Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! آدمی کا انسان بننافتح اور شیطان بن جانا شکست | کامیاب زندگی کا راز میانہ روی اور اعتدال میں مُضمِر فہم و فراست

Towseef
Last updated: January 28, 2025 8:59 pm
Towseef
Share
13 Min Read
SHARE

عبداللطیف تانترے

نظام کائنات میں موجود ہر شے اپنی منفرد اہمیت اور افادیت رکھتی ہے جس کی وجہ سے قدرت کے اس قائم شدہ نظام میں کوئی بھی شے بے مقصد یا بے کار تصور نہیں کی جاتی۔ اگرچہ ماضی قریب تک یہ تصور نظریاتی سطح پر ہی مقبول و معروف رہا ہے تاہم موجودہ سائنسی ترقی سے اب یہ تصور عملی طور بھی ثابت ہے کہ خرد بین سے دیکھے جانے والے اشیاء وجراثِیم سے لے کر نظر میں نہ سمائے جانے والے بحر و بر اور فلکیاتی اشیاء میں کوئی بھی شے غیر ضروری نہیں ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت انسان کے بغیر تمام جاندار وبے جان مخلوق قانونِ قدرت کی خلاف ورزی پر قادر نہیں ہیں لیکن ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے پر فطری طور کاربند ہیں۔ چونکہ مخلوقِ انسانی ہی وہ واحد مخلوق ہے جسے قدرت نے اپنے نظام میں دخل کا مَلکہ عطا کیا ہے اور یہی انسانی کمال ماباقی مخلوق پر انسان کی سبقت کا سبب ہے۔ انسان کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ قدرت کے پورے نظام میں موجود وسائل کو بروئےکار لا کر اپنی اشرفیت کے اعزاز کو اور زیادہ عروج بخشے ۔ لیکن یہ قدرت کی انسان پر مہربانی صرف اعتدال پر مبنی لائحہ عمل پر کاربند رہنے تک محدود ہےکیونکہ قدرت کے قانون میں بے اعتدالی کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ہمیشہ سے اعتدال پر بسر ہونے والی زندگی کا خواہاں رہا ہے اور بے اعتدالی سے بچنے کا بھی۔ تاہم یہ بھی ایک مبنی بر حقیقت امر ہے کہ جہاں فطری داعیۂ خیر کے تحت انسان اعتدال پسند ہے وہی فطری داعیۂ شر کے تحت انسان بے اعتدالی کا بھی شکار ہوتا رہا ہے اور نظام کائنات میں بے جا مداخلت کا مرتکب بھی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے جن ادوار میں انسان بے اعتدالی کا مرتکب ہوا ہے ،نسلِ انسانی کو قدرت کے چپیڑے کھا کر عبرت ناک صورتحال سے دو چار پایا گیا اور اس کے برعکس اعتدال پر مبنی ادوار میں امن و امان کے ساتھ ساتھ قدرت کے انسان پر مہربان رہنے کے بھی شواہد موجود ہیں۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ انسانی کے ارتقاء میں ہمیشہ سے اعتدال اور بے اعتدالی کے درمیان تفریق کی ضرورت رہی ہے اور ایسے پیچیدہ تضادات کے تصفیہ کے لیے اگرچہ انسان عقل شعور کے زیور سے آراستہ ہے لیکن عقل و شعور میں اعتدالی فِکر پیدا کرنے کے لیے تعلیم و تربیت نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ تعلیم و تربیت ہی ہے جو انسان کو اعتدال پسند بننے کی ترغیب دیتی ہے اور بے اعتدالی سے اجتناب سکھاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت انسانی عقل شعور پر کُھلنے والے قدرت کے نِہاں خانوں کے اسرار کو نسل دَر نسل منتقل کرنے میں بھی ممد و معاون بنتی ہے۔

اگر ہم موجودہ خاندانی، سماجی ، سیاسی، کاروباری اور دیگر شعبہ جاتِ زندگی کا بغور جائزہ لیں تو ہم ہماری زندگی کا ایک بھی شعبہ بے اعتدالی سے ماخوذ افراط و تفریط سے بچا ہوا نہیں پاتے ۔ جہاں ہم اپنے گھروں کی نفاست بڑھانے میں افراط سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں وہی آس پاس کے ماحول کی گندگی کی اور ہم تفریط سے کام لے رہے ہیں ، جہاں ہم خاندانی شان و شوکت کا دکھاوا کرنے میں اِفراط سے کام لے رہے ہیں وہیں ہم قرابتوں کے پاس و لحاظ میں تفریط کا شکار ہیں، جہاں ہم سماجی اور سیاسی بالادستی دکھانے میں افراط سے کام لے رہے ہیں وہیں ہم سماجی اور سیاسی اقدار کی پاسداری میں تفریط کا شکار ہیں اور یہی افراط و تفریط سے پیدا ہونے والے لا تعداد مسائل انسان کی خوشیوں کو دیمک کی طرح کھا کر اسے مختلف نفسیاتی دشواریوں میں ڈال کر غم و اندوہ اور مصائب و آلام سے نفسیاتی مریض بناتے ہیں اور اس نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے انسان آرام و آسائش کی سہولیات کی بِسیاری کے باوجود اپنا وجود ہی بھول چُکا ہے۔ اُسے قلب و ذہن کا سکون تو دور اپنی جسمانی صحت کا بھی خیال رکھنا اب محال لگتا ہے۔ وہ شدت کے ساتھ دنیا داری میں ایسے جُٹا ہے کہ اپنے آپ سے کوتاہی برتنے کا اُسے خیال ہی نہیں ۔بقول سیماب اکبر آبادی ؎

