آج کل ہمارے معاشرے کے ذی ہوش طبقے کو یہ سوال بار بار ذہن وقلب کو کریدتا رہتا ہے کہ ہم مغرب سے کیوں شکست کھا ئے جار ہے ہیں ۔ مغربی تمدن جو کوئی بھی سحرسامری ایجاد کرتا ہے ،وہ ہمارے یہاں نمودار ہو تو ہم اس پر کیوں آگے بڑھ کر لپک پڑتے ہیں اور بے ساختہ بول اُٹھتے ہیں واہ کیا بات ہے ۔ کیاہمای مثال اس بچہ کی سی ہے جو ہر کھلونے کو دیکھ کر ضد کرتا ہے کہ یہ مجھے دے دو؟یہ طرزعمل ہمارے احسا س کم تری خود اعتمادی کا غماز ہونے میں دورائے نہیں۔ اب کیاہمیں اپنی ذات ،اپنے دین ،اپنے عقائد،اپنی خداداد صلاحیتوں اور اپنی صحت مند تہذیب وتمدن پر اعتماد نہیں رہا ہے؟مغربی تہذیب کی مرعوبیت سے ہم نے اپنی حقیقت اور اپنی قدرت واختیار کو بھولی بسری کہانی بناڈالا ہے ۔چاہئے تو یہ تھا کہ ہم مغرب سے اپنے مطلب کی نفع مند اور کار آمد چیزیں اختیار کرتے ہوئے صرف اُن صاف ستھرے اقدار کو اپناتے جو ہمارے عقائد ،اخلاق و اقدار سے ہم آہنگ ہوں۔ بے شک ہم مغرب کی ٹیکنالوجی کے مفید و سائل اختیار کرتے ہوئے بھی اپنی انمول تہذیب و تمدن کے تابع فرمان ہوکر رہ سکتے ہیں ،مگر افسوس کہ ہم تہذیب و تمدن اور انسانی قدروںتک میں غیروں کے دست نگر بننے میں کوئی باک نہیں سمجھتے ۔
ا س حقیقت سے ہر کوئی آشنا ہے کہ مسلمان خواتین کے لئے اسلامی تہذیب و تمدن کے آینئے میںایک روشن حال ، قابل فخرمستقبل اور باعزت زندگی کی ضمانت موجود ہے ۔ ہاں اس زندگی میں وہ خاتون خانہ ہے نہ کہ شمع محفل ، وہ ہوم میکر ہے نہ کہ نائٹ کلبوں کی رونق، وہ تقوی ٰ،امانت داری وایمان داری کی مثال ہے مگر اس نے اپنے اس تشخص کو مغرب کی اندھی تقلید میں روندڈالا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم خواتین نے اپنے تشخص کی حفاظت اور اس کی بقاء کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کیا۔ اس کے صلے میںمسلمان رہنما ،امراء و حکام ،سلاطین و بادشاہ تک اسلامی تہذیب و تمدن کے دامن گرفتہ ہوتے رہے۔ ان خواتین کی مساعیٔ جمیلہ سے ہی ہم اپنے دین و تہذیب ،اپنی معاشرت واخلاق ،اپنے اقدار و تصورات کے ساتھ صحیح و سالم زندہ رہے ۔ افسوس! آج جب ہم آس پاس نظر ڈالیں تو یہ پاتے ہیں کہ ہم میں بہت سی ایسی بہو بیٹیاں اور بہنیں دوڑتی پھرتی نظر آرہی ہیں جو نام نہاد آزادی کے نام پر اپنی شناخت تک کو تیاگ گئی ہیں ، ان کے لئے نسوانیت کی کوئی قدروقیمت نہیںرہی ہے ۔ واضح رہے کہ اسلام نے عورت کو گھر سے باہر بوجہ ضرورت نکلنے پابندی نہیں لگائی،نہ ہی اُسے ترقی کی منزلوں تک پہنچنے سے منع کیا ہے بشرطیکہ وہ اسلامی حدود کے اندر اندر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ آج کی تاریخ میں عورت کی گھر سے باہر لاکر مغرب ومشروق میں اس کا استحصال خوش نما ناموں سے جاری ہے ۔ پہلے اُس کا استحصال اس لئے کیا جاتا تھاکہ بے بس و مجبور ہوتی تھی لیکن آج وہ ’’آزاد خیالی ‘‘کے عنوان سے جان بوجھ کر اپنا استحصال کروا رہی ہے۔آج کی ترقی یافتہ دنیا نے عورت کو خوبصورتی اور حسن کاری کے نام پر اسے انتہائی پستی میں دھکیل دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بنت حواخود اس بات کو نہیں سمجھ پا رہی ہے۔
