ایس معشوق احمد
آپ کو یقین نہیں آتا تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بخدا میں نے کسی کا بٹوا نہیں مارا ،نہ کوئی بڑی چوری انجام دی ہے، نہ میں فرار مجرم ہوں اور نہ کوئی ایسا سنگین جرم کرکے بھاگا ہوں جس کی بدولت سارے شہر کی پولیس اس لالچ میں مجھے پکڑنا چاہتی ہے تاکہ انہیں کسی بڑے انعام سے نوازا جائے۔میں ایک عام سا آدمی ہوں اور عام آدمی کی طرح مختلف پریشانیوں اور مسائل کا مجھے سامنا رہتا ہے۔ان مسائل کو حل کرنے کے لئے کبھی گھریلو کام نمٹاتا ہوں تو کبھی کسی ضروری کام کو انجام دینے کے لئے گھر سے باہر دور دراز مقامات کا سفر کرتا ہوں۔ایک روز ضروری کام سے اپنے گھر سے چالیس پچاس کلو میٹر کا سفر طے کرنا تھا لیکن مجھے آدھا سفر طے کرنے کے بعد گھر واپس لوٹنا پڑا۔ مجھے حفاظتی عملے نے نہیں روکا نہ کسی قرض دار سے ڈر کر میں نے واپسی کی راہ لی۔ مجھ جیسے نادار لوگ جب سفر کے لئے نکلتے ہیں تو کرایہ اتنا ہی جیب میں رکھتے ہیں جتنا منزل مقصود تک پہنچنے اور گھر واپسی کے لئے درکار ہوتا ہے۔ فاضل پیسے جیب میں کیا گھر میں بھی نہیں ہوتے سو خوابوں کی دنیا میں رہ کر صبر اور شکر کے ساتھ ساتھ قناعت کرلیتے ہیں۔ایک صبح جب ہوا خوشگوار تھی اور سفر کے معقول ،مجھے گھر سے ضروری کام انجام دینے کے لئے نکلنا پڑا۔ وسائل محدود ہوں تو آنکھیں بند کرکے منزل پر نظر رکھنی پڑتی ہے دکانوں کی جانب دیکھنا بےپردہ خاتون کی طرح خود کو گناہوں میں مبتلا کرنا تصور کیا جاتا ہے۔جیب میں اتنی رقم ڈال کر نکل کھڑا ہوا جس سے آسانی سے آجا سکتا تھا لیکن مجھے پھر بھی آدھا سفر طے کرنے کے بعد واپس گھر لوٹنا پڑا۔میں نے جو آنے جانے کا کرایہ جیب میں رکھا تھا وہ آدھے راستے میں ختم ہوگیا۔ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ کسی جیب کترے نے میری جیب کاٹ لی یا میں فضول خرچی کا مرتکب ہوا اور سارا مال گنوا لیا ۔نہیں ایسا تو میرے ساتھ کچھ نہ ہوا بلکہ میں نے منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے باقاعدہ ٹرین کی ٹکٹ خریدی اور وقت مقررہ پر ٹرین میں چڑھ گیا۔الہی خیر کیا عجیب منظر دیکھتاہوں ٹرین میں جتنے مسافر تھے اس سے دو گنے بھکاری اپنی روز روٹی کے لئے تگ ودو کررہے تھے۔ صاحبو! دنیا کتنی بدل گئی ہے، انسان غریب سے بھکاری ہوگیا ہے اور دس میں سے آٹھ انسان بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ حقیقت ٹرین میں آشکار ہوئی۔کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بچہ آنکھوں کی روشنی سے محروم ،رونی صورت لوگوں سے مدد کی اپیل کررہا تھا۔کچھ نرم دل اور خدا ترس لوگ اس کی معصومیت اور بدحالی کو دیکھ کر اس کی مدد کررہے تھے تو کچھ اس کی حالت کو نظر انداز کررہے تھے۔ان کو جاتے دیکھ ابھی ایک منٹ بھی نہ گزرا تھا کہ ایک خاتون جس کی گود میں چند ماہ کا بچہ تھا ،جس کے کپڑے پھٹے ہوئے ،پرانی چپل پہنے ، نیم عریاں حالت میں دھن وانوں سے دان کی گزارش کرنے لگی۔کچھ دھن والے گن والے بھی ہوتے ہیں جو سوالی کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے ۔