سرینگر//پاکستان کو مذاکراتی عمل کے بحث سے باہر رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے ریاستی گورنر ایس پی ملک نے دو ٹوک الفاظ میںکہا کہ جب تک حریت اسلام آباد کو الگ نہیں رکھتی تب تک ان سے کوئی بھی بات چیت نہیں ہوگی۔کولگام میں فورسز کی لاپرواہی کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ ہماری طرف سے اور کچھ انکی طرف سے لاپرواہی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ دہلی کی ایک زمانے کی سرکاروں( سابق حکومتوں) کے کام کرنے کے طریقے نے یہاں بے چینی اور تشدد جیسے مسئلے پیدا کئے گئے۔گورنر نے کہا کہ اگر منان وانی اس راستے پر نہیں جاتا تو ملک کے بڑے کام آتا۔
مذاکراتی عمل
ایس کے آئی سی سی میں محکمہ سیاحت کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب کے حاشیہ پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک حریت لیڈرپاکستان پاکستان کہتے رہیں گے تب تک اْن کیساتھ کوئی بات چیت نہیں کی جائیگی۔گورنر نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا کوئی فریق نہیں ہے اور حریت کانفرنس کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ ’پاکستان‘ کے بغیر باتھ روم بھی نہیں جاتے۔ایک سوال کے جواب میں گورنر نے کہا ’’میں نے (مسئلہ کشمیر پر) کسی بھی متعلقین سے کوئی بات چیت نہیں کی ہے، میں سب سے ملتا ہوں اور میں نے حال ہی میںعمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور تاریگامی سے ملاقات کی، میں سب سے ملتا ہوں‘۔انہوں نے کہا کہ میرا کام بات چیت کے لئے سازگار ماحول تیار کرنا ہے اور میری مسلسل کوشش ہے کہ حالات سازگار بنیں۔ حکومت ہند کو ریاست میں اسمبلی انتخابات سے قبل اپنے رویے میں نرمی لاتے ہوئے بات چیت کے دروازے کھولنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اسے کشمیر میں علاقائی جماعتوں اور دیگر کشمیریوں سے بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی، اٹانومی اور پاکستان سے الحاق ایسے جھوٹے خواب ہیں ، جو کبھی پورے نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ دلی کا میڈیا کشمیر اور کشمیریوں کو منفی انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرکے بہت زیادتی کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی زندگی ویسے ہی ہے جیسے تھی،تاہم اب ماحول خراب ہوا ہے،اور سرکار کوشش کر رہی ہے کہ ماحول کو ٹھیک کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ماحول بات چیت اور امن، سے ٹھیک ہوگا۔انکا کہنا تھا’’ کوئی کسی کے ہٹ لسٹ پر ہے وہ الگ بات ہے ،تاہم سیاحوں کیلئے کوئی بھی خطرہ نہیں ہے‘‘۔بلدیاتی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے ملک نے کہا کہ یہ انتخابات پرامن رہے،جبکہ پارلیمانی ضمنی انتخابات کے دوران8لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ تشدد میں کافی کمی آئی ہے ،جنگجوؤں کی صفوں میںنئی بھرتیوں میں کافی کمی آئی ہے جبکہ پتھربازی میں کافی کمی آئی ہے۔ تاہم گورنر نے واضح کیا کہ اس میں ان کا کوئی بھی ہاتھ نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’ وہ میری وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی سے ہوئی ہے‘‘۔
دہلی کی غلطی
ریاستی گورنر نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں نے پیدا نہیں کیا،بلکہ کسی زمانے کی دہلی کی سرکاروں کی دین ہے۔انہوں نے کہ میں یہ ایمانداری سے کہتا ہوں کہ گذشتہ چالیس برسوں کے دوران دہلی سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں جن کی وجہ سے کشمیر میں اجنبیت کا احساس پیدا ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس حوالے سے صد فیصد سچ بولوں گا تو حریت ہوجاؤں گا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر جس چیز کیلئے بد نام تھی وہ کم ہو رہی ہے،جبکہ کشمیریوں میں بھی سمجھداری آرہی ہے۔ان کہنا تھا کہ کسی زمانے کی دہلی کی حکومتوں نے کشمیر میں اجنبیت،غیر یقینی ماحول اور تشدد پیدا کیا ،تاہم انہوں نے واضح کیا کہ فی الوقت دہلی ان پر حکومت نہیں کرنا چاہتی،بلکہ چاہتی ہے کہ کشمیری ہندوستان پر حکومت کریں۔گورنر نے کہا کہ کشمیری بچے باہر جائے،کھیل کود میں نام کمائے اور اپنی صلاحتوں کا مظاہرہ کریں۔انکا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کو خوش ہونا چاہے کہ انکا جھنڈا بھی اپنا ہے۔
کولگام
کولگام واقعے کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے ریاستی گورنر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس میں فورسز کی طرف سے بھی لاپراہی ہوئی۔انہوں نے کہا’’ کولگام میں جو ہوا وہ نہیںہونا چاہے تھا،اس میں ہماری بھی لاپرواہی ہے اور انکی(لوگوں) کی بھی لاپرواہی ہے‘‘۔انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ جائے جھڑپ کے نزدیک دو،تین دنوں تک نہ جائے۔ریاستی گورنر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی چاہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائے کہ وہ جائے جھڑپوں کی طرف نہ جائے۔
علی گڑ مسلم یونیورسٹی
حزب کمانڈر ڈاکٹر منان وانی کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیدا ہوئے حالات پر بات کرتے ہوئے ریاستی گورنر نے کہا کہ علی گڑھ میں بڑا مسئلہ ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے منان وانی کے(غائبانہ) نماز جنازہ کی ادائیگی مسجد میں کرنے کیلئے کہا تھا،تاہم کچھ طلاب نے یونیورسٹی کی اس ہدایت کو نظر انداز کیا۔انہوں نے کہا کہ بعد میں ان طلاب کو یونیورسٹی سے معطل کیا گیا،جبکہ پولیس نے ملک دشمنی کا کیس درج کیا،جس پر یونیورسٹی میں دیگر زیر تعلیم کشمیری طلاب جن کی تعداد قریب1200تھی،نے دھمکی دی کہ وہ یونیورسٹی چھوڑ کر چلے جائیںگے۔گورنر نے کہا’’ مجھے رات بھر نیند نہیں آئی،اور میں نے مرکزی وزیر برائے انسانی فروغ وسائل پرکاش جاویڈکر سے رابطہ قائم کیا،اور طلاب کی معطلی کو روک دیا،جس کے بعد پولیس نے بھی کیس واپس لیا،اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو سینکڑوں طلاب واپس گھر آتے اور ملک میں غلط پیغام جاتا‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کا اثر ہوا کہ کشمیری طلاب یونین انتخابات میں بھی شرکت کریںگے۔ریاستی گورنر نے کہا کہ انہوں نے کشمیری طلاب کو بتایا کہ اگر بہار جیسی ریاست کے طلاب یونین انتخابات میں شرکت کر سکتے ہیں،تو کشمیری طلاب کیوں نہیں کر سکتے۔