گھنٹی بج گئی۔لنچ کا وقت ہوگیا۔سبھی بچوں نے اپنا اپنا ٹفن کھولا اور کھانا کھانے میں مشغول ہوگئے۔اساتذہ صاحبان اپنے اپنے کلاس روموں میں بیٹھے بچوں کے کھانا کھانے کے الگ الگ انداز سے لطف اٹھا رہے تھے۔اسی اثنا میں نقاش نام کا ایک شاگرد اپنے استاد سے کہنے لگا ”سر آئیے ہمارے ساتھ کھانا کھائیے“۔
”آپ کھاؤ بیٹا“ استاد نے کہا۔
نقاش کے بار بار اصرار کرنے پر صنان نام کے اِس استاد نے آخرکار دو،تین چمچ تناول کئے اور ٹفن اس کو واپس کر دیا۔
دوسرے دن جب لنچ ٹائم ہوگیا تو تھوڑی دیر بعد نقاش نے خود آدھا کھانا کھا کر اسی استاد کو ٹفن دے کر بچاہوا کھانا کھانے کے لیے دیا۔چونکہ بچپن میں ہی صنان نے ”کھانے پینے کے آداب“میں یہ بات پڑھی تھی کہ ”اگر کوئی آپ کو کچھ کھانے پینے کے لیے پیش کرے تو اس کو ہر گز ٹھکرانا نہیں چاہیے، حتیٰ کہ اگر آپ اس چیز کو کھانا پینا پسند بھی نہ کرتے ہوں“۔اسی لیے صنان نے بچے کی پیشکش کو نہ ٹھکراتے ہوئے ٹفن کھول کر کھانا کھایا۔
یہ سلسلہ اب تقریباً ایک ہفتے سے چلتا آیا تھا۔نقاش آدھا کھانا کھا کر اپنے استاد صنان کو باقی کھانا کھانے کے لیے دیتا رہااور حسبِ معمول صنان ٹھکرانے کے بجائے کھانا کھاتا رہا۔
مگر! ایک دن صبح جب پریئر پڑھنے کے بعد بچے اپنے اپنے کلاس روموں میں چلے گئے تو پرنسپل صاحب نے اساتذہ کو گراونڈ میں جمع کروایا اور ان الفاظوں کے ساتھ اُن سے مخاطب ہوئے”شکایت آئی ہے کہ اساتذہ میں سے کوئی استاد کسی بچے کے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ یہ ٹھیک بات نہیں ہے کہ اسی کلاس کے دوسرے بچے شکایت لے کر آئیں کہ فلاں سر فلاں بچے کے ساتھ کھانا کھا رہا ہوتا ہے ۔یہ بالکل ناقابلِ برداشت ہے۔یہ کسی استاد کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بچے کا آدھا لنچ کھائے“۔ابھی پرنسپل صاحب بات کر ہی رہے تھے کہ اساتذہ صاحبان میں سے ایک، جومولانا تھے، نے ارشاد فرمایا”توبہ،توبہ پچھلے سال سکول میں جو اساتذہ تھے، اُن میں کسی سے یہ سب دیکھنے کو نہیں ملا،انہوں نے شرمندگی کا کوئی ایسا کام انجام نہیں دیا۔توبہ توبہ “۔صنان بھی یہ سب کچھ سن رہا تھا اور وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ سب اُسے ہی سنایا جا ریا ہے۔من ہی من میں کہنے لگا”مولانا صاحب کو دیکھو کہ یہ ہاں میں ہاں ملائیے جا رہا ہے کہ کسی کا جھوٹا کھانا غلط فعل ہے۔مگر شاید برخودار کو مولانا ہو کے بھی یہ معلوم نہیں کہ مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کا جھوٹا کھانا کوئی برا فعل نہیں بلکہ اچھے کاموں میں شمار ہے“۔خیر پرنسپل صاحب نے آخر میں سب اساتذہ کو باخبر کیا کہ آگے ایسی کوئی شکایت نہیں آنی چاہیے۔
