کہتے ہیں تمثیل سے تفہیم میں تسہیل ہوتی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مثال دینے سے مشکل باتوں کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے ۔میں اپنی بات یوں شروع کرتا ہوں ۔مان لیجئے کسی گائوں ،شہر ،قصبے یا ملک میں سیلاب آتا ہے ۔دریا تو ویسے بھی رواں دواں ہوتا ہے لیکن جب پانی زیادہ آجاتا ہے تو ہم کہتے ہیں زائد پانی آگیا یا پانی میں اضافہ ہوگیا ،مگر جب پانی کا ریلا باندھ توڑتا ہے ،پُل گراتا ہے اور بستیوں میں اندر تک گھس جاتا ہے اور ہر طرف پھیل جاتا ہے تو اُس وقت ہم کہتے ہیں طغیانی آئی ہے ۔اس صورت حال میں پانی اپنے ساتھ خس و خاشاک ہی نہیں بلکہ جو بھی اُس کے سامنے آتا ہے اُس کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے ۔ اب ذرا سا اصل بات کی طرف آتے ہیں۔سراج المنیر حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار اپنے جلو میں تشریف فرما اصحابؓ سے کچھ اس طرح سے فرمایا کہ اگر ایک چھوٹے سے برتن میں چھوٹا یعنی قلیل کھانا ہو مگر بھوکے بے حساب ہوں تو وہ کھانے پر شرافت کے ساتھ نہیں بلکہ بے تحاشا ٹوٹ پڑیں گے اور لوٹ مچائیں گے ۔اُسی طرح سے ایک وقت اُن کی اُمت پر ایسا بھی آئے گا کہ اغیار اُن پر ٹوٹ پڑیں گے اور طغیانی کی طرح اپنی لپیٹ میں خس و خاشاک کی طرح بہاکر لے جائیں گے ۔حاضرین میں سے ایک صحابہ ؓ سوالی ہوئے اور عرض کیا :کیا اُس وقت اُمت بہت کم یا تھوڑی ہوگی جو اغیار کو غلبے کا موقعہ ہاتھ آجائے گا ؟جواب میں آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نہیں اُمت بہت کثرت میں ہوگی مگر حملہ آوروں کے دلوں میں اُمت کا کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوگا ۔پھر اگلا سوال اُس ڈر یا خوف نہ ہونے کی وجہ جاننے کے لئے ہوا تو دُر فشانی ہوئی۔۔۔۔۔وہن!
حالانکہ یہ بات قارئین کرام بخوبی جانتے ہیں کہ دور جاہلیت میں عربوںؔکو اپنی مادری زبان کی زبان دانی پر اس قدر فخر و غرور تھا کہ وہ باقی دنیا کی دوسری زبانیں بولنے والوں کو عجمی یعنی گونگے کہا کرتے تھے۔حالانکہ اُس وقت بھی دنیا میں دیگر بڑی بڑی زبانیں جیسے عبرانیؔ،سنسکرتؔ،چینیؔ،سامیؔ،اور پہلویؔ وغیرہ کا تحریر تقریر میں چلن تھا مگر عربؔ ظہور اسلام سے قبل اُن کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔تو میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حاضرین بھی عربوں کی ہی جماعت تھی مگر اُس کے باوجود شمع رسالت ؐکے پروانوں نے بے تابی ٔ دل کے ہاتھوں لاچار تجاہل عارفانہ سے کام لے کر ’’وہن‘‘کا مطلب یعنی اُس کی تشریح چاہی تو خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الحُبِ دنیا ۔۔۔۔یعنی دنیا کی یا دنیا سے محبت۔
بڑی بڑی باتیں تو علماء و فضلاء او ر ائمہ و خطیب حضرات بار بار اور ہمیشہ بتاتے رہتے ہیںاور مفتیان کرام دقیق مسایل کا حل و جواب دیا کرتے ہیں ،میں اپنی بساط کے مطابق چند چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کروں گا ، جن کو ہم کم فہمی کی وجہ سے بلکہ اکثر حالات میں جان بوجھ کر صرف نظر کردیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہماری تنخواہ ،ہمارا پنشن یا کاروباری پیسہ ہمارے بنک کھاتے میں جمع ہوجاتا ہے ۔ہنر مند ،مزدور ،دیگر ذرائع سے کمانے والے احتیاط کے طور پر پیسہ گھر کے بجائے بنک میں رکھتے ہیں ۔خرچہ نکالنے کے بعد بچا ہو اپیسہ ہم معینہ مدت کے لئے فِکسڈ ڈیپازٹ میں رکھتے ہیں۔