سرینگر // ریاستی وزیر اعلیٰ کی جانب سے منقسم کنبوں کو ملانے اور آرپار تجارت کیلئے مزید راہداری پوئنٹ کھولنے کی وکالت کے بیچ 2008 میں آر پار شروع کی گئی تجارت پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں کیونکہ سرکار نے آرپار لوگوں کی آمدورفت کو سخت کرنے کے ساتھ ساتھ تجارت کے عمل کو بھی مزید سخت کر دیا ہے جس کے سبب اوڑی سے تجارت کرنے والے 328تاجروں میں سے اب صرف 18تاجر ہی آر پار تجارت کر رہے ہیں ۔تاجروں کی جانب سے تجارت سے ہاتھ کھنچ لینے کی وجہ سے 90فیصد تجارت متاثر ہوئی ہے ۔ادھر پونچھ راولاکوٹ سے تجارت پچھلے اڑھائی ماہ سے بند ہے جس کے سبب آر پار تجارت کو 60کروڑ کا نقصان ہوا ہے ۔ معلوم رہے کہ سال 2003میں ہندپاک کے درمیان سرحدوں پر جنگ بندی معاہدے کے بعد جب حالات معمول پر آگئے تو آر پار حکومتوں نے فیصلہ لیا کہ آر پار لوگوں کی آواجاہی کے ساتھ ساتھ اوڑی اور پونچھ سے تجارت شروع کی جائے ۔دونوں حکومتوں نے 2008میں سرینگر مظفرآباد اور پونچھ راولا کوٹ کے درمیان آر پار ٹرک سروس شروع کی لیکن اب کشمیر کے دونوں حصوں میں تقسیم کشمیری خاندانوں کے درمیان رابطوں میں اضافے کیلئے شروع کی جانے والی اس تجارت پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔یہ تجارت کبھی ہندپاک کشیدگی کی وجہ سے متاثر رہی تو کبھی این آئی اے کے چھاپوں کی وجہ سے اُس پر منفی اثر پڑا،انتہا ہی نہیں بلکہ منشیات کی وجہ سے بھی اس تجارت کو کافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ۔مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ پہلے اس تجارت کو ویری فکیشن کے سخت عمل سے دوچار کیا گیا اور پھر این آئی اے کے چھاپوں سے تاجروں کو اس کا شکار بنایا گیا ۔ چیئرمین ٹریڈ ایل او سی آصف لون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ این آئی اے کے چھاپوں سے قبل ہی تاجر پریشان تھے کیونکہ آر پار تجارت کیلئے سرکار نے ویری فیکشن عمل کو سخت کر دیا تھا ۔عاصف کے مطابق حکومت نے آر پار تجارت کرنے والے تاجروں کی رجسٹریشن پر دوبارہ نظر ثانی کی اور نظر ثانی کے بعدنئی عمل کے تحت سرکار نے ٹریڈرس سے پانچ لاکھ روپے کی بنک گرانٹی مانگی اور ساتھ میں آئی جی سی آئی ڈی کی این اوسی لانے کو کہا ۔انہوںنے بتایا کہ ویری فیکیشن عمل سخت ہونے کے بعد اب صرف 18تاجر ہی آر پار تجارت کر رہے ہیں اور باقی تاجروں نے اس تجارت سے ہاتھ کھنچ لیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اوڑی مظفرآباد کے درمیان سال 2008میں جب تجارت شروع کی گئی تو اس کے ساتھ 328تاجر وابستہ تھے۔ لیکن اب یہ تعداد گھٹ رہی ہے جس کی وجہ سے 90فیصد ٹریڈ متاثر ہوا ہے ۔ایک اور تاجر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پہلے ویری فیکیشن عمل کو سخت کر کے تجارت کو کمزور کرنے کی کوشش ہوئی اور بعد میں این ائی اے کے چھاپوں کی وجہ سے بھی تاجروں کے حوصلے پست ہوئے ۔پونچھ راولاکوٹ تجارت اور بس سروس کا حال کچھ ایسا ہے کہ یہ تجارت ہندوپاک افواج کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے 10جولائی سے بند پڑی ہے جس کی وجہ سے تجارت کو بھاری نقصان ہوا ہے جبکہ منقسم کنبوں کے ملن پر بھی روک لگادی گئی ہے ۔ ٹریڈ افسر پونچھ راولا کوٹ تنویر حسین نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ آر پار آمد ورفت بند ہونے کے بعد جو لوگ 10جولائی سے قبل سرحد پار سے اپنوں کو ملنے پونچھ ،راجوری آئے تھے انہیں اوڑی کراسنگ پوائنٹ سے واپس اپنے اپنے گھروں کو روانہ کر دیا ہے اوراُس کے بعد کوئی بھی شہری نہ یہاں سے وہاں گیا ہے اور نہ ہی وہاں سے یہاں آیا ہے ۔تنویر نے کہا کہ اس روٹ سے تجارت کو ایک دن میں ڈیڑھ کروڑ کا نقصان ہوا ہے جبکہ ابھی تک 60کروڑ کا نقصان ہوا ہے ۔پونچھ اور راجوری کے ٹریڈرس کا کہنا ہے کہ اس تجارت کے ساتھ 302لوگ وابستہ تھے لیکن تجارت بند ہونے سے انہیں بھی کافی دقتیں پیش آرہی ہیں اور اب اُن کا من بھی تجارت کرنے کو نہیں کر رہا ہے ۔