سبھی اساتذہ اپنے اپنے کلاس روموںمیں پڑھانے کے لیے گئے۔ صنان بھی گیا،مگر اس کو یہ بات اندر ہی اندر ستانے لگی اور اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ آج کے بعد نقاش کا دیا ہوا کھانا نہیں کھائے گا تاکہ اُس معصوم کو کسی اُلٹی سیدھی بات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
گھنٹی بج گئی اور لنچ ٹائم ہوا۔ حسبِ معمول بچے کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔ نقاش اپنے حصے کا کھانا کھا کر بچا ہوا حصہ لے کر صنان کے پاس آیا مگر خلافِ معمول صنان کو کمرے میں پایا ہی نہیں کیونکہ صنان اس بار لنچ کے وقت کلاس روم سے نکل کر گراؤنڈ میں آبیٹھا تھا اور لنچ ٹائم ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ اس نے ٹھان لی تھی کہ آج سے وہ اب آدھا لنچ نہیں کرے گا۔
لنچ ٹائم ختم ہوگیا۔کلاس پھر سے شروع ہوگئے اور صنان اوپر کی منزل پر ابھی پہنچا ہی تھا کہ نقاش کی نظر اس پر پڑی۔وہ تجاہل عارفانہ کے ساتھ آگے بڑھنے لگا کہ نقاش نے اسے مخاطب ہو کر کہا”سر آپ کہاں تھے“۔
”بیٹا میں نیچے کچھ کام کر رہا تھا“۔صنان نے کہا۔
”اچھا سر،میں کھانا لے کر آتا ہوں“نقاش نے بولا۔
”نہیں،نہیں بیٹا میں نے کھانا کھایا“۔اس طرح صنان نے بڑا جھوٹ بولا اور نقاش کو جانے کے لیے کہا۔
گھنٹی بج گئی مگر اس بار لنچ کے لیے نہیں بلکہ چھٹی کے لیے اور اسی اثنا میں پرنسپل صاحب کی تشریف آوری ہوگئی۔’’ثاقب،ثاقب‘‘ پکارنے لگے۔
”یس سر“ ثاقب سر نے کسی اور کلاس سے جواب دیا۔
”ثاقب کہاں ہو“۔پرنسپل صاحب آواز دیتے ہوئے بولے۔
”میں یہاں ہوں سر“۔ثاقب بولا۔
”جس مسئلے کا چرچا صبح کرکے آپ سب سے اتنی گفتگو کرنی پڑی اور کہا کہ دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہیے،ابھی پانچ گھنٹے بھی نہ ہوئے کہ وہ فعل پھر سے دہرایا گیا“۔ایسا پرنسپل صاحب نے ثاقب سر سے کہا۔
”مطلب اس نے آج پھر اس کا آدھا لنچ کھایا؟“۔ثاقب نے پوچھا۔
”جی بالکل اور کیا،اس نے آج پھر وہ حرکت دہرائی ہے“۔پرنسپل نے کہااور ’’مولوی مولوی‘‘ پکارتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
یہ سب سن کر صنان حیراں ہوگیا اور اند ہی اندر کہنے لگا ”یا خدا آج تو میں نے نقاش کو لنچ کے ٹائم میں دیکھا ہی نہیں تو یہ آدھا لنچ کھانے کی بات کہاں سے آئی“۔اس طرح یہ دن بھی گزر گیا۔ ایسے ہی ایک اور دن گزر گیا تیسرے دن وہ نقاش کی کلاس میں آیا اور یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ نقاش کا ٹفن کھلا ہی نہیں تھا۔ٹفن میں آدھا کھانا نہیں بلکہ ٹفن کھانے سے بھرا ہوا تھا۔یہ دیکھ کر صنان خوش ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مایوس بھی ہوا۔خوش اس لیے کیونکہ جب نقاش سے اس نے کہا”بیٹا تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا ہے“۔تو اس نے جواب دے کر کہا”سر آپ تو کئی دنوں سے میرے ساتھ ہی کھانا کھاتے تھے پر دو دنوں سے لنچ کے ٹائم پر آپ کہیں دیکھائی نہیں دئیے۔تو بھلا میں آپ کے بغیر اب کھانا کیسے کھاؤں گا“۔اس کا پیار خود کے لیے دیکھ کر صنان خوش تو ہوگیا لیکن مایوس اس لیے کیونکہ اُس سے اس کا فاقہ برداشت نہیں ہوا۔ابھی اُس کی آنکھ سے آنسو ٹپکنے ہی والا تھا کہ وہ وہاں سے فوراً چلا گیا۔۔۔۔۔۔
