عوام شام اور پاکستان کی صورتحال دیکھیں ،سیاسی طریقہ کار اپنانے کی ضرورت
سرینگر//آزادی مانگنے والوں کے خلاف سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے کہا کہ کشمیریوں کو آزادی ملنا ناممکن ہے اور جو بھی آزادی کا مطالبہ کرے گا آرمی اُس کے خلاف جنگ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی جانب سے کی جانے والی سنگ باری سے ہی فورسز اہلکار مشتعل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے مظاہرین کے خلاف کارروائی کرنا ناگزیر بن جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگجوئوں کی پے در پے ہلاکتوں سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ یہ سلسلہ یہاں جاری رہنے والا ہے اور نوجوان ہنوز جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے لئے فوجی طاقت کو رد کرتے ہوئے آرمی چیف نے بتایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مسائل کے حل کی خاطر یہاں کی سیاسی جماعتوں کو لوگوں کے ساتھ تال میل قائم کرکے اُن کے شکایات کو سننا چاہئے۔ بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے ایک انٹرویو کے دوران کشمیری نوجوانوں کو آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہونے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو آزادی ملنا ناممکن ہے اور جو بھی شخص بھارت سے آزادی کا مطالبہ کرے گا آرمی اُس کے ساتھ جنگ کرے گی۔ انہوں نے کشمیری نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ وادی میں سیکورٹی فورسز اتنا ظلم نہیں کرتی جتنا کہ پاکستان اور شام میں حکومتی فورسز انجام دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشیدہ اور پرتنائو صورتحال کے دوران پاکستان اور شام میں فورسز جہاں زمینی تنائو سے نمٹے کے لئے ٹینکوں کا استعمال کرتی ہے وہیں عام لوگوں کو کچلنے کے لئے اُوپر سے بم برسائے جاتے ہیں۔ آرمی چیف نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی جانب سے عسکریت کی راہ اپنانے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وادی کے نوجوانوں کو بے بنیاد نعروں کی آڑ میں گمراہ کیا جارہا ہے اور انہیں بندوق اور پتھرائو کے ذریعے آزادی کے خواب دکھائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں کشمیری نوجوانوں کو بتادینا چاہتا ہوں کہ آزادی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔آپ لوگ بندوق کیوں اُٹھارہے ہو؟ ہم ہمیشہ علیحدہ رہنے والوں اور آزادی کا مطالبہ کرنے والوں سے جنگ کریں گے۔ آزادی کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوگا، کبھی بھی نہیں‘‘۔ وادی میں جنگجوئوں کی پے در پے ہلاکتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ’’ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنے جنگجو مارے جاتے ہیں۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں کیوں کہ ابھی بھی بہت سارے نوجوان جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔ میں بس اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ یہ ایک لاحاصل عمل ہے اور اس کے ذریعے سے آپ کچھ بھی حاصل نہیں کرپائو گے۔ آپ آرمی کے ساتھ جنگ نہیں کرسکتے ‘‘۔وادی میں جاری ہلاکتوں کے بارے میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ’’میں ان ہلاکتوں سے ذاتی طور پر پریشان ہورہا ہوں۔ہم انسانی جانوں کے تلف ہونے سے خوش نہیں ہوتے ہیں۔اگر آپ لوگ ہم سے جنگ کرنا چاہتے ہوںتو پھر ہم بھی آپ کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ جنگ کریں گے‘‘۔انہوں نے کہا کشمیر ی نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ وادی میں فورسز اہلکار اتنا ظلم روا نہیں رکھتی جتنا کہ پاکستان اور شام میں سرکاری فورسز کی جانب سے روا رکھا جاتا ہے۔ وہاں ٹینکوں اور بمباری کے ذریعے عام لوگوں کا قتل عام کیا جاتاہے۔ فورسز اہلکار وادی میں نوجوانوں کی طرف سے مشتعل کئے جانے کے باوجود بھی احتیاط برتتے ہیں ۔ فوج اور جنگجوئوں کے درمیان معرکوں کے موقعہ پر عام لوگوں کی جانب سے سنگ باری اور جنگجو مخالف آپریشنوں کے دوران رخنہ ڈالنے جیسی کارروائیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میں سمجھ نہیں پاتا ہوں کہ عام لوگ کیوں جنگجو مخالف آپریشنوں کے دوران گھروں سے باہر آکر فورسز اہلکاروں کے کام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں کون اُکساتا ہے؟ اگر عام لوگوں کو لگتا ہے کہ کسی جنگجو کو ہلاک نہیں کیا جانا چاہیے تو انہیں جھڑپ کے دوران جنگجو کے پاس جاکر انہیں بندوق چھوڑنے کے لیے قائل کرنا چاہیے تاکہ کوئی جنگجو فوجی کارروائی کے دوران نہ مارا جائے‘‘۔عام لوگوں سے سوالیہ انداز میں پوچھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’چلو اگرآپ میں سے کوئی یہ ضمانت دے کہ وہ چھپے بیٹھے جنگجوئوں کو باہر لائے گا‘ ہم اُسی وقت جنگجو مخالف آپریشن روک دیں گے‘‘۔مسئلہ کشمیر کے حل پر بولتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ کوفوجی طاقت کے بل پر حل نہیں کیا جاسکتا اور اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ وادی کی سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ جنوبی کشمیر کا دورہ کرکے وہاں لوگوں سے بات کریں اور اُن کے مسائل کو سنیں۔ مگر بدقسمتی سے سیاست دانوں کو اپنی جانوں کا خوف لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ وہاں جانے سے قاصر ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اُمید رکھتے ہیں جنوبی کشمیر میں حالات بہت جلد ٹھیک ہوں گے اور لوگ اس بات کو بخوبی سمجھیں گے کہ جو وہ کررہے ہیں وہ ایک لاحاصل عمل ہے۔جنرل بپن راوت نے مزید کہا کہ ہم جنگجو مخالف آپریشنوں پر روک لگانے کے لیے تیار ہیں مگر ہمیں کون ضمانت فراہم کرے گا کہ فوج، سی آر پی ایف، پولیس، سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنوں پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔
’تشدد ناقابل برداشت‘
نو منتخب اسپیکر نے
جنرل راوت کی تائید کی
سری نگر//ریاستی اسمبلی کے نومنتخب اسپیکر ڈاکٹر نرمل سنگھ نے آرمی چیف جنرل بپن راوت کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وادی میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے بیان نے واضح کردیا کہ ملک میں جمہوریت کو زک پہنچانے کی کسی بھی شخص کو اجازت نہیں دی جائے گی اور ملک کے اندر تشدد کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ ریاستی اسمبلی کے نومنتخب اسپیکر نے اپنے منصب پر فائز ہونے کے چند منٹ بعد ہی آرمی چیف جنرل بپن راوت کے بیان کی پرزور الفاظ میں حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وادی میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے بیان نے واضح کردیا ہے کہ ملک میں کسی بھی شرپسند کو تشدد کو ہوا دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ڈاکٹر نرمل سنگھ نے عام لوگوں سے آگے آنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کو تشدد کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے اکٹھے اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا ریاست میں امن اور خوشگوار ماحول کو پروان چڑھانے اور تشدد کے خاتمے کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ واضح رہے جمعرات کو آرمی چیف جنرل بپن راوت نے قومی اخبار کو انٹرویو کے دوران کشمیری نوجوانوں کو صلاح دیتے ہوئے کہا کہ آزادی حاصل کرنا ناممکنات میں سے ہیں اور اگر نوجوان فوج کے خلاف محاذ آرائی کرتی ہیں تو فوج بھی پوری قوت کے ساتھ جنگ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی جانب سے کی جانے والی سنگ باری سے ہی فورسز اہلکار مشتعل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے مظاہرین کے خلاف کارروائی کرنا ناگزیر بن جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنگجوئوں کی پے در پے ہلاکتوں سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ یہ سلسلہ یہاں جاری رہنے والا ہے اور نوجوان ہنوز جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔
