سبدر شبیر
تاریخِ انسانی میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو وقت کی سطح پر ایک لمحہ ہوتے ہیں، مگر اپنے اثر میں صدیوں کو روشن کرتے ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا واقعہ بھی ایسا ہی ایک لمحہ ہے۔ ایک نوجوان بیٹے کا اپنے والد کی زبانی یہ سن کر کہ اسے اللہ کے حکم کے تحت ذبح کیا جانا ہے، نہ صرف صبر و رضا کا مظاہرہ کرنا، بلکہ اطاعت کی وہ اعلیٰ ترین مثال قائم کرنا کہ رہتی دنیا تک فرزندی کا مفہوم ہی بدل جائے ۔ یہ واقعہ نہ صرف ایمان کا مظہر ہے بلکہ انسان کی بلند ترین روحانی بلندی کا آئینہ بھی ہے۔
علامہ اقبال نے اس واقعہ کی تہہ میں جھانکتے ہوئے ایک نہایت عمیق سوال اُٹھایا۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آخر یہ کیسا بیٹا تھا جس نے ایک لمحے کے لیے بھی تذبذب کا مظاہرہ نہ کیا؟ کس تربیت نے اس کے دل میں اتنا یقین، اتنی تسلیم و رضا اور ایسی روحانی بلوغت پیدا کی کہ اس نے قربانی کو امرِ الٰہی کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا؟ اقبال کا سوال بظاہر سادہ ہے، لیکن اس کے پیچھے ایک پوری تہذیبی، تربیتی اور روحانی دنیا آباد ہے۔حضرت اسماعیلؑ کی یہ اطاعت محض ایک جذباتی عمل نہ تھا، بلکہ ایک ایسی تربیت کا نتیجہ تھی جو نہایت خاموشی اور محبت سے ان کے شعور میں اتری۔ یہ تربیت نہ تو محض کسی مدرسے کی تعلیم کا نتیجہ تھی اور نہ ہی صرف رسمی عبادات کی پیداوار، بلکہ یہ اُن والدین کی تربیت تھی جن کے کردار میں خلوص، صداقت اور عشقِ خداوندی رچ بس گیا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ جیسے باپ کی نگاہِ محبت، تربیتِ عملی اور خالص بندگی نے اسماعیلؑ کے وجود میں ایک خاص روشنی پیدا کی اور حضرت ہاجرہؑ جیسی ماں، جو پیاسے بیٹے کو لے کر لق و دق صحرا میں خدا پر توکل کے ساتھ کھڑی ہو گئی، وہ ماں اسماعیلؑ کو اگر قربانی کے لیے تیار کرے، تو یہ قربانی صرف جسم کی نہیں، روح کی تربیت کی علامت بن جاتی ہے۔اقبال اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ وہ فرزندی کے آداب کو ایک ایسے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں جو صرف حکم مان لینے تک محدود نہیں، بلکہ والدین کے مقام، ان کی روحانیت اور ان کے کردار کی گہرائی کو سمجھنے کا نام ہے۔
آج کے دور میں، جب دنیا مادیت کی طرف تیزی سے لپک رہی ہے، علامہ اقبال کا یہ سوال اور حضرت اسماعیلؑ کی شخصیت ہمارے لیے ایک آئینہ بن کر سامنے آتی ہے۔ جدید نوجوان اکثر اطاعت اور فرمانبرداری کو بوجھ سمجھتے ہیں، والدین کی نصیحت کو زحمت جانتے ہیں، اور روحانی اقدار کو فرسودہ سمجھ کر ٹھکرا دیتے ہیں۔ ایسے میں اسماعیلؑ کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اطاعت اگر خدا کے لیے ہو، تو وہ بندگی نہیں بلکہ آزادی ہوتی ہے۔ فرمانبرداری اگر والدین کی تربیت اور روحانی بصیرت سے جڑی ہو، تو وہ غلامی نہیں بلکہ عزت و افتخار کا ذریعہ بن جاتی ہے۔آج جب ہم نئی نسل کی تربیت کے حوالے سے فکرمند ہیں، جب ہمیں شکایت ہے کہ بچے والدین کی عزت نہیں کرتے، کہ فرزندی کا مفہوم کھو چکا ہے، تو ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بحران کسی ایک سطح پر نہیں بلکہ کئی پہلوؤں سے جڑا ہوا ہے۔ ہمیں صرف بچوں کو نصیحت کرنے کی نہیں، خود کو بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی نگاہوں کو فیضان بخشنا ہوگا، اپنے گھروں کو روحانیت کا گہوارہ بنانا ہوگا، اور تربیت کے ہر لمحے کو مقدس سمجھنا ہوگا۔
حضرت اسماعیلؑ کی اطاعت ایک پیغام ہے کہ فرزندی، اگر آداب کے دائرے میں ہو، تو اس کا انجام نبوت بن سکتا ہے۔ اسماعیلؑ کی نسل سے اللہ نے آخری نبی ؐ کو چنا، جس نے انسانیت کو کامل ہدایت بخشی۔ گویا ایک بیٹے کی فرمانبرداری، ایک والد کی تربیت، اور ایک ماں کی استقامت نے پوری دنیا کو ایک ایسا رسول عطا کیا جو رحمۃٌ للعالمین ہے۔ یہی وہ فکری بلندی ہے جو اقبال کی شاعری کا خاصہ ہے ۔ہمیں اقبال کے اس سوال کا جواب اپنی زندگی سے دینا ہے۔ کیا آج بھی کوئی اسماعیل پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا آج کی تربیت، آج کے مکتب، اور آج کے گھروں میں وہ روشنی باقی ہے؟ کیا ہمارے بچوں کو بھی آدابِ فرزندی سکھائے جا رہے ہیں، یا ہم صرف مادی ترقی کے پیچھے دوڑتے ہوئے روحانی دیوالیہ پن کی طرف جا رہے ہیں؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں پھر سے اطاعت، خلوص، ایثار اور قربانی کے چراغ روشن ہوں، تو ہمیں اسماعیلؑ اور ابراہیمؑ کی داستان کو صرف تاریخ نہیں، بلکہ ہدایت کا آئینہ سمجھ کر اپنانا ہوگا۔
[email protected]