ان گن وانوں کے چہرے ہم نے بھی دیکھ لئے۔گردن گھمانے کی دیر تھی کہ ایک معذور شخص جس کی ایک ٹانگ مکمل کٹ گئی تھی پھر سے دھن اور گن کو آزمانے آیا۔یہاں بھی وصف اور نرم دلی کی جیت ہوئی۔اس معذور شخص کے پیچھے پیچھے ایک نابینا شخص بھی چلا آرہا تھا لوگوں نے اس کو بھی ناامید نہیں کیا اور حسب استطاعت اس کی بھی مدد کی۔یہ سلسلہ طول پکڑ رہا تھا ایک سات آٹھ سال کی بچی رو رو کر دلوں کو نرم کررہی تھی، اس کے جاتے ہی ایک سات سال کا معصوم لڑکا جس کا ایک بازو کہنی سے کٹ گیا تھا نرم دل لوگوں کی آزمائش کرنے آگیا تھا۔ یک بعد دیگرے وہ آتے گئے لوگ دیتے گئے۔اس سارے منظر کا میں گواہ ہوں کہ ایک بھی بھکاری ایسا نہ گیا جس کی لوگوں نے مدد نہ کی ہو۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ سارے دست دراز غیر مقامی تھے۔جتنے بھی لوگ روزانہ ٹرین میں سفر کرتے ہیں ان کو خبر ہے کہ گداگری ان کا دھندا ہے اس کے باوجود ان کو خالی ہاتھ نہ لوٹانا کشادہ دلی اور سخاوت ہے۔
مرزا کہتے ہیں کہ ان نظاروں کو دیکھ پتھر دل بھی پگھل کر ملائم ہوگا ۔ہم تو پہلے ہی نرم دل واقع ہوئے ہیں سو ہمارا دل رونے پر آمادہ ہوا اور اپنی بساط دیکھے بغیر ہم نے بھی دریا دلی کا مظاہرہ کیا۔جب ایک جوان کو بھی دیکھا کہ وہ بھی بھیک مانگ رہا ہے اور اس کی بھی مدد کرنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو منزل مقصود کا خیال آیا۔مقررہ مقام تک پہنچنے کے لئے ہمیں جو رقم درکار تھی وہ جیب میں موجود نہ تھی سو مجبور ہوکر ہمیں آدھے سفر سے واپس گھر لوٹنا پڑا۔گھر پہنچ کر مرزا سے سارا احوال بیان کیا۔مرزا فرمانے لگے میاں رحم دلی کا مظاہرہ کرنا ٹھیک ہے لیکن اپنی استطاعت کا خیال رکھنا افضل ہے۔جس بندے کی حالت اور خالی جیب پر لوگ ترس کھائیں وہ دوسروں کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوجائے تو اس کے جذبے کو سلام پیش کرنا چاہیےلیکن تم پہلے کمانا سیکھ لو خرچ کرنے کا گُن سیکھنا نہیں پڑتا۔مزرا نے ’تم‘ بڑی حقارت اور کراہت سے کہا ۔دل کو ٹھیس لگی اور آنکھیں بھر آئیں۔پکا ارادہ کیا کہ اب پہلے کماؤں گا پھر لوٹاؤں گا۔اس سے قبل بھی میں نے مرزا کی باتوں کو دھیان سے سنا اور ان پر عمل پیرا ہوا ۔اس بار مضبوط ارادے سے کمر کس لی اور لکھنا پڑھنا ترک کیا۔کوئی ڈھنگ کا کام کرنا نہ آیا سو مزدور ہوئے۔
جس روز مزدور ہوئے پیسے آگئے
جب تک سخن شناس رہے ، کچھ نہیں بنا
صاحبو! جب سے اس راز سے واقف ہوا کہ کمانا کتنا مشکل ہے ٹرین سے ہی نہیں سفر کرنے سے توبہ کرلی۔نرم دل لوگو! گھروں کے اندر رہو کہ گلی کوچوں ، چوراہوں ، بسوں ، ٹرینوں میں دریوزہ گر گھوم رہے ہیں۔ایک بار سامنے کھڑے ہوگئے تو سخاوت کے سوا چارہ نہیں اور آدھے سفر سے گھر واپسی پکی ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ جو منش گھر میں رہتا ہے وہ نکما ہے اور جو آدھا سفر طے کرنے کے بعد گھر واپس آئے وہ ناکارہ اور نالائق ہے۔
���
کولگام، کشمیر
موبائل نمبر؛ 8493981240