سرینگر//ڈوگرہ شاہی کے خلاف بیسویں صدی کے اوائل میں کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے عینی شاہد اور سرگرم کارکن مرحوم پیر محمد افضل مخدومی کے مشاہدات کا مجموعہ پیر کے روز ایک پُروقار تقریب کے دوران جاری کیا گیا۔اس مجموعہ کی کتابی صورت ’کشمیر کی تحریک آزادی۔خواب، عذاب اور سراب‘ کی رسم رونمائی کی تقریب کا اہتمام گریٹر کشمیر فاؤنڈیشن نے نگین کلب سرینگر میںکتاب کے ناشر میزان پبلشرز کے تعاون سے کیاتھا۔ تقریب میں دانشوروں، سول سوسائیٹی کارکنوں، صحافیوں، کالم نویسوں، مؤرخین اور مصنفین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔محفل سے خطاب کرتے ہوئے معروف دانشور اور مؤرخ محمد یوسف ٹینگ نے کہا، ’’عالمی نقشہ پر کشمیر صدیوں سے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے موجود رہا ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت وسط ایشیا کی تہذیب و ثقافت کا ہی حصہ ہے، ہمارا واسطہ برصغیر سے کبھی نہیں رہا۔‘‘ انہوں نے اپنی تفصیلی تقریر میں کہا مرحوم مخدومی کی کتاب کشمیریوں کی جغرافیائی اور تہذیبی اصلیت کی ایک یاد دہانی ہے۔ ’’کشمیریوں کے دل میں اُسی خودمختاری اور آزادی کو دوبارہ حاصل کرنے کی تڑپ ہے۔ یہ تڑپ ان کے تحت الشعور میں داخل ہوچکی ہے، اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ انہوں نے اس بات کے لئے مصنف کی تعریف کی کہ انہوں نے اپنی نگارشات میں حالات و واقعات سے متعلق تمام چھوٹی بڑی شخصیات کا ذکر دیانت داری کے ساتھ کیا ہے۔ ٹینگ نے گریٹر کشمیر اور جی کے فاؤنڈیشن کی اس بات کے لئے ستائش کی کہ یہ ادارہ نہ صرف صحافت کے اعلی معیار سے ہمکنار ہوکر حقائق کی ترسیل کا فرض نبھا رہا ہے، بلکہ اب فاؤنڈیش کے ذریعہ علم و ادب کی بھی خدمت انجام دے رہا ہے۔کتاب کے بارے میں سینئرصحافی اور تجزیہ نگار محمد سعید ملک نے ایک مقالہ پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب بے شک بہت پرانے واقعات کی تفصیل پر مبنی ہے، لیکن جو حالات و واقعات اس میں بیان کئے گئے ہیں وہ آج کی صورتحال سے بھی متعلق ہیں۔ ’’پیر افضل مخدومی کا اسلوب سادہ مگر سنجیدہ ہے۔ انہوں نے بڑی بڑی باتوں کو آسان پیرائے میں سمجھایا ہے۔ تاریخ نویس کا یہی کمال ہوتا ہے۔‘‘ سعید ملک کا کہنا تھا کہ یہ کتاب آج کے نوجوان کو ماضی قریب میں جھانکنے کا ایک خوبصورت دریچہ فراہم کرتی ہے۔ دراصل یہ کتاب پیر افضل مخدومی کے اُن مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے 13جولائی 1931کے واقعات اور بعد کی تحریک سے متعلق روزنامہ آئینہ اور دوسرے جریدوں میں لکھے تھے۔ ان مضامین کو اُن کے فرزند جاوید مخدومی نے ترتیب دے کر کتابی صورت میں سامنے لایا ہے۔ کشمیر کے سابق انسپکٹر جنرل اور پیر افضل کے فرزند جاوید مخدومی نے اس کتاب کے بارے میں اپنے تعارفی کلمات میں کہا: ’’مجھے اعتراف ہے کہ کچھ باعث تاخیر تھا، اسی لئے والد صاحب کی ان نگارشات کو آپ تک پہنچانے میں دیر ہوئی۔لیکن سبھی دوستوں اور ہمدردوں نے کئی برسوں سے مجھے اس کام کی تحریک دلائی۔‘‘ تقریب پر نظامت کے فرائض سینئرصحافی ریاض مسرور نے انجام دئے ۔انہوں نے بتایا: ’’یہ کتاب ایسے وقت سامنے آئی ہے جب کشمیر میں حال چیخ رہا ہے جبکہ ماضی کانا پھوسی کررہا ہے۔لیکن ماضی کی دبی آوازیں ہمیں مستقبل شناس بناسکتی ہے اگر ان آوازوں کو دیانت داری کے ساتھ سنا جائے اور ان کا حال کے پس منظر میں صحیح تجزیہ کیا جائے ۔‘‘ آخر پر میزان پبلشرز کے شبیر احمد اور جاوید ماٹجی نے مہمانوں کا گریٹر کشمیر فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کیا۔تقریب میں جن اہم شخصیات نے شرکت کی ان میں جسٹس بشیر کرمانی، محمد سلیم بیگ، کالم نویس عبدالمجید زرگر، زیڈ جی محمد، ڈاکٹر جاوید اقبال، سابق انفارمیشن کمیشنر جی آر صوفی، انور عشائی، سول سوسائٹی کارکن ڈاکٹر حمیدہ نعیم،معروف معالج ڈاکڑ وحید، روزنامہ چٹان کے مدیر طاہر محی الدین، پروفیسر نور احمد بابا اور پروفیسر شیخ جمیل تھے۔اس کے علاوہ کشمیریونیورسٹی کے مختلف شعبوں سے طالب علموں اور رسیرچ سکالروں کی بڑی تعداد بھی تقریب میں موجودتھی۔