عمر دراز مانگ کے لائی تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی ارتقاء میں ماضی قریب تک انسان قدرت کے رموز و اسرار سے اتنا واقف نہیں تھا، جتنا دور حاضر میں ہے اور اج کے اس دور میں جب انسان قدرت کے عطا کردہ وسائل سے واقفیت کے ساتھ ساتھ ان وسائل کا سب سے زیادہ بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا امتیاز حاصل کر چُکا ہے۔ اعتدال پسندی پر مبنی تعلیم و تربیت کا بھی بڑے پیمانے پر محتاج نظر آرہا ہے کیونکہ تقاضائے بشری اور مادی حصولیابیوں کی موجودہ بھرمار کے ہوتے ہوئے انسانی زندگی میں اعتدال قائم رکھنا دور حاضر کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چُکا ہے ۔ بدقسمتی سے دور حاضر کے انسان کی بمقابلہ ماضی آسان اور پُر آسائش زندگی میسر ہونے کے باوجود پریشان و پُر تناؤ نظر آنے کی وجہ انفرادی اور اجتماعی بے اعتدالی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اس بے اعتدالی سے نمٹنے کے لیے دور حاضر میں تعلیم و تربیت کا ایک ایسا نظام وجود میں لانے کی ضرورت ہے جو دور حاضر کی اس مُہلِک بیماری کے علاج کے لیے مسیحائی کردار ادا کر سکے۔ تعلیمی ماہرین کے لیے یہ چیلنج قبول کر نا اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرنے کا سنہرا موقع ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اس بے اعتدالی سے پیدا شدہ بگاڑ کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک موثر اور فعال نظام تربیت کو مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے نفاذ کی سبیل بھی پیش کر سکیں۔ اگرچہ یہ نظام گزشتہ و موجودہ پیڑیوں کی بے توجہی سے پیدا شدہ بے اعتدالی سے ہوئے نقصانات کی بھر پائی نہیں کر سکتا ،تاہم آنے والی نسلوں کو اس نہج سے ہٹ کر چلنے اور اعتدال پر مبنی زندگی کی راہ پر گامزن ہونے کی ترغیب کا بندوبست ضرور کر سکتا ہے۔ ہمیں نسلِ نَو کو سمجھانا ہوگا کہ ہمارے لیے سکون و خوشحالی کے لیے درکار اعتدال اور میانہ روی کو اپنانا از حد ضروری ہے کیونکہ ہماری کامیابی اور کامرانی کا راز صرف اور صرف زندگی کے ہر گوشے میں میانہ روی اور اعتدال اپنانے میں مُضمِر ہے ۔ خرچ کرنے میں میانہ روی، اعتماد کرنے میں میانہ روی، شوق پالنے میں میانہ روی، عبادات میں میانہ روی ، کھانے پینے میں میانہ روی، گفتگو میں میانہ روی، تربیت میں میانہ روی، الغرض ہر گوشۂ زندگی میں اعتدال قائم رکھنے والا انسان ہی قدرت کے خزانوں کا اعتدال پر مبنی استعمال کرنے کا اہل ہو سکتا ہے اور یہ اعتدال اور میانہ روی ہی ہے جو انسان کو افراط و تفریط سے بچانے کا واحد راستہ ہے۔

