امسال جولائی کے پہلے ہفتے میں چکاں داباغ پونچھ کے راستے ہونے والی تجارت اور بس سروس کو بند ہوئے اب ڈھائی ماہ بیت گئے ہیں لیکن یہ تعطل ٹوٹنے کے بجائے طویل تر ہوتاجارہاہے جس کی وجہ سے نہ صرف تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہواہے بلکہ عوامی حلقوںمیں یہ خدشات بھی پائے جانے لگے ہیں کہ اس تجارت اور بس سروس کو ایک منصوبہ بند طریقہ سے بند کروانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔پونچھ کی ضلع انتظامیہ کے مطابق تجارت نہ ہونے کے سبب صرف پونچھ کے تاجروں کو ہی سو ا کروڑ کا نقصان ہوچکاہے جبکہ اسی قدر اُس پار کے تاجروں کا نقصان بھی ہواہوگا۔اگرچہ تجارتی سلسلے کو بحال کرنے کیلئے ان ڈھائی مہینوں میں کئی بار کوششیں بھی کی گئیں، جن کی بدولت کئی مرتبہ تجارت بحال ہونے کے امکانات بھی دکھائی دیئے ،لیکن جیسے ہی کوئی پیشرفت ہونے لگتی ہے تو فوری طور پر پونچھ کے چکاںداباغ اور اس کے اردگرد کے سیکٹروں میں زور دار فائرنگ اور گولہ باری کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے، جس سے پیدا ہونے والی امیدوں پر پانی پھر جاتاہے اور ساری کوششیں بیکار ثابت ہوجاتی ہیں ۔اس سلسلے میں آخری مرتبہ چند ہفتے اوئل پونچھ انتظامیہ اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی انتظامیہ کے درمیان میٹنگ طے پائی اور اس کیلئے وقت اور جگہ کا تعین بھی کردیاگیا لیکن بدقسمتی سے جس روز یہ میٹنگ ہوناتھی ،اسی روز صبح دونوں ممالک کی افواج کے درمیان زبردست فائرنگ اور گولہ باری ہوئی جس سے نہ صرف میٹنگ کو ملتوی کرناپڑابلکہ اگلے کئی روز تک اس کے انعقاد کے امکانات بھی معدوم ہو گئے ۔اس سے قبل بھی جب تعطل ٹوٹنے کے آثار نظر آئے اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے مال بردار ٹرکوں یا بس سروس کو روانہ کرنے کیلئے تیاریاں کی گئیں تو حد متارکہ پر گن گرج شرو ع ہوگئی ۔اب گزرے کچھ عرصہ سے یہ ایک معمول بن گیاہے کہ پونچھ حد متارکہ پر یوں تو خاموشی چھائی رہتی ہے لیکن جیسے ہی بس سروس اور تجارت کے حوالے سے کوئی نئی پیشرفت ہونے لگتی ہے تو فوری طور پرحالات کشیدہ ہوجاتے ہیں اور دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے پر بندوقوں اور مارٹر گولوں کے دہانے کھول دیتی ہیں ۔پونچھ راولاکوٹ کے راستے ہونے والی اس تجارت سے نہ صرف پونچھ کے مقامی تاجروں بلکہ جموں نشین تاجروں کے مالی مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پونچھ کے تاجروں کے ساتھ ساتھ جموں کے تاجروں نے بھی حکام سے اسے بحال کرنے کی گزارشات کی ہیں جبکہ حکمران جماعت پی ڈی پی کا تو منشور ہی آر پار روابط بڑھانے کیلئے مزید ایسے راہداری پوائنٹ کھولنا رہاہے اور خود وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کئی بار نئے راستے کھولنے کی وکالت کرچکی ہیں ۔جب ریاستی حکومت ، جموں کے تاجر اور مقامی تاجروں کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی بھی اس حق میں ہے کہ اس تجارت اور بس سروس کو فوری طور پر بحال کیاجائے تو پھر نہ جانے وہ کون سی غیبی قوتیں ہیں جو اس سلسلے کی بحالی میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں اور کیوں اسی وقت فائرنگ اور گولہ باری ہوتی ہے جب کوئی اہم پیشرفت ہونے والی ہوتی ہے۔ریاستی سرکار کومرکز کے ساتھ یہ معاملہ سنجیدگی سے اٹھاکر بس سروس اور تجارت کو فوری طور پر بحال کرانے کے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس تعطل کوتوڑنے کیلئے بغیر کسی تاخیر کے بات چیت کا عمل شروع کیاجائے ۔