جب بیسویں صدی کے اواخرمیں دنیا بھر میں آزادیٔ نسواں اور نسوانی حقوق کے لئے ایک شور محشر برپا ہوا تو عورت نے اس کے پس پردہ اصل معاملہ اور منطقی نتائج سے بے خبر ہو کر اس شور کو گلے لگایاکہ اب مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے میںہی اس کی شان ہے۔ چنانچہ یہ ہرشعبے میں مردوں کے ساتھ کا م کر گئی اور ہر میدان میں اپنا لوہا منوانے میں لگ گئی لیکن ذرا حقیقت کی روشنی میں دیکھئے کہ کیا واقعی آج کی عورت مردوں کی پابند ہے یا آزاد؟کیا آزادیٔ نسواں وہ آوارگی نہیں جو ہمیں مغرب کی اندھی تقلید سمجھاتی ہے کہ جس نے عورت کو سرِعام برہنہ کرکے لاکھڑا کردیا؟مغرب نے آزادیٔ نسواں کی آڑ میں معصوم عورتوں کو ہوس رانیوں کے بھینٹ چڑھایا اور بدقسمتی سے حوا کی بیٹی نے ’’آزادی و بے باکی ‘‘کے اس ڈھکوسلے کو اختیار بھی کی۔ یوں اپنی آبرواور انسانیت کی لکشمن ریکھا سے باہر آکر وہ دنیا کی بیڑ میں ذرۂ بے جان بن کر گم ہوگئی۔ اس سے سماج میں فحاشیت اور اخلاقی پستی کی ایک زہر ناک آگ نمودار ہوئی ،جس نے عقائد و خیالات ، افکار و احساسات، سیاسی و اقتصادی نظام،انفرادی اور اجتماعی فلسفہ ٔ حیات اور معاشرتی تنظیم کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے کر بھسم کیا ۔ اس کے زیراثرعورت کی فطرت کا مفہوم بدلا ، اس کے لئے زندگی کے نئے غلامانہ تصور نے جنم لیا اور با لآخر اسے تہذیب جدید نے ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا جہاں وہ بہر حال خسارے اور ٹوٹے میں رہ گئی ہے ،اُس کا تخت بے تاج ہوگیا ہے ،اس کے ہاتھ میں سرمستی کی ذلتیں اوراس کے تصرف میں ہوس رانی کی قندیلیں تھما دی گئی ہیں،اس کی آنکھوںسُرمۂ حیا چھینا گیا ہے اور اس کے چہرے پر بدنامی کا غازہ مل دیا گیا ہے کہ آج کا انسانی معاشرہ نسوانیت کے ہمہ گیرزوال پررو رہا ہے ۔
عورتوں کے لئے مغرب کا تیار کردہ’’ آزادی کا منشور‘‘ بھلے ہی حقوق ِنسواں کی رٹ لگائے مگر اصل میں یہ وہ آزادی نہیں جو اسلام نے اسے جنتیوں کی ہم نشین قرارد ے کر عطا کی ۔ ہمیں اس آزادی کا عشر عشیر بھی یورپ یا امریکہ میں نظر نہیں آتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اباحت پسند مغرب کے بہکاوے میں آکر مشرق کی بعض نا عاقبت اندیش خواتین اسی طرف آنکھیں بند کر کے جارہی ہیں۔ کا ش یہ جانتیں کہ اسلام نے عورتوں کو کیا دیا ہے۔ اسلام نے ہی خواتین کو مستورات یعنی پردہ دار قیمتی چیز کا نام دیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ اپنے گھر کے سائبان میںمحفوظ ومامون ہیں۔