چونکہ افراط و تفریط سے موجودہ انسانی زندگی جن تکالیف و مشکلات سے دوچار ہے وہ کافی زیادہ سنگین ہیں۔ انسان کی ضروریات اس کی کمائی سے کئی گنا زیادہ بڑھتی جا رہی ہے، انسان کے اوقاتِ کار مسلسل بڑھ رہے ہیں، انسان علمی مشاغل سے وابستگی سے محرومی کا شکار ہے ، انسان سماجی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری میں پستی کا شکار ہے اور تو اور دنیا داری کا بوجھ ڈھونے میں انسان کے لیے واحد سامانِ تسکین دین و مذہب بھی انسان نظر انداز کرنے کی جسارت کر چُکا ہے ۔ ایسے حالات میں انسان کے لیے انفرادی یا اجتماعی امن و سکون حاصل کرنے کی کوئی گنجائش باقی بچی نظر نہیں آتی اِلا یہ کہ وہ فطری اصولوں کی پاسداری کا اسلوب سمجھ کر اپنے آپ کو فطری اصول و ضوابط سے ہم آہنگی پیدا کرنے پر آمادہ کرے اور میانہ روی اختیار کرنے کے فطری تقاضائے طرزِ زندگی کو اختیار کرے۔ اُسے سمجھنا ہوگا کہ میانہ روی کوئی ذہنی پسماندگی نہیں بلکہ قوتِ ارادی کی عکاس ہے ، کوئی محرومی نہیں بلکہ بالغ نظری اور دُور اندیشی کی عکاس ہے، کوئی پستی نہیں بلکہ ترقی اور بلندی کی عکاس ہے، کوئی کم ظرفی نہیں بلکہ بُردباری کی عکاس ہے۔میانہ روی اختیار کرنے سے انسان اپنے جوہرِ انسانیت سے کبھی دُور نہیں ہو سکتا بلکہ میانہ روی اختیار کرنے سے اس جوہر کو چمکنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ میانہ روی سے انسان میں پیدا ہونے والا جذبہ خیر اس کے قلب و ذہن کو اطمینان و سکون پہنچاتا ہے اور سکونِ قلب رکھنے والا انسان کبھی بھی دوسروں کے لیے شَر کاء باعث نہیں بن سکتا۔ میانہ روی سے انسان کا ہر گوشۂ زندگی عزت و وقار سے پُر رہتا ہے۔ آمدنی کے ساتھ ضروریات کی مساوی ہم آہنگی سے انسان دوسروں کے آگے دامن پھیلانے سے بچ کر اپنے عزتِ نفس کا پاسبان بن جاتا ہے ، گفتگو میں میانہ روی اختیار کرنے والا اپنے آپ کو مقابلہ آرائی اور اختلاف سے بچاتا ہے، لوگوں سے امیدیں رکھنے میں میانہ روی اختیار کرنے والا اپنے آپ کو مایوس ہونے سے بچاتا ہے۔ رسم و رواج کی ادائیگی میں میانہ روی اختیار کرنے والا اپنے آپ کو غیر ضروری ذہنی و جسمانی تناؤ سے بچاتا ہے۔ کاروبار میں میانہ روی اختیار کرنے والا اپنے آپ کو حرص و لالچ میں مبتلا ہونے سے بچاتا ہے۔ الغرض انسان میانہ روی اپنا کر اپنا امتیازی مقام ومرتبہ کھو دینے کے ڈر سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔

چونکہ انسان کی ان گِنت صفات میں جو صِفت بروئے کار لا کر اسے کامیابی کو اپنا مقدر بنانے میں کوئی دشواری یا مشکل حائل نہیں آ سکتی ،وہ ہے انسان کا اپنا محتسب ہونا ۔ آج کے دور کا افراط و تفریط کا شکار ہر انسان اگر اس عطا کردہ صفتِ حمیدہ سے کام لے کر اپنا احتساب کرنے پر آمادہ ہوتا ہے تو انفرادی و اجتماعی سطح پر میانہ روی کی مطلوبہ روِش پر چلنا کارِ دشوار سے کارِ آسان بن سکتا ہے۔ دین اسلام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے اعتدال ، توسط اور میانہ روی کی تلقین کی ہے اور ہمیں اُمتِ وسط اور میانہ روی اختیار کرنے والی اُمت بنایا ہے۔ اسلام کی رُو سے جو شخص میانہ روی کی صفت کو اپناتا ہے، اُسے ذہنی سکون میسر آتا ہے، اطمینان قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے، شکر کا عادی بنتا ہے، خوشحال زندگی گزارتا ہے اور معاشرے میں بھی سمجھدار انسان شمار ہوتا ہے اور اس کے برعکس جو شخص میانہ روی کا راستہ چھوڑ دیتا ہے، وہ گناہ کا اِرتکاب کرتا ہے، ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے، ناشکرا بنتا ہے اور معاشرے میں بے وقوف انسان شمار ہوتا ہے۔
(رابطہ۔7006174615)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
کولگام میں امرناتھ یاترا قافلے کی تین گاڑیاں متصادم: 10 سے زائد یاتری زخمی
تازہ ترین
امرناتھ یاترا:بھگوتی نگر بیس کیمپ سے 7 ہزار 49 یاتریوں کا بارہواں قافلہ روانہ
تازہ ترین
13 جولائی: پائین شہر کے نوہٹہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں پابندیاں عائد، لیڈران گھروں میں نظر بند
عمر عبداللہ کا الزام: شہداء کی قبروں پر جانے سے روک کر حکومت نے جمہوریت کا گلا گھونٹا
تازہ ترین

Related

کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025
کالممضامین

! ’’ناول۔1984‘‘ ایک خوفناک مستقبل کی تصویر اجمالی جائزہ

July 11, 2025
کالممضامین

نوبل انعام۔ ٹرمپ کی خواہش پوری ہوگی؟ دنیائے عالم

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?