جذبہ ٔ مزاحمت فوجی طاقت سے کئی گنا عظیم:حریت
نیوز ڈیسک
سرینگر// جنرل بپن راوت کی جانب سے کشمیر پر دئیے گئے حالیہ بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے میرواعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس (ع)نے کہا ہے کہ کیا برطانوی فوج کا سربراہ ،جس فوج نے ہندوستان کو اپنی نوآبادی بنایا تھا اور یہاں پر 100 سال سے زائد عرصہ حکومت کی ، ہزاروں ہندوستانیوں کو ہلاک کیا اور جلیاں والا باغ جیسے قتل عام کئے ،کبھی یہ تسلیم کرتا کہ ہندوستانیوں کو آزادی ملے گی؟ برطانوی فوج کوہندوستان پر قبضہ قائم رکھنے کیلئے کشمیر میں تعینات ہندوستانی فوج کی طرح تمام وسائل اور طریقے موجود تھے لیکن اس کے باوجود انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑاکیونکہ عوام کا اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا عزم اور اپنی تقدیر سازی کی خواہش کسی بھی فوجی طاقت سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ حریت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی سربراہ کو اپنی سیاسی قیادت سے یہ بنیادی سوال پوچھنا چایئے کہ کشمیر کی گلیوں ، گائوں ، سڑکوں اور لوگوں کے گھروں کے باہر جگہ جگہ اتنی بڑی تعداد میں باقاعدہ فوج کیوں تعینات ہے؟ لوگ ان نوجوان لڑکوں جو اپنا تابناک مستقبل چھوڑ کر ہتھیار اٹھالیتے ہیں کی حمایت میں جان تک کی قربانی کیوں دیتے ہیں؟ تعلیم یافتہ نوجوان جو فوج کی طاقت اور تعداد سے بخوبی آگاہ ہیں کیوں اس راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں؟ فوجی سربراہ کو یہ سوال بھی پوچھنا چایئے کہ اس کے جوانوں کو کیوں حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی قیمت اپنی جان سے چکانا پڑتی ہے اور وہ بھی ایک ایسے مسئلہ جس کے بارے میں خود فوجی سربراہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے ۔ بھارتی فوج کے سربراہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ہتھیار بند مزاحمتی نوجوان کو مارنے سے دوسرے 10 نوجوان ہتھیار اٹھانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ فوجی سربراہ کی یہ دھمکی کہ ملک شام کی طرح یہاں بھی بمباری کی جاسکتی ہے حقیقت معلوم پڑتی ہے لیکن ساتھ ہی عوام کا حصول حق خود ارادیت و انصاف کیلئے عزم کے ساتھ ساتھ اُن کا جذبۂ مزاحمت اور پچھلے70 برس سے اس مقصد کیلئے دی گئی بے شمار قربانیاں بھی ایک حقیقت ہے۔ فوج کے سربراہ آتے اور جاتے ہیں لیکن کشمیریوں کے ساتھ اقوام متحدہ میں ہندوستانی اور پاکستانی قیادت کی جانب سے اوراس ادارے سے توثیق شدہ وعدہ قائم ہے جو کشمیر کی موجودہ صورتحال کا پس منظر فراہم کرتا ہے ۔ تنازعہ کشمیر ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہے جسے شفقت اور سیاسی سوجھ بوجھ سے ہی حل کیا جاسکتا ۔ فوجی طاقت اور جبر کے استعمال سے یہ مزید پیچیدہ اور طویل بن جائیگا۔
جیت یا موت
مزاحم قوم کے سامنے صرف دو راستے:یاسین ملک
نیوز ڈیسک
سرینگر//بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت کے کشمیر سے متعلق دئے گئے حالیہ بیان کو تضادات کا مجموعہ اور غیر منطقی قرار دیتے ہوئے لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہا کہ کشمیریوں کے نام دھمکی آمیز بیانات جاری کرنے سے قبل جنرل راوت کو بنیادی تاریخ حقائق سے روشناس ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک قوم و ملت کہ جس نے غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کا عزم بالجزم کرلیا ہو اُسے دھمکیوں اور دھونس سے دبانا ممکن نہیں ہوا کرتا ہے۔