ریاست جموں و کشمیر میں مارچ 2018ء کے آخری ایام میں ہی میں ایک واضح سیاسی پالیسی کا اعلان ہوا ہے جس کے بموجب مقاومتی لیڈرشپ کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ اپنی سیاسی سر گرمیوں کی خاطر کہیں بھی آ جا سکیں جب کہ اُن کی سیاسی سر گرمیوں پر ریاستی پہرے لگے ہوئے تھے اور اب بھی ہیں ۔ البتہ جو عملی آزادی مقاومتی لیڈرشپ کیلئے میسر رکھی گئی ہے وہ شرطیہ ہے یعنی وہ کوئی بھی ایسی تقریر کرنے کے مجازنہیں ہوں گے جو ریاست کے خلاف ہو اور اُن کی سیاسی سر گرمیوں سے امنیت عامہ میں کوئی خلل نہیں پڑنی چاہیے۔آزادی شرائط کے ساتھ ایک ایسا ریاستی نسخہ ہے جس کی نظیر ریاست جموں و کشمیر کے علاوہ کسی اور ریاست میں مشکل سے ہی ملی گی۔یہ نسخہ ریاستی پولیس چیف کا تجویز کردہ ہے جبکہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں یہ ریاست کی سیاسی اکائی کے توسط سے منظر عام پہ آنا چاہیے تھا۔ ریاست کی سیاسی اکائی وزرا کی وہ کابینہ ہے جو ایک عام چناؤ کے بعد اکثریتی پارٹی تشکیل دیتی ہے یا ایسی صورت میں جہاں کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہ ہو ایک ملی جلی سرکار بنتی ہے جس کا سر براہ وزیر اعظم یا وزیر اعلی ہوتا ہے۔سیاسی فیصلے کابینہ کی ذمہ واری ہوتی ہے نہ کہ ریاست کی امنیت کے محافظ پولیس افسراں کی جن کا کام کابینہ کے فیصلوں کا اجرا ہوتا ہے لیکن جہاں کسی بھی نئی سیاسی روش کے ترجمان پولیس افسراں ہوں کی وہاں یہ الزام تراشی کہ ریاست میں پولیس راج ہے کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
ریاست جموں و کشمیر کی مقاومتی لیڈرشپ کی سیاسی سر گرمیوں پہ عرصہ دراز سے پہرے لگائے گئے ہیں ۔یہ پہرے یا تو کسی جیل میں قید و بند کی صورت میں ہیں یا ایک ایسی صورت میں جسے عرف عام میں ’ہاوس ایرسٹ‘ کا عنواں دیا جاتا ہے یعنی اقامت گاہ کو ہی جیل بنادیا جاتا ہے تاکہ ریاست اِس الزام سے بچ جائے کہ اُنہوں نے کسی لیڈر کو ایک تعین شدہ جیل میں قید کر رکھا ہے۔مقاومتی لیڈرشپ میں سب سے قد آور لیڈر سید علی شاہ گیلانی پچھلے کئی سالوں سے بہ اصلاح عام ’ہاوس ایرسٹ‘میں زندگی گذار رہے ہیں ۔بار بار اُن کی سیاسی جماعت حریت (گ) یہ اعلان کر چکی ہے کہ اُن کی صحت مسلسل نظر بندی سے متاثر ہو رہی ہے اور ویسے بھی وہ کئی ایک امراض میں مبتلا زیر علاج ہیں۔ریاست کے میر واعظ مولوی عمر فاروق بھی بار بار ’ہاوس ایرسٹ‘ رہے جسے وہ اپنی سیاسی سر گرمیوں کے علاوہ اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی سے محروم رہے۔اُن کے مذہبی فرائض میں سرینگر کی جامع مسجد میں جمعہ کا وعظ شامل ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی رہا کہ اُنہیں ہفتوں جامعہ مسجد جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ریاست کی متحدہ مقاومتی لیڈرشپ میں محمد یسین ملک متواتر جیل یاترا کرتے رہے ہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ وہ سنٹرل جیل کے اندربھی اُن کا اتنا ہی وقت صرف ہوتا ہے جتنا کہ سنٹرل جیل کے باہرجس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اُن کی اقامت گاہ ایک ایسے محلے میں ہے جو مقاومت کا ایک مانا ہوا مقام ہے اور وہاں اُن کو پہرے میں رکھنا ایک مشکل امر ہے۔
