ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری اور سیکولر ملک مانا جاتا ہے۔تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ ہم نے انگریزی حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک صدی کا سفر طے کیا ۔۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی میں شکست کے بعد ہندوستانیوں کے حوصلے پست ہوئے اور تقریباً نصف صدی کے بعد پھر تحریک آزادی کی چنگاری کو ہوا دینے کے لئے تمام ہندوستانی انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوئے۔ بالخصوص۱۸۸۵ء میں کانگریس کی بنیاد کے بعد حب الوطنی اور ایکتا کے پیغام کو عام کیا جانے لگا ۔ اگرچہ آغاز میں کانگریس کا مدعا بھی صرف یہ تھا کہ انگریزی حکومت اہل ہند کے ساتھ جو ناانصافیاں کر رہی ہیں اور عوام کے حقوق پامال کر رہی ہے اس سے نجات ملے لیکن بعدہٗ عوام الناس میں یہ جذبہ پیدا ہوا کیوں نہ ہم غلامی کے طوق سے ہی نجات حاصل کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک گیر سطح پر انگریزی حکومت کے خلاف مزاج بننے لگا اور گاندھی جی کی ہندوستان واپسی اور پھر سرگرم سیاست میں حصہ داری کے بعد یہ طے ہوگیا کہ اب ملک سے انگریزوں کو بے دخل کرناہے ۔یہ اور بات ہے کہ یہ تحریک اچانک شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ گاندھی جی کی آمد سے پہلے بھی ملک وقوم بہت سارے بیدار مغز سیاسی اور مذہبی رہنما انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا بگل بجا چکے تھے۔ خاص کر بال گنگا دھر تلک،لالہ لاجپت رائے اوربپن چندرپال ملک میں انگریزوں کے خلاف فضا سازی کرچکے تھے۔پھر جب گاندھی ، نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، پٹیل،سبھاش چندر وغیرہ نے غلامی کے خلاف آواز بلند کی تودیکھتے ہی دیکھتے حصولِ آزادی کی چنگاری شعلہ کا روپ اختیار کرگئی اور ایک صبح ایسی آئی جو ۱۵ ؍ اگست کو ہندوستان میں آزادی کا سورج ساتھ لے کرآئی۔ 15اگست 1947ء کو ہم آزاد ہوئے اوردنیا میں ہماری ایک تاریخ رقم ہوئی ۔دنیا کی تاریخ میں یہ باب رقم ہو گیا کہ عدم تشدد کی طاقت کی بدولت ہم نے ایک صدی طویل انگریز حکومت کو اُکھاڑ پھینکا۔ ظاہر ہے کہ ہم اس وقت اگر انگریزوں سے اسلحہ لے کے میدانِ جنگ میں اُترتے تو ناکامی ہی ہاتھ آتی کیوں کہ اس وقت ہندوستانی عوام اس قابل نہیں تھی کہ حکومت کو جنگی اسلحہ کے سہارے بے دخل کردیں۔ اس لئے گاندھی جی اس ٹھوس حقیقت کو سمجھتے تھے اور بنابریں انہو ںنے عدم تشدد اور ہندومسلم سکھ عیسائی اتحادکے چھتری تلے اپنی سیاسی جدوجہد کو نتیجہ خیزبنایا۔ آج گاندھی جی کے اس حقیقت پسندانہ سیاسی نظریے کی پوری دنیا معترف ہے ،مگر افسوس صد افسوس کہ گاندھی کے سپنوں کے دیش میں اب فسطائی قوتیں اور فرقہ پرست پارٹیاں چہار سُوتشدد کی آگ بھڑکاتی جارہی ہے ۔ گنگا جمنی تہذیب اور ایکتا کی بھاؤنائیں عنقا ہیں ، ہر طرف خوف وہراس کا ماحول بپا ہے ۔ مذہب اور دوسرے ناموں پر لوگ اپنے ہی ہم وطنوں کواس قدر نفرت اور شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے کسی اجنبی ملک میں رہ رہے ہوں۔ ایک خاص طبقے کی مذہبی اور تاریخی شناخت کو مسخ کرنے کی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں ۔ گائو کشی کے بہانے معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہاہے اور اس طرح کے بہیمانہ قتل پر فخر بھی جتایاجا رہاہے ۔ حال ہی میں ایک ٹی وی چینل (این ڈی ٹی وی) کے اسٹرینگ آپریشن میں یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ ہاپور میں گائو کشی کے نام پر جو قتل ہوا تھا وہ فرضی تھا۔ قاتل یدھشٹر سنگھ سسودیا نے ٹی وی کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ اس نے پولیس اور جیلر کو بھی بتایا تھا کہ وہ قاتل ہے ، باوجود اس کے اسے کورٹ نے اسے ضمانت دی اور وہ فخراً یہ بھی اعلان کر گیا کہ وہ اس طرح کی ننگ انسانیت وارداتیں انجام دیتا رہے گا۔
