صحافت (پتر کاریتا) ایک مقدّس ، معتبر و متبرک پیشہ ہے جو حق و صداقت کا امین و محافظ ، مجبوروں و مظلوموں کا معین و مددگار ، حق پرستوں کا رفیق و دمساز ‘ ظالمو ں ‘جابروں اور بد معاشوں کا محاسب ، ظلم و زیادتیوں اور نا انصافی و حق تلفیوں کے خلاف آواز حق ہوتا ہے۔
آج ہندوستان میں فسطائی قوتیں زمام اقتدار تھامے ہوئی ہیں،ان کا طوطی بول رہا ہے اور حق پرستو ں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن چکی ہے۔اہل قلم کی ایک بڑی تعداد اپنے ضمیروں اور قلم کا سودا کر چکی ہے لیکن حق پرست اہل ِ قلم اپنی انگلیاں خون ِ دل میں ڈبو کرحکایات خونچکاں لکھ رہے ہیں۔صحافت خصوصاً الیکٹرانک میڈیا وقت کے حکمرانوں کو قوم وملک کے مفاد میں سیدھا راستہ دکھانے کی بجائے حکمرانوں کی خوشنودی و قصیدہ خوانی میں مصروف ہے۔ایسے حالات میں قلم کا ایک سپاہی حق و باطل کے معرکہ میں آخری جنگ لڑتا ہوا سینہ سپر ہے جسے آج دنیا روش کمار کے نام سے جانتی ہے۔
ہندوستانی صحافت نے کبھی اتنے بُرے دن نہیں دیکھے تھے جیسے آج دیکھ رہی ہے ، ایسا وقت تو کبھی انگریزوں کی غلامی کے دور میں بھی نہیں آیا کہ صحافت غلط کاروں کی ہم نوا رہی ہو۔ ایسا دور تو اندرا گاندھی کی لگائی ہوئی ایمرجنسی میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ صحافت اپنا فرضِ منصبی چھوڑ کر حکمراں کے گن گان کر رہی ہو، جب حکمرانوں یا اہل ِ اقتدار کی چاپلوسی اہل صحافت کا شعار بن جائے تو وہ صحافت کے لئے بد ترین دور ہوتا ہے ۔ ملک وقوم کے وفادار مبصرین کامانناہے کہ فی الحال ہندوستان ا سی دور سے گذر رہا ہے ۔حق بیانی اور جرأت اظہار کی بجائے حقائق سے پردہ پوشی آج کل یک چشمی الیکٹرانک میڈیا کا معمول بن چکا ہے مگر اس بھیڑ میںصرف ایک روش کمار اور ان کا NDTVہے جو حق و انصاف کا علمبردار بن کر غیر جمہوری قوتوں کے سامنے پوری جرأت اور بے باکی سے کھڑاہے ۔دادری میں اخلاق کے سفا کانہ قتل سے لے کر آج تک گئو کشی کے نام پر ہونے والے ڈراؤنے مظالم پر پوری طاقت کے ساتھ وہ قانون کے مجرموں کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ آواز بلند کرتا رہا ہے ، نوٹ بندی کے فیصلہ پر عوامی تکالیف کو صرف این ڈی ٹی وی نے پیش کیا جب کہ بقیہ سارے چینل وزیر اعظم کے اس فیصلے کو لے کر قصیدہ خوانیوں میں مصروف تھے ، جی ایس ٹی او ر دیگر سارے غریب مخالف فیصلوں اور احکامات و اقدامات پر عوام کی آواز بن کر صرف روش کمار ہی کی آواز بلند ہوتی نظر آتی رہی ہے۔
آر ایس ایس اور بھگوابرگیڈ کے خلاف عقل ودانش سے مزین اٹھنے والی ایک معتدل آواز گوری لنکیش کو گولی مارکر قتل کردیا گیا ۔ ان کو ۵؍ ستمبر کو بنگلور میں حق نوائی اور آزاد خیالی کی پاداش میں گولی ماردی گئی ۔ قاتلوں نے یہ سمجھا کہ سچائی اور حق و صداقت کی آواز کو خاموش کردیا گیا ہے، مگر یہ ان کی بھول ہے کہ تلوار کازور کو قلم کی آبرو ختم کر سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ستمبر ہی کی ۱۶؍ تاریخ ۱۸۵۷ء میں اردو کے ایک حق پرست صحافی اور"دہلی اردو اخبار"کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو انگریز کی سامراجی سرکار نے بغاوت کے الزام میں گولی ماردی تھی،لیکن ظلم کے خلاف آواز نہ مولوی محمد باقر کو مارنے سے تب دبی اور نہ آج گوری لنکیش کو مارنے سے دبنے والی ہے اورنہ ہی روش کمار کو قتل کی دھمکیاں دینے سے حق و صداقت کاگال گھونٹ دبایا جا سکے گا۔محرم کا مہینہ جاری ہے ، حق و صداقت کے امین و علمبردار حضرتِ حسین ؓ کو بھی اسی ماہ میں صرف اظہارِ حق کی بناء پر شہید کردیاگیا تھا ، انہیں مارنے والے حکمران عذابِ الہٰی کا شکار ہوئے اور حسین ابن علی ؓ شہید حق قرار پائے ۔ ہرزمانے میں ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کا اعلان ایک انبیائی سنّت ہے، صحیفہ اُس کتاب یا پیغام کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی طرف سے بندوں کے لیئے نازل ہوتا ہے ، اور انہی مقدس صحیفوں سے صحافت کا لفظ مشتق ہے، اس لئے سچی اور کھری صحافت سے وابستہ ہر قلم کار حق کے مشن کا بے لوث سپاہی ہوتا ہے جس کے دل میں ہمیشہ مظلوم کے دفاع کا جذبہ موجزن رہتا ہے ۔ وہ ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر قوم اور سماج کے مفاد کو مقدس سمجھتا ہے اور بلا کسی رُورعایت کے حق کی طرف داری میں قلم کا امانت دارانہ استعمال کر تاہے ۔ ضروری ہے کہ ہمارا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا بھی اس مشن کا فریضہ غریر جانب داری اورروشن ضمیری کے ساتھ انجام دیں اور تاریکیوں میں حق و صداقت کی اعلیٰ مثال بنیں، کیونکہ اس مشن کے حقیقی امین وہ ہیں ،اس مشن کی پاسداری کی ذمہ داری ان پر ہے ،اس لئے وہ پوری دیانتداری سے اس فریضہ کو انجام دیںاور جان لیں کہ جو صحافت حکمرانوں ، جابروںاورمنافقوں کی لونڈی بن کر رہے ،ا س کی عمر بہت قلیل مدتہ ہوتی ہے۔لیکن آج کے بعض صحافیوں کے طرز عمل سے صحافت کی جس طرح رسوائی اور جگ ہنسائی ہو رہی ہے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن ان اندھیاروں میں روش کمار جیسے چنیدہ صحافی بھی ہیں جو صحافت کی اعلیٰ روایات اور اس کی بے باکی کے سچے امین اور علمبردار بنے ہوئے میدان کار زار میں انسانیت نوا زقلم لئے کھڑے ہیں۔ جس بے باکی سے وہ مظلوموں و بے کسوں کی آواز کو بلند کر رہے ہیں، حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا پردہ فاش کر رہے ہیں ، صحافتی اقدار کی پاسداری و پاسبانی کر رہے ہیں،ان کی اس مثالی کدوکاوش کو صحافت کی تاریخ میں سنہرے حرفوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ طاقت کے نشے میں چُور طبقے کے غنڈے لفنگے انہیں نہ صرف فون، واٹس اپ ، فیس بک پر دھمکیاں دے رہے ہیں، کوستے ہیںبلکہ بھی مغلظات بھی بک رہے ہیں، ان کو اور ان کے نیوز چینل کو طرح طرح سے پریشان کیا جا رہا ہے، اس کے باوجود حب الوطنی اور سچائی سے پیار روش کمار اور پرنورائے کو یہ حوصلہ دے رہاہے کہ وہ سر ہتھیلی پر رکھ کر حق و صداقت کے اظہار میں پوری طرح ثابت قدمی سے بے خوف خطر مصروف ہیں۔ ان کی ان پیشہ ورانہ خدمات کو صحافت کا مورخ حرف بہ حرف ،لمحہ بہ لمحہ حروفِ زر سے ریشم کے قرطاس پر رقم کر تاجا رہا ہے۔ حکومت کے چہیتے صحافیوں کے طرز عمل سے دل برداشتہ ناطرف دارلوگ روش کمار کے بے باکانہ اظہار ِ حق پر فخر سے سینہ پھیلائے مطمئن ہیں کہ کوئی تو صحافت کا ایسا نمونہ ہے جو اس کی ناموس کی حفاظت کی جنگ پوری یکسوئی کے ساتھ لڑ رہا ہے۔
راقم کی ملی قائدین سے در د مندانہ اپیل ہے کہ وہ NDTV کے20فیصد حصص خریدنے یا شئیر میں حصہ داری کرنے پر غور کریں، تاکہ اسی ٹی و ی چنل کے ذریعے ہندوستان کے تمام مذاہب کے درمیان قومی یکجہتی کو فروغ دے سکیں کیونکہ NDTV یکجہتی اور خود مختاری کے اعلیٰ ترین معیار کی مکمل پاسداری کرتی ہے۔حق و صداقت کی آواز بلند کرنے والے روش کمار اور انکا اینڈی ٹی وی، فرقہ پرست اور سماج دشمن عناصر کے نشانے پر ہے اور روز بہ روز اُن کے خلاف شاطرانہ چالیں چلائی جا رہی ہیں۔ مخالفانہ آندھیاں این ڈی ٹی وی اور روش کمار کی آواز کو خاموش کرنے میں لگی ہوئی ہیں مگر ان تمام مخالفتوں اور آزمائشوں کا سامنا کرتے ہوئے یہ اپنے مشن’’ سچ بولو‘‘ پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ہم روش کمار کی ان بے باکانہ پیشہ وارنہ خدمات اور ناموس ِ صحافت کو محفوظ رکھنے کی جرأت کی دادہی نہیں دیتے بلکہ ان پرموصوف کو سلام عقیدت بھی پیش کرتے ہیںا ور دعا گو ہیں کہ وہ ہندوستان کے اصل عوامی مفاد کو اُجاگر کر نے میں دن دوگنی راگت چوگنی ترقی کریں۔
…………………………
E-mail : [email protected]
موبائل 9890509295