یاسین ملک نے کہاکہ جلد یا بدیر بھارت کو جموں کشمیر پر سے اپنا غیر قانونی تسلط ختم کرکے اِسے آزاد چھوڑنا پڑے گا کیونکہ آخری فتح سچائی کی ہوا کرتی ہے فوجی طاقت کی نہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگرآرمی چیف کے آزادی سے متعلق بیان میں کچھ بھی حقیقت ہوتی تو آج بھی نصف سے زائد دنیا بشمول خود بھارت بیرونی تسلط کے نیچے غلامی پر مجبور ہوتا۔انہوں نے کہا کہ بھارتی جنرل اپنے بیان میں فوجی طاقت کا نشہ ظاہر کرتے ہوئے ٹرین ، فروٹ اور سیاحت کی باتیں فرماکر کشمیریوں کو بھارت کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوجانے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے موصوف اس بات کو فراموش کئے دیتے ہیں کہ ان سے قبل بھی کئی جنرل آئے اور گئے ہیں جنہوں نے کشمیریوں کے خلاف طاقت کا بے تحاشہ استعمال بھی کیا اور ساتھ ساتھ بڑی جمہوریت کے نام پر پرفریب سیاست اور سفارت کاری بھی کی لیکن کشمیریوں کو زیر کرنے کی ان کی چہیتی سوچ کبھی حقیقت کا سورج نہیں دیکھ پائی۔ جے کے ایل ایف چیئرمین نے کہا کہ جنرل بپن راوت کیلئے ہمارا جواب وہی ہے جو گاندھی جی نے برطانوی سفیر کو دیا تھا جس نے گاندھی جی سے کہا تھا کہ وہ کیونکر برطانوی طاقت کے خلاف لڑ سکتے ہیںاور کیسے برطانوی طاقت کے بغیر آزاد بھارت معاشی طور پر قائم رہ پائے گا۔ گاندھی نے سفیر کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک غریب اور نکمی آزاد ریاست اور خودمختار حکمرانی کو ایک لائق ،طاقتور اور مال دار غلامی پر ترجیح دیں گے۔ یاسین ملک نے کہا کہ کشمیریوں نے ناجائز اور غیر قانونی تسلط سے خلاصی اور آزادی پانے کی ٹھان رکھی ہے اور ہمارا وعدہ ہے کہ ہم جیت جائیںیا مر سکتے ہیںلیکن کبھی بھی بھارتی طاقت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوںگے۔
رمضان سیز فائر پر حکمران اتحاد منقسم
بھاجپا نے وزیر اعلیٰ کی اپیل سے پلو جھاڑا
کہا آپریشن آل آئوٹ آخری مراحل میں ، جاری رکھا جائے
اروند شرما
جموں//وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرف سے مرکزی سرکار کو ماہ صیام اور امرناتھ یاترا کے دوران جنگ بندی کی اپیل کے دوسرے ہی دن بی جے پی نے کہا کہ ’ہم ایسی ہر تجویز کی ہر ممکن مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ اوپریشن آل آئوٹ حتمی مراحل میں داخل ہو چکاہے اور اسے ہر حال میں جاری رکھا جانا چاہئے‘۔ بی جے پی کے ریاستی ترجمان نے کہا کہ سیز فائر کرنے کی اپیل ہمیں اعتماد میں لئے بغیر کی گئی ہے اور اس مرحلہ پر ہم ایسی ہر تجویز کی بھر پور مخالفت کرتے ہیں، ایسا کوئی بھی قدم قومی مفاد میں نہیں ہوگا، فوج نے قربانیاں دے کر قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے ، اسے پوری شدت کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ بھاجپا کے ریاستی ترجمان اعلیٰ سنیل سیٹھی نے جلد بازی میں طلب کی گئی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم پوری طرح سے سیز فائر تجویز کو مسترد کرتے ہیں، ملی ٹینٹوں کو کسی بھی قسم کی ڈھیل نہیں دی جانی چاہئے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کانفرنس پارٹی اعلیٰ کمان کے اشارہ پر بعد دوپہر طلب کی گئی جس میں ترجمان نے وزیر اعلیٰ کے اس دعویٰ کو بھی خارج کر دیا جس میں موخر الذکر نے کہا تھا کہ گزشتہ روز منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں رمضان کے دوران جنگ بندی اپیل کیلئے تمام جماعتیں متفق تھیں ۔ بی جے پی ترجمان نے کہا کہ ’ہم اس فیصلہ میں شامل نہیں ہیں، یہ معاملہ آل پارٹی میٹنگ میں زیر بحث ہی نہ رہا بلکہ ایک کشمیری ممبر کی طرف سے تجویز پیش کی گئی جس پر ایک یا دو دوسرے کشمیری لیڈروں نے بات کی تھی اس لئے اسے سبھی کا متفقہ فیصلہ کہنا درست نہ ہوگا۔
حلیف ہی ساتھ نہیں تو میٹنگ کا کیا مطلب: عمر
بلال فرقانی