واضح ہو کہ گذشتہ ایک سال کے عرصے میں تقریباً پچاس سے زیادہ ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور ان میں بیشتر جگہوں پر مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے مظلوموں کو قتل یا شدید زخمی کیا گیاہے ۔جانور کے نام پر انسان کا جانور بن جانا کتنا افسوس ناک ہے اوراس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملکی انتظامیہ تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ حکومت اس طرح کے قاتلوں کی کھلی پشت پناہی کررہی ہے ۔ جیسا کہ جہارکھنڈ کے ہزاری باغ میں قتل کی ایسی ہی سنگین واردات کو انجام دینے والے ملزموں کو کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد ان کی حوصلہ افزائی ایک مرکزی وزیر کے ذریعہ کی گئی ہے۔ اس سے گویا بزبان حال قاتلوں کو یہ پیغام دیا جا رہاہے کہ ملک میںمسلم طبقے کو نشانہ بنانے والوں کے ساتھ سیاسی طاقت کے مالک کھڑے ہیں ۔اب تک جہاں کہیں بھی ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں ،وہاں کی حکومت نے کوئی ایسا ٹھوس حفاظتی قدم نہیں اٹھایا ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ مجرموں پر نکیل کسی جا رہی ہے ۔ کیا ہمارے رہنمائو ںنے اسی لئے قربانی دی تھی کہ ایک دن اپنے ہی وطن میں ذلیل وخوار ہوں گے ،قتل کئے جائیں گے اور ان کی شناخت بھی مٹائی جائے گی ۔ واضح رہے کہ حال ہی میں ہریانہ کے گروگائو ںمیں ایک نوجوان مسلم لڑکے کی داڑھی کاٹ دی گئی،وہ بھی یہ کہتے ہوئے کہ داڑھی رکھنے والے پاکستانی ہیں۔ کیا یوں اس ملک میں اسلام کے ماننے والوں کے لئے زمین تنگ نہیںکی جا رہی ہے ؟سکھ مذہب کے لوگ بھی داڑھی رکھتے ہیں ،کیا ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا؟یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
اس وقت ملک میں مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنے کی ایک زوردارمہم سی چل پڑی ہے۔ کبھی شہروں اور سڑکوں کے نام بدلے جارہے ہیں تو کبھی تعلیمی اداروں کے نام میں تبدیلی کی جارہی ہے۔ اُتر پردیش کے سینکڑوں اردو پرائمری اسکول جنہیں وہاں آزادی کے قبل سے ہی پراتھمک ودیالہ اسلامیہ کہا اور لکھا بھی جاتا تھا ،اب ان تمام اسکولوں کے نام سے اسلامیہ ہٹا دیا گیا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنا ہے۔ اس کی تاریخی شناخت کو مٹانے کے لئے کبھی دہلی کے اورنگ زیب روڈ کا نام بدلا جا رہاہے تو کبھی مغل سرائے ریلوے اسٹیشن کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں ۔ حال ہی میں راجستھان کے بارمیر ضلع کے ایک گائوں ’’میاں کا باڑا‘‘ کو بدل کر مہیش نگر کردیا گیا ہے اور اس تبدیلی کا جواز یہ پیش کیا گیاہے کہ اس گائوں میں رہنے والے ہندو ئو ںکو اپنے بچوں کی شادی بیاہ میں دشواری پیش آرہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے ملک میں جتنے گائوں اور شہر ہیں سب کے نام بدلے جائیں گے؟ اگرچہ ہمارے وزیر داخلہ راجناتھ جی نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ 2017سے 2018کے درمیان گائو ںاور شہر کے نام بدلنے کی27؍عرضداشتیں ان کے پاس آئی ہیں جن پر حکومتی سطح پر فیصلہ ہورہاہے اور جلد ہی ان پر عمل درآمد بھی ہوگا۔