مارچ 2018ء کے آخری ایام میں شرطیہ آزادی عمل کے اعلانیہ کے بعد سید علی شاہ گیلانی نے سالوں ہاوس ایرسٹ کے بعد جامعہ حیدر پورہ میں جمعہ کی نماز ادا کی اور میر واعظ عمر فاروق بھی نسبتاََ آزادی سے اپنے مذہبی و سیاسی فرائض انجام دینے لگے ۔جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد یسین ملک نے بھی اپنی سیاسی کاروائیوں میںتیزی لانی شروع کی لیکن ابھی چند ہی روز گذرے تھے کہ اپریل کی پہلی تاریخ کا وہ دلدوز دور آیا جب ایک ہی دن میں 13جنگجو،4شہری (سویلین) اور فوج کے تین آدمی ایک خونریز جھڑپ میں لقمہ اجل ہوئے۔بیس افراد کی ایک ہی دن میں موت کے علاوہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے جن میں 41ایسے بھی افراد تھے جن کی آنکھیں پیلٹ گن سے مجروح اور اُن کی قوت بینائی متاثر ہوئی۔ اول اپریل کے خونریز واقعات کے بعد مزاحمت کے ایک اور شدید دور کا آغاز ہوا جس کے دوراں لیڈرشپ کو پھر قید و بند میں رکھا گیا حتّی کہ اُنہیں شوپیاں جانے سے تب روکا گیا جب شوپیاں چلو کی کال دی گئی تھی۔جہاں سید علی شاہ گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق پہ ہاوس ایرسٹ کے پہرے لگائے گئے وہی یسین ملک کو سنٹرل جیل پہنچایا گیاجہاں سے وہ کم و بیش ہفتے بھر کے بعد رہا ہوئے۔اِس طرح گر چہ مارچ کے آخری دنوں کی شرطیہ آزادی پہ روک لگ گئی لیکن کچھ ایسے قرائین و شواہد ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید نئی دہلی ریاست میں ایک نئے سیاسی عمل کے اجرا کیلئے پر تول رہی ہے ۔اِن قرائین و شواہد کا ہم آخر میں جائزہ لیں گے۔
ریاست جموں و کشمیر میں مقاومتی لیڈرشپ پہ قید و بند کے پہرے آج ہی کی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے۔ 1947ء میں ریاست میں جو سیاسی تبدیلی آئی اُس میں عوام الناس کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا ۔ایسے فیصلے لئے گئے جو سیاسی طور پہ لوگوں کے رحجان سے میل نہیں کھاتے تھے۔ اِس صورت حال کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مقاومتی عمل کی شروعات ہوئی جو پچھلی سات دہائیوں سے مختلف شکلوں میں مختلف عنواں لئے چلی آ رہی ہے۔اِس مقاومتی عمل کو ریاستی تشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی اور ستم ظریفی یہ رہی کہ ریاستی تشدد کو فروغ دینے والے رہبر ہی 1953ء کے بعد اُسکا شکار ہوکے ایسے پشیماں ہوئے کہ زود پشیماں کے پشیماں ہونے کی شاعرانہ طرح اُن پہ صادق ہوئی۔ 1955ء میں مقاومت نے محاز رائے شماری کی شکل اختیار کی اور ایسا ہوتے ہی ریاستی عتاب حزب نو زائدہ پہ ایسا نازل ہوا کہ دو دہائیوں تک قید و بند کی صعوبتوں کے علاوہ مختلف مقدمات اُن پہ چلتے رہے جن میں کشمیر سازش کیس و حضرت بل قتل کیس قابل ذکر ہیں ۔1971ء کی جنگ اور بنگلہ دیش کی تشکیل کے بعد 1953ء میں شروع ہوئی مقاومت پگھلنے لگی ۔مقاومتی لیڈرشپ کو روٹھے ہوئے ساتھیوں کا عنواں ملنے لگا اور اُنہیں منانے کی کوششوں کا آغاز بھی ہوا۔