سرینگر// وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو نشانہ بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے بھاجپا کی طرف سے رمضان جنگ بندی مطالبے کو مسترد کرنے پر کل جماعتی اجلاس طلب کرنے پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔ ریاست کی مخدوش صورتحال پر کل جماعتی اجلاس طلب کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے مرکزی حکومت کو ماہ رمضان میں جنگ بندی کرنے کے معاملے کو زیر غور لانے کی صلاح دی تھی۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو انکی حمایتی جماعت کی طرف سے اس معاملے پر منکر ہونے پر نشانہ بنا یا ۔عمر عبداللہ نے ٹیوٹر پر تحریر کیا’’ محبوبہ مفتی کی طرف سے کل جماعتی اجلاس طلب کرنے کا مرکزی نقطہ کیا تھا کہ کشمیر پر پہل کے ارد گرد رائے عامہ منظم کیا جائے،جب حکومت میں ان کی حلیف جماعت،ان کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتی! اس کے باوجود وہ بے شرمی کے ساتھ اقتدار سے چپٹی ہوئی ہے،کیونکہ اس کیلئے صرف یہی ایک چیز ہے،جو اس کیلئے معنی رکھتا ہے‘‘۔
مختصراسمبلی اجلاس
ڈاکٹر نرمل سنگھ قانون ساز اسمبلی کے سپیکر منتخب
حزب اختلاف کاحکومت پر قواعد نظر انداز کرنے کا الزام
بلال فرقانی
سرینگر//ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے سپیکر کے انتخاب کو موخر کرنے کے مطالبے اور اسمبلی کاروائی آدھ گھنٹے تک ملتوی کرنے کے بعد سابق نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ کو زبانی ووٹوں سے اسمبلی اسپیکرمنتخب کیا گیا۔انتخابات کے بعد ڈاکٹر سنگھ کو وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ، پارلیمانی امو رکے وزیر بشارت بخاری ، شہری ترقیات کے وزیر ست پال شرما، اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نذیر احمد گریزی ، ارکان قانون ساز یہ میاں الطاف احمد ، ایم وائی تاریگامی اور انجینئر عبدالرشید نے سپیکر کی نشست تک پہنچایا۔ایوان سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سنگھ نے ایوان کی کارروائی کو احسن طریقے پر انجام دینے ممبران کا تعاون طلب کیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ایک طرف ریاست جموںوکشمیر میں کثرت پائی جاتی ہے وہیں اس ریاست کو چیلنجوںکا بھی سامنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں ایوان کا کلیدی رول بنتا ہے ۔انہوں نے یقین دلایا کہ وہ ارکان قانون سازیہ کی توقعات پر کھر ا اترنے کی کوشش کریں گے۔ڈاکٹر نرمل سنگھ نے سابق سپیکر کویندر گپتا کے سپیکر کی حیثیت سے رول کی تعریف کی۔اسمبلی کا سپیکر منتخب ہونے پر وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ڈاکٹر نرمل سنگھ کو مبارک باد دی۔دریں اثنا اس موقعہ پر ست پال شرمانے نائب وزیر اعلیٰ کے طور ڈاکٹر سنگھ کے رول کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ سپیکر کا رول بھی پوری ذمہ داری سے نبھائیں گے ۔نائب سپیکر نذیر گریزی نے نئے سپیکر کو نیک خواہشات پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ اسمبلی کے نمائندوں ک توقعات پر کھرا اتریں گے اور اسمبلی کے امور احسن ڈھنگ سے چلائیں گے ۔ ریاستی کابینہ اور وزارت میں30اپریل کو توسیع اور پھیر بدل کے دوران سپیکر اسمبلی کیوندر گپتا کو نائب وزیر اعلیٰ کا قلمدان سونپا گیاتھا،جس سے سپیکر کی کرسی خالی ہوئی۔7اپریل کو سرینگر میں دربار سجنے کے ساتھ ہی سپیکر کی خالی نشست کو پر کرنے کیلئے نوٹیفکیشن جاری کی گئی،جس میں10مئی کو سپیکر کا انتخاب کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔جمعرات کو ریاستی اسمبلی میں2 بجے اسمبلی ایوان ارکان سے بھر گیا،اور نئے سپیکر کو منتخب کرنے کی کاروائی شروع ہوئی،تاہم ایک گھنٹے تک جاری رہنے والا اسمبلی اجلاس آدھے گھنٹے تک ملتوی کیا گیا۔