یہاں تاریخ کی اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ضروری سمجھتا ہوں کہ دوسری گول میز کانفرنس کے بعد بابائے قوم گاندھی جی فرانس کے سفر پر گئے تھے، وہاں انہوں نے دانشوروفلاسفر رومارولاؔں سے ملاقات کی تھی ،پھر اٹلی گئے اور مسولینی سے ملاقات کی تھی۔گاندھی جی نے مسولینی کے دفتر کے باہر دو بندوق کی تصویر دیکھی ۔انہو ںنے کہا کہ یہ تشدد کی علامت ہے ۔ ہم اپنے ملک میں کوئی ایسی علامت نہیں دیکھنا چاہتے جس سے تشدد کی بو آتی ہواور اس لئے گاندھی جی نے چرخہ کو امن کی علامت تسلیم کیا مگر آج اسی ملک میں چہار طرف ہجومی تشدد کا بول بالا ہے اور اسے نہ صرف یش بھگتی کہا جارہاہے بلکہ اس پرووٹ بنک سیاست ہو رہی ہے ۔حال ہی میں دہلی میں کانوڑیوں کے ذریعہ جس طرح سڑکوں پر پرتشدد عمل سامنے آیا کہ ہزاروں کی بھیڑ میں محض دس بیس کانوڑیوں نے ایک کار پر حملہ بول دیا ،کار کو تہس نہس کر دیا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔ کار میں بیٹھی لڑکی اور ڈرائیور کو بھاگ کر اپنی جانیں بچانی پڑیں ۔ اس واقعہ کے ایک دن کے بعد پھر کانوڑیوں نے بلند شہر میں پولیس کی گاڑیوں کو ہی آگ لگا د ی اور یہاں بھی پولیس موک درشک رہی بلکہ ہیلی کاپٹر سے میرٹھ زون کے آئی جی پولیس اس پر تشدد بھیڑ پر گلاب کی پنکھڑیاں برسا رہے تھے۔ کیا اس ملک میں ایک خاص مذہب کے لوگوں کو یہ آزادی ہو گئی ہے کہ وہ جیسے چاہیں اور جس طرح چاہیں آئین اور قانوں کی دھجیاں اڑائیں؟
اب سوال اٹھتا ہے کہ ہماری آزادی کا مطلب کیا ہے اور کیا ہمارے آئین میں درج بنیادی آزادیوںکے تقاضے پورے ہورہے ہیں ؟ جس طرح کے گھمبیر حالات رونما ہورہے ہیں، اُن سے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اربابِ اقتدار نہ صرف اپنی جمہوری ذمہ داریوں کی ادائیگی سے منہ موڑرہے ہیںبلکہ آزادی کے ثمرات کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں اور ایک سوچی سمجھی چال کے تحت آئین ہند روح کو مجروح کر رہے ہیں، جب کہ ہماری آزادیاں اور حقوق وفرائض ہی ہماری جمہوریت اورآئین کی پاسدار ہیں ۔اگر ہم ان کے تقاضے پورے کر نے میں انفرادی یااجتماعی طور ناکام رہے تو عین ممکن ہے کہ ایک دن ہماری سا لمیت اور وحدت اور گنگا جمنی تہذیب کا جنازہ اٹھے گا جس کے لئے اب ہجومی تشدد کانسخہ اپنایا جارہاہے ۔بابائے قوم گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’آزادی ایک پیدائش کے برابر ہے۔ جب تک ہم مکمل آزاد نہیں ہیں ، تب تک ہم غلام ہیں۔ کوئی بھی ہمیں دُکھ نہیں پہنچا سکتا ۔ عوام کی انفرادی آزادی کو چھین کر کسی آزاد سماج کی بنیاد رکھنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ اس لئے ہم سب کو سنجیدگی اور متانت سے بھارت کی اس یومِ آزادی کے موقع پر یہ عہدکرنا چاہئے کہ ہم اپنے شہیدانِ وطن کی تمنائوں اور آرزوئوں کے مطابق ملک کی جمہوری اورسیکولر تصویر کوقائم رکھیں گے اور اپنے آئین میں دی گئی تمام آزادیوں اور ذمہ داریوں کے تقاضوں کو پورا کریں گے کیوں کہ اس ملک کی تقدیر اور تکثیریت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم پیارمحبت، بھائی چارے اور گنگا جمنی تہذیب کے آگوش میں ہی جئیں اور مریں ۔
رابطہ: پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]