زندگی انتہائی مختصر ہے اور انسان حقیقت کا ادراک رکھنے کے باوجود بھی خوب سے خوب تر کی تلاش اور بہتر سے بہتر ین کی جستجو میں لگا رہتا ہے ۔ یہی دوڑ ہے جس نے معاشرے کے ہر فرد خصوصاً خواتین کو بے کل کئے رکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی انہیں کچھ نہ ہونے کا احساس رہتا ہے ،ہر وقت کسی نئی آرزو کی تکمیل کے لئے پریشان رہتی ہیں ،پریشان تو خیر آج کل سب ہی نظر آتے ہیں ۔نہ شوہر بیوی خوش رہتا ہے ،نہ بیوی شوہر ،نہ والدین اولاد سے خوش رہتے ہیں اور اولاد والدین سے مطمئن نظر آتی ہے۔ہر گھر میںلڑائی جھگڑے کے ایک ہی جیسے موضوع زیر بحث رہتے ہیں ،بیوی شوہر کو کبھی آئینہ دکھانے کی کوشش کرتی رہتی ہے تو کبھی شوہر بیوی کو کمتر دکھانے میں تن من کی بازی لگانے کی کوشش میں رہتا ہے،چوڑیاں کھنکنے کے بجائے برتن پٹخنے کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں ،بیوی کا شوہر پر الزام ہوتا ہے کہ تمہاری تنخواہ کم ہے ،تم کام چور ہو ،ذرا پڑوس ہی میں دیکھ لو ،کیا نہیں ہے اُن کے پاس ۔فرج،ٹی وی۔وی سی آر ،واشنگ مشین،موٹر سائیکل اور اب موٹر کا ر بھی آنے والی ہے،تمہاری تو سوچ ہی دقیانوسی ہے،جبکہ شوہر ’’ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں‘‘ کے مصداق بیوی پر الزام پر الزام کی بوچھاڑ کئے جاتے ہیں کہ تم انتہائی پُھوہڑ عورت ہو،تمہارا قد چھوٹا ہے ،سوسائٹی موو کرنے کے قابل نہیں،تمہیں کھان بنانا تک نہیں آتا ،قسمت خراب تھی جو تم جیسی ناکارہ عورت سے شادی کرلی۔نتیجتاً گھر کی فضا سوگوار ہوجاتی ہے ۔بچے خاموش سہمے کونوں کھدروں میںدبک جاتے ہیں اور میاں بیوی منہ پُھلائے اِدھر اُدھر گھومتے نظر آتے ہیں۔
یہ صرف چند مخصوص گھروں کی کہانی نہیں بلکہ ہر دوسرا گھر فضول لڑائی جھگڑوں کی زد میں ہے ۔چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے ۔معمولی باتوں میں بڑی بڑی خرابیاں نظر آنے لگتی ہیں۔اس بے سکونی سے اہل خانہ میں صبر و شکر اور قناعت پسندی کا مادہ ناپید ہوجاتا ہے ۔یہی حال معاشرے کا ہے ،ہر فرد خصوصاً خواتین دوسری خواتین کی چیزوں پر نظر یں جمائے نظر آتی ہیں ۔اگر کسی کی مالی حالت دوسرے سے بہتر ہے تو وہ اُسے کم تر اور نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیںاور اگر کسی کی مالی حالت دوسرے سے ابتر ہے تو وہ حسد اور جلن کی وجہ سے کبھی بھی خوش نہیں رہتیں۔صبر و قناعت جو انسان کی زندگی میں اطمینان و سکون کا لازمی جُز ہے ،اب خال خال ہی نظر آتا ہے۔پتہ نہیں معاشرے کی سوچ کب بدلے گی؟اور افراد کب اپنے بارے میں سوچنا شروع کریں گے ۔ بیویاں دوسروں کے شوہروں کو دیکھ دیکھ کر اپنے شوہرکو پریشان کرنا کب چھوڑیں گی اور شوہر خوبصورت خواتین کو دیکھ دیکھ کر اپنی بیوی کو طعنے دینا کب چھوڑ دیں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا فانی ہے اور سب مال و متاع یہیں رہ جانا ہے ،پھر روزِ روشن کی مانند عیاں اس حقیقت کو سمجھتے کیوں نہیں؟مادی چیزوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر چاردن کی ز ندگی کے خوبصورت پل کو بے مزہ کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔اگر آپ آج ہی سے تہہ کرلیں کہ آپ کے پاس جو کچھ ہے کافی ہے ،اور جتنا ہے یہ آپ کا نصیب ہے ،بلا وجہ دوسروں کے عیش و عشرت دیکھ دیکھ کر حسد اور جلن نہ کیجئے بلکہ اگر یہ خیال پریشان کرے تو بس یہ سوچ لیجئے کہ خدا کسی کو کم ،کسی کو زیادہ دے کر بھی آزماتا ہے ۔ہر وقت نصیب کا رونا مت روئیے ۔یاد رکھئے اگر آپ کے پاس کچھ نہیں ہے تو یہ خدا کی آزمائش ہے اور اگر بہت کچھ ہے تو خدا کا احسان ہے ۔اپنے حال میں مگن رہنا سیکھیں۔میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں ،ایک دوسرے کو بے لباس کرنا چھوڑدیجئے،ورنہ دنیا آپ کا تماشا دیکھے گی۔زندگی سے بھر پور لطف اُٹھانا سیکھئے ،ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے سے محض دوریاں طول پکڑیں گی ۔اگر آپ کا شوہر چھوٹے قد کا ہے سالونی رنگت کا ہے تو وہ آپ کا نصیب ہے ۔اپنی کسی سہیلی کے شوہر سے اس کا موازنہ ہرگز نہ کیجئے،ورنہ آپ بھی پریشان رہیں گی اور وہ بھی آپ سے نالاں،شُکر کی عادت اپنائے۔خدا خود فرماتا ہے کہ’’تم میرا شُکر ادا کرو تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا ۔‘‘اگر آپ کے پاس اولاد ہے تو بے اولادوں کا مذاق نہ اڑائیں،نہ ہی خود کو اعلیٰ و ارفع سمجھئے۔بیٹیاں ہیں تو بیٹوں کے لئے پریشان نہ رہئے،بے اولاد ہیں تو دوسروں کے بچوں سے حسد نہ کیجئے۔کیونکہ اولاد بھی خدا کی جانب سے آزمائش ہے۔ہمارے پاس یہ ہے ،ہمارے پاس وہ ہے ،اب تم بھی خرید ہی لو ،ایسا ہرگز مت کیجئے کیونکہ ہر کوئی اپنی آسانی کے مطابق خرید سکتا ہے ۔آپ کا یہ کہنا دوسرے شخص کو احساس کمتری میں مبتلا کردے گا۔زندگی کی مثال لمحاتی بلبلے کی سی ہے ،جس میں مختلف رنگ تو سمٹ آتے ہیں مگر پل بھر میں ختم ہوجاتے ہیں ۔زندگی کی آسائشوں کی دوڑ آپ کو جگمگاتی دنیا سے قبر کے اندھیروں تک لے جائے گی لیکن پھر بھی آپ تہی داماں رہ جائیں گے ،لہٰذا ضرورت سے زیادہ جمع کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور صبر و شُکر کے اوصاف اپنائے ۔میاں بیوی دونوں اس پر عمل کریں ہمارا دعویٰ ہے زندگی اور خوبصورت ہوجائے گی۔
����