اس موقعہ پر نیشنل کانفرنس کے سنیئر لیڈر محمد شفیع اوڑی نے مشورہ دیا کہ ضوابط کے نفاد اور نظام میں مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے انتخابات کو موخر کیا جائے،اور ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے،تاہم اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اسمبلی اجلاس کو موخر کرنے کے حق میں دلائل پیش کرنے کے باوجود پارلیمانی قانون وامور کے وزیر بشارت بخاری نے سپیکر کو منتخب کرنے کی تحریک پیش کی،جس کے فو ری بعد محمد شفیع اوڑی ایوان سے باہر چلے گئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے عثمان مجید کا نام سپیکر کی کرسی کیلئے پیش کیا،تاہم زبانی ووٹوں سے مخلوط سرکار کے امیدوار اور سابق نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ کو سپیکر اسمبلی منتخب کیا گیا۔اس موقعہ پر نیشنل کانفرنس کے سنیئر لیڈر میاں الطاف احمد نے سرکار سے مطالبہ کیا کہ اجلاس کو بڑھا دیا جائے،تاکہ عوامی مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اب یہ دوسرا سال ہے ،جب سرینگر میں اسمبلی اجلاس طلب نہیں کیا گیا۔اس سے قبل ایک گھنٹے تک جاری رہنے والا اسمبلی کا اجلاس ادھے گھنٹے تک اس وقت معطل کیا گیا،جب حزب اختلاف کی جماعتوں نے ارکان اسمبلی کو مطلع کرنے کے عمل پر سوالات کھڑے کئے۔ ممبران اسمبلی نے کہا کہ انہیں اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے معقول وقت نہیں دیا گیا۔ اگر چہ حکمران جماعت کو اس بات کی توقع تھی کہ متفقہ رائے سے سپیکر اسمبلی کو منتخب کیا جائے گا،تاہم اپوزیشن نے بتایا کہ انہیں بھی امیدوار کھڑا کرنا تھا،جس کیلئے وہ چاہتے کہ تمام ارکان ایوان میں حاضر رہیں۔ محمد شفیع اوڑی نے بتایا کہ سرکار نے ممبران کو سرینگر پہنچنے کیلئے صرف ایک دن دیا،جو صحیح طریقہ کار نہیں ہے،اور بقول انکے اسی لئے لداخ اور دیگر خطوں سے بشمول کانگریس کے نوان ریگزن جورا،الطاف احمد کلو،جاوید احمد رانا،اور دیگر ممبران اسمبلی سرینگر پہنچ نہیں سکے۔انہوں نے کہا اگرچہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے تمام ممبران کورم میں ہے،تاہم اپوزیشن خیمے سے وابستہ ممبران سرینگر پہنچ نہ پائے،کیونکہ انہیں معقول وقت نہیں دیا گیا۔ محمد شفیع و اوڑی نے کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی سرینگر سے باہر تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ارکان اسمبلی کو پیشگی میں ہی اطلاع دینی چاہئے تھی،تاہم انہیں سب سے آخر میں پتہ چلا۔انہوں نے کہا کہ ریاستی گورنر نے صرف ایک روز قبل ہی اسمبلی طلب کی۔اس موقعہ پر ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے بتایا کی ضوابط و قواعد کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ ہوئی،کیونکہ بیشتر ارکان اسمبلی کو میڈیا کی توسط سے مطلع کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ممبران کو انٹرنیٹ کے ذریعے دعوت نامے ارسال کئے گئے،تاہم ریاست کے ہر حصے میں یہ سہولیات میسر نہیں تھیں۔ ایوان اسمبلی میں ممبران کی طرف سے شور وغل جاری ہی تھا کہ ڈپٹی سپیکر نذیر احمد گریزی نے مداخلت کرتے ہوئے ادھ گھنٹے تک اسمبلی کی کاروائی ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا میں نہیں چاہتا کہ ایوان اس معاملے پر تقسیم ہو۔انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی بتایا کہ اسمبلی سیکریٹریٹ نے ممبران کو ٹیلی گرام ارسال کیں،اور یہاں تک کہ انہیں فون پر بھی مطلع کیا گیا تھا۔انہوں نے موجودہ دور کو انٹرنیٹ کا دور قرار دیا۔ گریزی نے کہا کہ ایوان اسمبلی میں روایت چلی آرہی ہے کہ متفقہ رائے کے ذریعے سپیکر کو منتخب کیا جاتا ہے۔اپوزیشن جماعتوں نے گزشتہ روز کل جماعتی اجلاس کے دوران3دنوں تک کیلئے ایک گھنٹے پر محیط خصوصی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا،تاکہ ریاست کی موجودہ مخدوش صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے،تاہم سرکار نے اس مطالبے کو مسترد کیا۔