1972ء میں روٹھے ہوئے ساتھیوں نے انتخابی عمل میں شریک ہونے کی تیاریاں شروع کی لیکن کچھ منظور نظر افراد کے سوا مجموعاََ اُنہیں انتخابی عمل سے دور ہی رکھا گیا چونکہ بصورت ایک مزاحمتی عمل کے انتخاب لڑنے پہ ریاستی حکام نے ہمیشہ ہی قدغن لگا لی ہے اور یہ بات 1972ء میں ثابت بھی ہوئی جبکہ محاز رائے شماری کی لیڈرشپ کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر کے انتخابی عمل سے دور رکھا گیا۔جموں و کشمیر کی یہ انتخابی روش رہی ہے کہ انتخاب ریاستی شرائطوں پہ لڑنا پڑتا ہے۔دیکھا جائے تو مخالفوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کا آغاز محاز رائے شماری کے رہبروں نے ہی کیا تھا۔1951ء میں جب آئین ساز اسمبلی کا نمائشی انتخاب عمل میں آیا تو کچھ گنی چنی سیٹوں کے علاوہ سب ہی ممبراں بلا مقابلہ ہوا منتخب ہوئے اوریہی سے ریاست میں بلا مقابلہ منتخب ہونے کا عمل شروع ہوا جس کی بعد میں پیروی ہوتی رہی۔ 1975ء میں محاز رائے شماری کی رہی سہی مقاومت مکمل سقوط کا شکار ہوئی اور مقاومتی لیڈرشپ نے کچھ بھی حاصل کئے بغیر ہتھیار ڈال دئے ۔ یہ سب ہوتے ہوئے بھی عوام الناس کا مقاومتی جذبہ سیاسی راکھ تلے ایک چنگاری کی صورت میں موجود رہااور 1980کے دَہے کے آخری سالوں میں ایک آگ کی صورت میں نمودار ہوا اِس فرق کے ساتھ کہ مقاومت کا ایک جنگجویانہ بازو بھی منظر عام پہ آیا۔مقاومت کا یہ نیا رنگ ہزاروں کی جاں عزیز لے بیٹھا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ لا پتہ ہو گئے،سیکڑوں کی تعداد میں نیم بیوائیں وجود میں آئیں جن کے شوہروں کا کوئی پتہ کوئی ٹھکانا نہیں رہا، کئی قبرستان ایسے بھی ہیں جن میں دفن شدہ افراد کا کوئی نام پتہ نہیں۔ریاست کے نئے مقاومتی رنگ کو دبانے کیلئے کوئی ایسا ریاستی حربہ نہیں رہا جسے عمل میں نہ لایا گیا ہوگر چہ بیچ بیچ میں ایسے بھی مقام آئے جہاں یہ امید بندھ گئی کہ شاید کوئی بہتری کی صورت اُبھر آئے لیکن یہ امیدیں بھر آنے سے رہیں۔
ریاست کی مقاومتی رہبری کی جدید شکل 1993ء میں منظر عام پہ آئی جب تحریک حریت کا ظہور ہوا۔ مقاومتی رہبری نے مقاومت کی بنیاد جہاں مسلہ کشمیر کے سیاسی تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اجرا پہ رکھی وہی یہ بھی مد نظر رکھا گیا کہ متبادل طریقہ کار سہ فریقی مذاکرات ہو سکتے ہیںجہاں ہند و پاک اور جموں و کشمیر کے حقیقی نمائندے مذاکرات کے ذریعے ایک ایسے حل کے متلاشی رہیں گے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ کئی تجزیہ نگاروں کی رائے میں اصرار اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ سیاسی تصفیہ کا بہترین طریقہ کار اقوام متحدہ کی قراردادوں کا اجرا ہی ہو سکتا ہے جبکہ متحدہ حریت میں کئی ایسے رہبر بھی تھے جنکا تکیہ بقول شخصے زمینی حقائق پہ رہا بہ معنی دیگر اُنکی نظر میں زمینی حقائق اور زمانے کے تقاضات کو مد نظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اجرا میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ خیالات کی یہ دوہری روش آگے جا کے رہبری کی صفوں میں رخنے کا سبب بن گئی ۔مشرف فارمولہ جو کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے اجرا کے برعکس مسلہ کشمیر کے تصفیے کیلئے ایک متبادل طریقہ کار تھا اختلاف نظر کا سبب بنا گر چہ اجرا سے پہلے ہی یہ دفتر بھی گائے کھا گئی اور مسلہ کشمیر لائنحل رہا اور آج تک صورت حال یہی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ہند و پاک کے مابین کچھ حد تک اعتماد سازی سے خط متارکہ پہ صورت حال 2003ء سے تقریباََ ایک دَہے تک نسبتاََ پُر امن رہی لیکن خط متارکہ کی صورت حال کا اثر کشمیر کے شہروں و قصبوں میں دیکھنے کو نہیں ملا۔