ہر دو صورت میں جس طرح بنک قرضہ جات پر سود لیتا ہے، اُسی طرح نکالنے کے بعد بچ رہی اور جمع شدہ پونجی پر سود دیتا بھی ہے ۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ سود لینے دینے کا مطلب اللہ رب العزت کے ساتھ جنگ کرناہے ۔اللہ تعالیٰ خالق،رزاق کے ساتھ یہ جنگ ہم فقط پیسے کی خاطر کرتے ہیں۔اسی کو حُب ِ دنیا کہیں گے ۔ہم کوپیسہ پیارا ہے مگر حق تعالیٰ کی نارضگی کا خیال نہیں ۔ہم اخبار،رسائل ،گوگل اور فیس بُک پڑھتے ہیں مگر نماز نہیں پڑھتے ،قرآن ِ حکیم کا مطالعہ نہیں کرتے ،آئین ِفطرت ،لائحہ انسانیت کو نہیں سمجھتے ۔ٹیلی ویژن پر فلمی چینل رکھتے ہیں مگر روزہ نہیں رکھتے ۔ہم عیش کرتے ہیں مگر اعتکاف نہیں کرتے ۔ہم سیرو تفریح خوب کرتے ہیں مگر طواف ِ کعبہ نہیں کرتے ۔ہم زیارت ِ مناظر ،چمنستان اور کو ہ و دمن کرتے ہیں مگر زیارت ِخانۂ خدا نہیںکرتے۔ہم خوب موج اڑاتے ہیں، شکم سیر ہوکر کھاتے ہیں مگر یتیم و فقیر کو بھول جاتے ہیں ۔ہم شادی بیاہ میں خوب دھوم دھڑا کا کرتے ہیں ،مستورات کی محفل میں گویے بلاکر محلے کی نیند حرام کرتے ہیں ،خوب خرچتے ہیں مگر نہ کسی خیراتی فلاحی کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں نہ حج نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو وہاں بٹتی خیرات لیتے ہیں ۔سڑکوں کے کنارے پر روز کی روز روٹی جٹانے والے مٹر ،مونگ پھلی ،چنے چھولے ،پکوڑے پٹھورے ،دال مونگرا ، پُوری پر اٹھا ،سنگھاڑے کی گِری وغیرہ بیچنے والوں سے ہم جائز انسانی حقوق (Legtimate human rights)سمجھ کر راہ چلتے ،آتے جاتے بغیر بیچنے والے کے اذن کے چتگا اُٹھاکر منہ میں ڈال لیتے ہیںاور اس حق تلفی کا ہم کو ذرہ بھر بھی احساس نہیں ہوتا ۔ہم کبھی نہیں سوچتے کہ یہ ہم نے کیا کھایا ؟ کیوں کھایا ؟کس کا کھایا ؟یہ جانور کی طرح منہ مارتے چلے جانا ،کیا اس کا کوئی حساب نہیں ؟کوئی مواخذہ نہیں؟ جہاں پانی کے ایک قطرے کا حساب ہوگا وہاں حق تلفی بلا حساب وبلا عذاب جائے گی ؟
ہم سنگیت کے شوقین ہیںتو اُس صورت میں ہمارے دل میں اللہ جلہ شانہ کیسے اپنا سنگھاسن بنائے گا جب وہاں پہلے سے ہی سنگیت بیٹھا ہو؟اذان ہوتی ہے ہم موبائیل پر وظیفہ رٹتے ہوتے ہیں تو بھلا خود ہی بتائیے کہ ایمان اُس من میں کیسے ٹھکانہ کرے گا جہاں موبایل دیوتا نے پہلے سے ہی قبضہ جمایا ہو۔۔۔؟ہم کو سلام پھیلانے کا حکم ہوا ہے ،جس سے یاری دوستی ،جان پہچان ،وسیع حلقۂ احباب اور مفت میں دس ثوابوں کی انٹری ملتی ہے ۔راہ چلتے ہم کو مختلف لوگوں سے مڈ بھیڑ ہوتی ہے ،چاہے پہچان ہو یا نہیں ،چاہے وہ صاحبِ استعداد ہو یا مفلس،سلام میں بہر حال پہل کرنی ہے مگر ہم لب ہلانے سے کتراتے ہیں کیونکہ حُبِ دنیا فخر و مباہات اور غرور وتکبُر کی شکل میں ہمارے جسم و جاں کا احاطہ کئے ہوتا ہے ۔اس لئے یہ غرور ہمارے ہونٹوں کی بیٹری بنتا ہے تو بھلا ہم حکم کی پیروی کیسے کریں گے ؟ہم سلام کو کیونکر پھیلائیں گے ؟ ْتکبرو غرور کی اس دوڑدھوپ میں،فخر ومباہات کے اس اندھے روپ میں اور پیسے کی ریل پیل میں آج ہم اپنے دینی وانسانی اقدار کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں،اب تو حفیظ میرٹھی ؔ کے الفاظ میں ہر طرف ،ہر سُو اور ہر دِشا سے یہی سمجھ میں آتا ہے ؎
بس یہی دوڑ ہے اِس دور کے انسان کی
تیری دیوار سے اونچی میری دیوار بنے
(جاری )
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر موبائل نمبر:-9419475995