آپ حُبِ دنیا پر غور کرتے رہئے ۔آپ ’’ہم ہیں‘‘اور ’’میں ہوں‘‘پر سوچتے رہئے۔آپ ایک مسجد کی دو جماعتیں اور دو دروازے بناتے رہئے۔آپ خود کو مسلمان اور دوسرے کو کافر ہونے کا فتویٰ دیتے رہئے۔آپ اس کو حنفیؔ اُس کو وہابیؔ،اِس کو جنتی اور اُس کو دوزخی بناتے رہئے مگر اس دوران ایسا کرتے اور کہتے ہوئے ،یہ تضاد پالتے اور بے کار کی بحثیں کرتے ہوئے آپ نے کیا کھویا؟ میں آپ کو اس جماعتی اور مسلکی شریِنتَر(فتنہ و فساد)سے دور اُس کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھانا چاہتا ہوں۔
یورپی سپر پاور س خاص طور پر تین ممالک برطانیہؔ،امریکہؔ اور فرانس ؔکا ایک لے پالک اور ناجائز بچہ اسرائیلؔ ہے اس بات کو سبھی جانتے ہیں ۔اُس ناجائز اولاد کے پاس سارے فلسطینؔ میں سر چھپانے کے لئے ایک انچ زمین بھی نہ تھی مگر ان ممالک نے اُس غاصب کے لواحقین کو سارے یورپ اور روسؔوغیرہ سے منگواکر عربوںؔ کے سروں پرسوار کردیا ۔عربوں سے زبردستی زمینیں چھین کر،اُن بستیوں کو آگ لگاکر اور ہزاروں نفوس کو بے گناہ قتل کرکے یہودؔ کو وہاں بسایا گیا اور بعد میں اسی ناجائز ،ظلم و جبر و استحصال سے بسائی ہوئی بستی کا نام اسرائیلؔ رکھا گیا ۔نہ صرف یہ کہ دنیا کے گلوب میں ایک نئے ملک کا اضافہ ہوا بلکہ مسلم دشمنی میں اُس کو مستحکم کرنے کے لئے ہر اُس خلش کا مداوا کیا گیا جو کبھی اور کسی صورت میں بادا پیدا کرسکتی تھی یا اُس ناجائز بچے کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھ سکتی تھی۔
شروع ہی میں اپنا دھاڑا جمانے اور اپنی استحصالی ساکھ قائم کرنے کے لئے اُس نے سن 1967میں ہی مصرؔ کے دانت کھٹے کردئے اور دیگر عرب ممالک کے کچھ حصے اپنی مملکت میں شامل کردئے ،نہ صرف یہ بلکہ سعودی عربؔ کی سرزمین کے اوپر سے اپنے جہاز اڑا کر ایرانؔ کے ایٹمی ری ایکٹر کی دھجیاں بکھیر دیں۔اسی پر بس نہ ہوا بلکہ ورلڈ پولیس مین کی آشیرواد سے یہ سلسلہ چلتا رہا ۔محسوس کیا گیا کہ مصرؔ کا فرعونؔ کبھی آنکھیں دکھا سکتا ہے، اس لئے اُس کے خلاف بغاوت کراکے اُس کو معزول کیا گیا اور اخوان کو آگے کیا گیا اور چند دنوں کے اندر اندر مار دھاڑ اور ہنگامہ کرواکے ، اخوان کے بیشتر کارکنوں کو سولی پر چڑھاکر اپنے من پسند بجر بھٹو کو لاکر عنان حکومت اُس کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔
کرنل قذافی ؔایک ہر دلعزیز اور طاقت ور حکمران ہر وقت ورلڈ پولیس مین کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ۔ایک بار اُس کے محل پر بغیر کسی اشتعال کے بمباری کرکے اُس کی کم سن دختر کو شہید کردیا گیا ۔کرنل ؔ نظام حکومت کو مستحکم کرکے اتنی طاقت حاصل کررہا تھا کہ کل کلاں اسرائیلؔ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرسکنے کا یارا جٹھا سکتا تھا ۔اُس کے ساتھ کیا سلوک کروایا گیا ؟ایک تھرڈ کلاس غیر ملکی دہشت گرد کی طرح فرانس ؔنے ایک تو اُس کا دیا ہوا قرضہ ہڑپ کرلیا اور ایک سڑاند بھری گلی میں گولیوں سے بھون ڈالا اور اُس کے بعد تمام ملک میں ایسا فساد برپا کروایا گیا جس میں ہزاروں لوگ جان بحق ہوگئے مگر فساد تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے۔