تیز تیز چلتے وہ ایک اور ٹیچر سالم سے ٹکرایا تو سالم صنان سے کہنے لگا ’’یار میں آج حیران ہوگیا‘‘ صنان کے پوچھنے پر اُس نے جواب دیا کہ ” میں آج فلاں کلاس روم میں لنچ کے دوراں تھا ،دیکھا تو سبھی بچے کھانا کھا رہے تھے سوائے نقاش کے۔پوچھا تو وہ کہنے لگا۔’سر میں صنان سر کے بغیر قطعاً کھانا نہیں کھاؤں گاـ‘۔میں حیراں ہوگیا“۔یہ سن کر صنان سالم کے کاندھے پر سر رکھ کر زار زار رونے لگا،نقاش کی محبت خود کے لیے دیکھ کر صنان کی زباں سے چیخ نکلیں۔۔۔۔۔۔آنکھیں سرخ۔۔۔۔۔۔رومال گیلی۔۔۔۔گھنٹی بج گئی اور چھٹی ہوگئی۔
اگلے دن یہ سلسلہ پھر چلتا بنا۔گھنٹی بج گئی،لنچ ٹائم ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد نقاش کھانا لےکر آیا اور صنان سر کو کھانے کے لئے کہا۔دیکھا تو ٹفن کھانے سے بھرا تھا،مطلب اس نے بھی کھانا نہیں کھایا تھا۔صنان نے منع کرکے پھر ایک بار جھوٹ بول کر کہا کہ”میں نے کھانا کھایا اور میں گھر سے ہی اب ٹفن ساتھ لاتا ہوں ۔اس لیے تم کھانا کھاؤ اور آج سے اب میرے لیے آدھا لنچ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے“۔مگر نقاش نے ایک بھی نہ مانی اور کہا ”سر جب تک آپ آدھا لنچ نہیں کھاؤ گے تب تک میں بھی کھانا نہیں کھاؤں گا“۔
صنان اُسے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ اتنے میں کسی نے صنان کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ اُس نے مڑ کر دیکھا تو پرنسپل سر تھے، جو دونوں سے بے خبر یہ سارا نظارہ دیکھ چکا تھا۔ صنان ہڑبڑانے لگا تو پرنسپل سر نے اُسے تھپکی دیتے ہوئے کہا کہ گھبرائو نہیں، بچے کی بات مان لو۔ اگر اسکی خوشی اسی میں ہے تو ہمیں اس کی بات مان لینی چاہئے، کیونکہ بچوں کو خوش رکھنا ہمارا پہلا فریضہ ہے‘‘۔
یہ بات سن کر صنان کی جان میں جان آگئی دراصل اُسے معلوم نہیں تھا کہ نقاش کی ممی نے پرنسپل سے ٹیلی فون پر شکایت کی تھی کہ نقاش دو دنوں سے کھانا کھائے بغیر ہی ٹفن گھر واپس لارہا ہے۔ اسکی وجہ کیا ہے؟
چنانچہ بات پرنسپل کی سمجھ میں آگئی تھی۔ انہوں نے ٹفن کھول کر اپنے ہاتھ سے کھانے کا ایک چمچ نقاش کے منہ میں ڈالا اور پھر دوسرا چمچ اُٹھا کر نقاش کے ہاتھ میں تھما دیا، ۔۔ صنان کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کرکے گرنے لگے اور آہستہ آہستہ اسکا منہ کھل گیا، شائد چیخ مارنے کیلئے۔ یہ دیکھتے ہی نقاش نے کھانے سے بھرا چمچ صنان سر کے منہ میں ڈال دیا۔
شانگس اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛9596411285