے ساتھ گلی کے کونے پر لے جا کر کچھ دیا۔ سکینہ کو شک ہوا اور وہ چپکے سے ان کے پیچھے گئی۔ وہاں کا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ ریحان کاشف کو نشے کی گولیوں کے بارے میں سمجھا رہا تھا اور انہیں استعمال کرنے کا کہہ رہا تھا۔ سکینہ نے غصے میں آ کر ریحان کو ایک زور دار تھپڑ مارا اور چیخ کر کہا، “میں نے ایک بیٹے کو کھو دیا لیکن دوسرے کو نہیں کھو سکتی!”
یہ بات پورے محلے میں پھیل گئی۔ شبیر، جو ہمیشہ دوسروں کو الزام دیتا رہا تھا، پہلی بار سکینہ کے سامنے ندامت کے ساتھ بیٹھا اور کہا، “مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے، لیکن اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟” سکینہ نے جواب دیا، “ہم اب بھی اپنے بچوں کو بچا سکتے ہیں۔ ہمیں ریحان کو سخت فیصلوں کے ذریعے سیدھی راہ پر لانا ہوگا اور کاشف کی حفاظت کرنی ہوگی۔”
شبیر نے فیصلہ کیا کہ وہ ریحان کو ان بری صحبتوں سے دور لے جائے گا۔ اگلے دن وہ ریحان کو زبردستی ایک گاؤں لے گیا جہاں ایک بزرگ معلم، حکیم صاحب رہتے تھے۔ وہ نوجوانوں کی تربیت کے ماہر تھے اور کئی لوگوں کو بری عادتوں سے چھٹکارا دلانے میں کامیاب رہے تھے۔ حکیم صاحب نے ریحان کو ایک الگ کمرے میں رکھا، جہاں اس کے نشے کی لت کا علاج کیا گیا۔ یہ عمل بہت تکلیف دہ تھا، لیکن حکیم صاحب کی محبت اور دعاؤں سے ریحان کی حالت بہتر ہونے لگی۔
اس دوران سکینہ نے کاشف پر توجہ دینا شروع کی۔ اس نے کاشف کو سمجھایا کہ زندگی کا مقصد محض عیش و عشرت نہیں بلکہ ایک اچھے انسان بننے میں ہے۔ اس نے اپنے چھوٹے بیٹے کو ہر وہ محبت اور وقت دیا جس سے وہ محروم رہا تھا۔
کئی مہینے گزر گئے۔ ریحان اب نشے کی لعنت سے آزاد ہو چکا تھا اور اس کی آنکھوں میں سخت ندامت تھی۔ وہ بار بار اپنی ماں سے معافی مانگتا اور کہتا، “اماں، میں نے آپ کا دل دکھایا لیکن اب میں بدل گیا ہوں۔” سکینہ نے اسے گلے لگا کر کہا، “بیٹا، اب جو ہوا سو ہوا لیکن یاد رکھو، زندگی ہمیں دوسرا موقع دیتی ہے۔ اپنی غلطیوں سے سیکھو اور ایک نئی شروعات کرو۔”
ریحان نے عزم کیا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کاشف کا ایک مثالی بھائی بنے گا اور کبھی اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دے گا۔ وہ محنت سے پڑھائی کرنے لگا اور آہستہ آہستہ اپنے گمشدہ وقت کی تلافی کرنے لگا۔
یہ کہانی صرف ریحان کی نہیں بلکہ ان سب خاندانوں کی ہے جو اپنے بچوں پر توجہ نہ دے کر ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ “آزاد اور مست دنیا” کا خواب ان بچوں کو ایسا قیدی بنا دیتا ہے جہاں سے نکلنے کے لیے شدید جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ والدین کی غفلت صرف بچوں کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو تباہ کر سکتی ہے۔ بچوں کو آزادی دینے سے پہلے ان کے اعمال پر نظر رکھنا اور ان کی صحیح تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ ایک بار کی غلطی شاید سدھر جائے، لیکن بار بار کی غفلت پورے گھر کو برباد کر سکتی ہے۔ اس لئے اپنی اولاد کے ساتھ محبت کے ساتھ وقت گزاریں، تاکہ وہ کبھی “آزاد اور مست دنیا” کے جال میں نہ پھنس سکیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کو اولین ترجیح دیں۔ آزادی دینا ضروری ہے لیکن نگرانی کے ساتھ۔ بچوں کو وقت دیں، ان کی باتیں سنیں، اور ان کے مسائل کا حل تلاش کریں تاکہ وہ کسی بری عادت کا شکار نہ ہوں۔
���
بونیار، بارہمولہ، کشمیر
[email protected]
موبائل نمبر؛8082403001