کشمیر میں گذشتہ صدی کے آخری دَہے میں صورت حال کافی کشیدہ رہی ۔یہ جنگجویانہ سر گرمیوں کا ایک شدید دور تھا ۔صدیوں کے بدلاؤ کے ساتھ ہی گر چہ جنگجویانہ سرگرمیاں دھیمی پڑ گئیں لیکن عوامی مقاومت کے شدید دور دیکھنے کے ملے جن میں 2008/9/10کے تین سالوں میں مقاومت مختلف وجوہات کی بنا پہ شدت اختیار کر گئی اور عوامی احتجاجی مہم میں سینکڑوں جانوں کا زیاں ہوا۔اِن سالوں میں اِس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ ریاستی فورسز مقاومت کو دبانے میں کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں اور یہ حقیقت 2016ء میں عیاں تر ہوئی جب برہان وانی کے سانحہ کے بعد عوامی احتجاج کا لاوا ابل آیا۔ اِس سانحہ کے بعد جنگجویانہ مقاومت کا ایک اور شدید دور منظر عام پہ آیا اور جنگجوؤں اور فورسز کے درمیاں تصادم کے بیچوں بیچ عوامی احتجاج کی ایک نئی لہر دیکھنے کو ملی جو آج تک جاری و ساری ہے۔ مقاومت کے اِس نئے دور کا مرکز جنوبی کشمیر رہا اور یہ ایک سلسلہ جاریہ بنتا جا رہا ہے۔
اِس بظاہر نہ ٹوٹنے والے سلسلے کو تجزیہ نگار ریاستی پالیسی میں اُس تبدیلی کا سبب مانتے ہیں جو مقاومتی لیڈرشپ کے گرد حصار توڑنے پہ منتج ہوا گر چہ ابھی کہنا مشکل ہے کہ یہ ایک عارضی اقدام ہے یا یہ قدم سوچ سمجھ کے اٹھایا گیا ہے۔ دؤل ڈکٹرین بتدریج فیل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔یہ ڈکٹرین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دؤل کی تشکیل شدہ پالیسی ہے ۔اِس پالیسی کے بموجب بھارت اپنی خارجی اور داخلی پالیسی میں سخت رویہ اپنانے سے ہی مثبت نتائج حاصل کر سکتا ہے۔اِسی پالیسی کے تحت کئی تجزیہ نگاروں کی نظر کشمیر میں مقاومت کو دبانے کی خاطر سخت رویہ اختیار کیا گیا اور پاکستان سمیت بھارت کے ہمسایہ ممالک کے تئیں بھی رویہ سخت رہا ۔پاکستان کے علاوہ نیپال بھی بھارت کی سخت روی کا شکار ہوا۔اس پالیسی کا نتیجہ یہ رہا کہ بھارت کے ہمسایہ ممالک چین سے نزدیک تر ہوتے گئے جس کی ایک وجہ چین کی وہ وسیع سرمایہ کاری بھی ہو سکتی ہے جس کا متحمل بھارت نہیں ہو سکتا۔حالیہ مہینوں میں چین کی نسبت بھارت کی پالیسی میں تغیر دیکھنے میں آیا ہے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی سفارتی ماحول کو سازگار بنانے پہ غور و فکر ہو رہا ہے۔پاکستان کے ساتھ بھی خط متارکہ پہ مسلسل فائرنگ کے واقعات میں بتدریج کمی آئی ہے اور خبریں یہی آ رہی ہیں کہ سفارتی عملے کے تئیں سلوک میں دونوں ممالک نرمی برتنے کے قائل ہوتے جا رہے ہیں ۔اول اپریل کے دلدوز واقعات کے فوری بعد پاکستان میں قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ اور پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر کے مابین اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔گذشتہ ہفتوں میں گر چہ یہ اقدامات خبروں میں سر فہرست رہے ہیں لیکن ابھی تک اِسی ایک واضح تبدیلی کا عنواں نہیں دیا جا سکتا۔آیا کشمیر کی مقاومتی لیڈرشپ کے تئیں نرم رویہ اپنانا کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے یا نہیں اِس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے کیلئے آنے والے ایام کا انتظار کرنا پڑے گا۔اللہ نگہباں! .
یار زندہ صحبت باقی
Feedback on: [email protected]