ہمیں عراق ؔ کے کج کلا ہ قومی ہیرو کے شاندار تیس سالہ ’’حکومت‘‘ایک طاقت ور مسلم مملکت کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے سور کا گوشت کھانے والے ایک کذاب نے اتنے بڑے شوریدہ سر ، وضع دار حکمران ،یہود مخالف بے باک بادشاہ کو کیا کیا بہانے بناکے ،کیا کیا جھوٹے الزامات لگاکر نہ صرف اُس کو دارورسن کا راستہ دکھایا ،نہ صرف اُس کے ایستادہ بت کو منہ کے بل سرنگوں کروایا ،نہ صرف اُس کے سارے خاندان کو خاک چٹائی ،نہ صرف عراقی تہذیب و تمدن کے آثار مٹا ڈالے ،نہ صرف ملکی سرمائے کو لوٹا ،نہ صرف لاکھوں انسانوں بشمول بزرگوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ دجلہؔ اور فراتؔ کے کناروں پر آباد عباسیؔ جاگیر کو کھنڈروں میں تبدیل کردیا ۔یہ بجز اسلام دشمنی کے اور کچھ بھی نہ تھا۔
شامؔ۔۔۔جی ہاں !شام ؔ جو ظہور اسلام سے سینکڑوں سال قبل بھی اپنی آن بان و شان کے بل پر وقار کے ساتھ اپنی تابناک روشنیوں سے اطراف ِ عالم کو منور کرتا رہا ۔صحرائے عربؔ اور ملحق دیگر بنجر علاقوں میں جہاں بقول مولانا حالیؔ ـ؎
نہ کھیتوں میں دانا نہ دریا میں پانی
فقط آب باراں پہ تھی زندگانی
لگ بھگ تما م عربؔ کی خوراک ،دیگر ضروریات زندگی،حرب و ضرب کا سامان ، لباس اور پارچہ جات شامؔ کی ہی برآمدات ہوتی تھیں ۔بذات خود زمانہ جاہلیت میں مکہؔ اور مدینہؔاور دیگر علاقہ جات کے لوگوں کے تجارتی قافلوں کی ناقائیں اپنی میٹھی صدائے جرس کی جھنکار اور تان شامؔ میں ہی آکر روکتی تھیںاور گرد سے اَٹے انگ و اعضاء والے تھکے ماندے ساربان ملک شام کے مست مدھر فرحت انگیز ماحول میں اپنی کسل مندی اور تکان دور کرتے ،اور رات کو کیمپ فایر کے ارد گرد مختلف کیموں اور اونٹ کے بالوں سے بنے تنبوئوں سے جب جھن جھناتی اور چھن چھناتی دف لے کر دوشیزائیں ساز وآہنگ کا سحر آگیں ماحول جگاتیں تو کیسا سماں بند ھتا ہوگا ؟ریت کے ٹیلے بھی وجد میں آتے ہوں گے اور متوالے گھٹی میں پڑے عشق کرنے والے عربیؔ جانبازوں کے دلوں کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی؟۔۔۔۔وہ تصور میں لانے والی بات ہے ۔شامؔ کے اُسی حسین ،میٹھے اور پیارے موسم و ماحول اور آقائے نامدار کی برکتوں والی دعا کی وجہ سے ہی بعد میں دورِ خلافت حضرات عثمان وعلی رضی اللہ عنہما میں کئی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ملک عرب سے ہجرت کرکے ملک شام ؔ میں جاگزیں ہوئے تھے ،اور آخر میں وہیں پر آسودہ ٔ خاک بھی ہوئے۔آج اصحاب رسول سلی اللہ علیہ وسلم کے وہ آثار و آستان اور وہ متبرک مقابر کہاں ہیں ؟سنگدل ظالموں نے اُن کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا ۔
مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے ،کیاکِیا جاسکتا ہے ۔ ؎
کأوِ کأوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
(غالبؔ)
(باقی آیندہ ان شاء اللہ)
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995