اسلام نے عورت کو نکاح کے بندھن میںباندھ کر مرد کی ملکہ، گھر کی مالکن اور نسل انسانی کی محسنہ بنا دیا ہے ۔یہی وہ عزت و تکریم ہے جس سے مسلم خاتون بہرہ ور ہوکر بڑی بڑی ہستیوں کو جنم دے گئی،عورت اور مرد کے درجات یکساں طور اپنے اپنے دائرہ ٔکار میں فطرت کے عین مطابق متعین ہوئے۔اب اگر عورت مرد کی نگرانی سے بغاوت کرتی ہے تو وہ اپنی فطری حقیقت سے نظریں چرانے کا جرم کر تی ہے۔ ایک باشعور و مہذب عورت مرد کے ساتھ خوش اسلوبی سے رہتے ہوئے ہی بھی اپنی بہترین آزادنہ شناخت تسلیم کراتی ہے ۔ مثلاًباپ کا وجود ہے تو یہ باعزت گھرانے کی بیٹی ہے ۔ رفیق ِحیات ہے تو یہ نیک سیرت بیوی ہے ۔ صاحب ِاولاد ہے تو خاندان میں معزز و مکرم ہے۔اب ذرا اِن تمام رشتوں اور نازک ذمہ ادریوں سے مرد کو ہٹاکر دیکھئے، کیا اس کے فوراًبعد عورت اپنے مقام ومنزلت سے خود بخود نہیں ہٹ جاتی ؟عورت کو اگر مرد چار دیواری کا تحفظ دیتا ہے تو اسے گھر کی حکمران ، مالک ومختار اور مشیر وصلاح کار بنا نے کے لئے ۔ اس میں کسی ایک کی آزادی کم کرنے اور کسی دوسرے کو ضرورت سے زیادہ آزادی دینے کی گنجائش کہاں نکلتی ہے؟ بہرحال گر مرد اور وعرات اپنے اپنے کردار کو دل سے تسلیم اور قبول کرتے ہیں تو وہ زندگی میں کامیاب و کامران ہیں ، چاہے ان کے پا س دنیا کا مال ومتاع کم قلیل ہو یا زیادہ۔آج بھی اگر کسی باشعورو کامیاب عورت سے اُس کی کامیابی کا راز دریافت کیا جائے تو اس کے پس و پشت اس کے باپ بھائی اور شوہر، اولاد کا کردار اہم اور کلیدی نظر آئے گا۔
الغرض بات صرف اتنی سی ہے کہ عورت کو اپنے حدود اور فطری صلاحیتوں کو سمجھتے ہوئے وہ کام کر نے چاہئیں جواس کے معاشرے ،اس کی روایات اور اقدار کے مطابق ہوں۔ اور مرد اپنے حسن سلوک ، اخلاق اور دادودہش کی مردانہ اداؤں سے اپنی شریک حیات کو اتنا جیت جائے کہ اسے’’غلامی ‘‘ میں ہی اپنی آزادی کا پروانہ نظر آئے، وہ خاتون خانہ بننے کو اپنے لئے اعزاز اور شمعِ محفل بننے کو ذلت کا اشتہار سمجھے ، وہ مغرب کی بے اعتدالیوں سے زندگی بھر تائب رہے۔ مرد اور عورت اپنے دل و دماغ سے حقیقت پسند بن کر سوچیں اور فیصلہ کریں کہ ہماری نجی زندگی ، گھراور سماج کے لئے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔محض دنیا کے چلن کے ساتھ بہنا نسوانیت کی زینت ہے نہ مردانہ قوامیت۔ یادرکھیںیہ ایک ایسی حقیقت ہے جو صرف اسلامی معاشرے کا شرف وامتیاز ہے ا ور مرد عورت کواسی کے زیر سایہ رہنے میں انعام واکرام مل سکتا ہے ۔ حاصل بحث یہ کہ مشرقی خواتین یورپین لیڈیز کی طرح اپنے آپ کو ارزان نہ کریں،اپنے وجود کو بے وقعت نہ بنائیں،بلکہ گھر کی چار دیواری میںعزت و ناموس کے ساتھ تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ اسی میں ان کے لئے بہتری اور بر تیری کا راز مضمر ہے ۔
رابطہ : کشمیرعظمٰی سری نگر