ایک طرف ریاستی وزیرا علیٰ محبوبہ مفتی منقسم ریاست جموں وکشمیر کے آرپار لوگوں کے درمیان روابط کو فروغ دینے کیلئے مزید راہداری پوائنٹ کھولنے کی وکالت کررہی ہیں تودوسری طرف پہلے سے کھلے ہوئے راستوں کو بھی بند کرنے کی سعی ہورہی ہے ۔حد متارکہ پر پونچھ سیکٹر میںہندوپاک کشیدگی کے باعث تین ہفتے قبل معطل شدہ بس سرو س اور تجارت کوہنوز بحال نہیں کیاجاسکاہے اور اس عرصہ میں پونچھ کے چکاں داباغ اوراوڑی مظفر آبادر استوں سے کسی بھی قسم کی کوئی سرگرمی نہیں ہوپائی جس کے نتیجہ میںسینکڑوں مسافر درماندہ ہیںجبکہ تجارتی سامان ٹرکوں میں سڑرہاہے ۔واضح رہے کہ تین ہفتے قبل جب پونچھ کے دیگر سیکٹروں کی طرح چکاں داباغ بھی جنگ کا میدان بناہواتھاتوحکام نے تجارت اور بس سروس کوحالات ٹھیک ہونے تک عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیاتاہم حد متارکہ پر حالات میں بہتری آنے کے بعدبھی آر پارتجارت بحال ہوئی نہ بس سروس ۔پونچھ راولاکوٹ بس سروس معطل ہونے کی وجہ سے پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے 116مسافر پونچھ میں درماندہ ہیں جبکہ یہاں کے 3مسافر اُس پار پھنسے ہوئے ہیں ،جن کو واپس روانہ کرنے کیلئے ہر سوموار کو بلایاجاتاہے لیکن پھر آخری وقت پر یہ کہہ کر لوٹا یا جاتا ہے کہ آج بس سروس نہیں چلے گی ۔مسافروں کی مشکلات اپنی جگہ ،کئی لوگ مہمانوں کے انتظار میں دن گنتے جارہے ہیں لیکن ان کا انتظار طویل تر ہوگیاہے ۔اب جبکہ یہ امید کی جارہی تھی آئندہ ہفتے یہ سلسلہ بحال ہوجائے گااور تجارت و بس سروس سے متعلق انتظامیہ نے حکام سے بات بھی کی ہے،لیکن میڈیا رپورٹوں کے مطابق قومی تحقیقاتی ایجنسی نے مرکزی حکومت کو سفارش پیش کی ہے کہ اس تجارت اور بس سروس کو بند کردیاجائے ۔این آئی اے نے اپنی سفارش میں کہاہے کہ آر پارتجارت کی آڑ میں ٹیررفنڈنگ کی کاروائیاں ہو رہی ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا اثراوڑی مظفر آباد اور ٹیٹوال پر بھی پڑا ہے ۔اس سے قبل بھی حد متارکہ پر کئی بارحالات کشیدہ رہے لیکن تجا رت اور بس سروس کیلئے اس قدر مشکل دن نہیں دیکھے گئے ۔پی ڈی پی اور بی جے پی کے ایجنڈا آف الائنس میں مزید راہداری پوائنٹ کھولناشامل ہے نہ کہ پہلے سے کھلے راستوں کو بھی بند کرنا ۔فی الوقت آر پار تجارت اور بس سروس اپنے سب سے برے دور سے گزر رہی ہے اور اس پراسے غیر یقینی صورتحال کا سامناہے ۔ اگراسے ملکی مفاد میں بند کردیاجاتاہے توپھر یقینا اس سے اس کی ہمیشہ سے مخالف رہنے والی جماعتوں کو توفائدہ ہوسکتاہے لیکن جموں و کشمیر کیلئے یہ فیصلہ گھاٹے کا سودا ثابت ہوگا۔بے شک سرحدی کشیدگی کے دوران اس سلسلے کو جاری نہیں رکھاجاسکتاہے لیکن اب جبکہ حالات قدرے ٹھیک ہیں اور حد متارکہ پرجنگ کاسماں نہیں تو تجارت اور بس سروس کو بحال کرنے میں اس قدر تاخیر نہیں کی جانی چاہئے اور ان مسافروں کو واپس اپنے اپنے وطن بھیجاجائے جو کئی ہفتوںسے گاڑی چلنے کا انتظار کررہے ہیں ۔جموں و کشمیر کی تاریخ میں ان راہداری پوائنٹوں کا کھلنا اعتماد سازی کا سب سے بڑا اقدام تھا جسے دونوں ممالک کی کشیدگی کی بھینٹ نہ چڑھایاجائے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آر پار روابط مزید فروغ دیئے جائیں اور آج دنیا ایسے دور سے گزر رہی ہے جس میں روابط کم نہیں بلکہ وسیع تر کئے جارہے ہیں ۔اگر تحقیقاتی ایجنسی کو خدشات ہیں تو پھر سیکورٹی کا ایسا نظام قائم کیاجائے تاکہ ان راستوںسے کوئی بھی ایسی سرگرمی انجام نہ دی جاسکے جو ایجنسیوں کے بقول ملکی مفاد میں نہ ہو ۔