دس سال قبل ہندوپاک حکومتوں کے درمیان کراس ایل او سی ٹریڈ کا سلسلہ شروع کیاگیا اور اس فیصلے کو آج بھی اعتماد سازی کے ایک بڑے اقدام کے طور پر دیکھاجاتاہے ۔1947میں تقسیم ریاست کی وجہ سے منقطع ہوجانے والا یہ تجارتی سلسلہ اوڑی مظفر آباد اور پونچھ راولاکوٹ کے راستے بحال ہونے سے ماضی میں مرکزیت کادرجہ رکھنے والی اور ریاست کے موجودہ سرحدی علاقوں کے عوام ہی نہیںبلکہ جموں اور سرینگر کے تاجروں کو بھی کافی زیادہ امیدیں وابستہ ہوئی تھیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تجارتی سلسلہ ماند پڑتاگیا اور آج دس برس کے بعد اس کا حال یہ ہے کہ یہ عمل بالکل سکڑ سمٹ کر پانچ سے چھ اشیاء کے لین دین تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ان حالیہ دس برسوں میں اس تجارت سے کوئی بھی مقصد پورا نہیں ہوا ، نہ ہی اس سے بیروزگارنوجوانوں کیلئے روزگار کے نئے دروازے کھل پائے اور نہ ہی آر پار تاجر برادری کے تجارتی روابط فروغ پاسکے ۔یہی وجہ ہے کہ پونچھ اور بارہمولہ کے تاجروں کے ساتھ ساتھ اب جموں و کشمیر چیمبر کو بھی اس تجارت پر تشویش لاحق ہے اور تاجر برادری اس کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے ۔چند روز قبل جموں میں ایک پریس کانفرنس میں جموں وکشمیر چیمبر کے عہدیداروں نے دونوں حکومتوں سے اپیل کی کہ کرتار پور راہداری کھولنے کے عمل میں جس جوش و خروش کا مظاہرہ ہوا ہے۔ ایل او سی ٹریڈ کو فروغ دینے کے لئے بھی اسی جوش اور جذبے سے کام لینے کی ضرورت ہے اور اس میں حائل تمام تر رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے تاجر برادری کے دیرینہ مطالبات پورے کئے جائیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ فی الوقت آر پار تاجروں کو نہ ہی فون کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی بینکنگ کی اور ان کے درمیان میٹنگوں کا اہتمام بھی کئی کئی ماہ کے بعدہی ہوتاہے، جس کے نتیجہ میں لین دین کے معاملات التوا میں پڑے رہتے ہیں ۔تجارتی ترقی کیلئے ایک دوسرے کے درمیان تجارتی روابط کااستوار ہونا لازمی ہے لیکن آر پار تجارت کے معاملے میں ایسا ہرگز نہیں ہواہے اور تاجروں کے درمیان میٹنگ جبھی منعقد ہوتی ہے جب معاملات کافی زیادہ بگڑ جاتے ہیں ۔تاجر برادری یہ مطالبہ بھی کرتی آئی ہے کہ جموں سیالکوٹ سمیت نئے راستے کھولنے کے ساتھ ساتھ پونچھ راولاکوٹ اور اوڑی مظفر آباد کے راستوںسے ہورہی تجارت میں وسعت لائی جائے اور انہیں موجود ہ دور کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ اس عمل کو کامیابی سے چلایاجاسکے۔ لیکن ابھی تک دونوں جانب کی حکومتوں کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور نئے راستے کھولنے اور تجارتی تبادلےمیںشامل اشیاء کی تعداد میں اضافہ کرنے کے بجائے جاریہ تجارتی عمل پر منفی اثرات ہی مرتب ہوئے ہیں۔کراس ایل او سی ٹریڈ کو محض چند اشیاء کے لین دین کے طور پر نہ دیکھاجائے بلکہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات اور منقسم ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کے جذبات جڑے ہوئے ہیں ۔موجودہ عالمی نظام میںدنیا بھر میں نئے نئے تجارتی راستے کھولے جارہے ہیں اور ایسے میںہماری ریاست کے اندرماحول انتہائی دل شکستہ ہے اور امید کی جانی چاہئے کہ ہندوپاک کی حکومتیں پونچھ راولاکوٹ اور اوڑی مظفر آباد کے راستے ہورہی تجارت کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ مزید تجارتی راستے کھول کر اپنے اپنے ممالک اور خاص کر جموں وکشمیر کیلئے ترقی کے نئے باب رقم کریں گی ۔نیز ساتھ ہی اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آنے کے بہ سبب جموںوکشمیر کی عمومی صورتحال پر بھی مثبت اثرات ثبت ہونگے۔