ہر ایک ملک اور ہر ایک خطے میں دریا ہوتے ہیں ۔دنیا بھر میں کئی دریا ہیں ،دریائوں کی بہتات ہے ۔ان لاتعداد دریائوںمیں سے کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بہت بڑے ہیں ۔دریائے مِس سِس سِپی چوڑائی کے اعتبار سے بھی اتنا بڑا ہے کہ اس کے ایک کنارے سے دوسری طرف کا پتن نظر نہیں آتا ۔یہ دریا اگر اپنی جولانی ، خون خواری اور ہیبت ناکی کے لئے جانا جاتا ہے تو دوسری جانب دریائے نیل مصریوں کے لئے اناج اورثمرات کے حوالے سے بے حد نفع بخش ثابت ہوتا ہے ۔ دریائے ڈینوب اور دریائے ٹیمز بھی اپنی جگہ پر کافی شہرت کے حامل ہیں ۔ ہندوستان میں ہگلی،نربدا ،برہم پتُر اور تاپتی بھی اپنی تباہ کاریوں اور سہولیات کے لئے مشہور ہیں ۔دریائے گنگا اور جمنا کی مذہبی سطح پر اپنی ایک خاص اہمیت ہے ۔ گنگا کے ہی کنارے لوگ اپنی عمر کے آخری پلوں میں مرنے یا پران تیاگ دینے آتے ہیں اور اس دریا کا صاف و شفاف پانی یعنی گنگا جل شردھا لوؤں کے لئے امرت کا درجہ رکھتا ہے اور اہل ِہنود اِسے مرتے ہوئے شخص کو بھی آخری گھڑیوں میں پلا دیتے ہیں ۔جمنا کے تٹ تو کرشن جی اور رادھا کی گوپیوں کے ہمراہ کھیل کود،شرارتیں اور سندر جھولوں میں مدھر بھری پینگوں کے لئے تو ہمیشہ سے ہی مشہور رہے ہیں ۔اسی جمنا کے کنارے گوکُل کے چھورے کی مستی بھری مرلی کی تانوں اور رادھا کی آنکھیوں کے لاج بھرے ڈوروں کی داستانوں کی آج بھی بہ زبان حال گواہی دے رہے ہیں۔
پنجاب کا نام پانچ دریائوں (جہلم ،چناب ،راوی ،ستلج ،بیاس)کے توسط سے ہی پنج آب پڑا ہے ۔پنجاب کے دریائوں خاص طور پر چناب اور راوی کے کناروں پر جنم لے کر ،جوان ہونے اور انجام تک پہنچنے والی کئی رومانی کہانیاں بھی بڑی مشہور ہیں ۔ ان داستانوں کو نہ صرف بزم و محفل میں گایا اور بجایا جاتا ہے بلکہ ان داستانوں پر مبنی ہزاروںڈرامے سٹیج ہوچکے ہیں اور بیسیوں فلمیں بھی بنی ہیں۔دراصل پنجاب کی مٹی ہی اتنی سوندھی میٹھی اور عشق انگیز ہے جس سے اپنے آپ ہی امنگیں اُٹھتی ہیں ۔پیار و محبت کی کلیاں پھوٹتی ہیں،دلوں کے پھول کھلتے ہیں جس وجہ سے کئی مشہور عالم رومانی داستانیں اُس سوہنی دھرتی سے جنم لے چکی ہیں۔سسی پنوں ،مرزا صاحبان،بالو ماہیا ،ہیر رانجھا ،سونی مہیوال وغیرہ پیار و محبت کے ایسے قصے ہیں، جنہوں نے عالمی بلکہ دوامی شہرت حاصل تو کرلی ہے مگر آجب بھی جب وہ قصے دہرائے جاتے ہیں یا اُن پر مبنی ڈرامے اور فلمیں مشاہدے میں آتی ہیں تو ہر دل میں پیار کی کلیاں چٹک کر انجام کار رنجیدہ خاطر کرکے آنکھوں کو بھیگنے کے لئے اُکساتی ہیں۔یہ پیار بھی کتنی ظالم شیٔ ہے ۔کاش کہ اَزل میں بابا آدم پر چالیس روز تک دیگر عطیات کی بارش کے ساتھ وہ چند لمحوں والی محبت کی بوچھاڑ نہ کی گئی ہوتی تو شیرین یہ دہائی دینے کے لئے مجبور نہیں ہوجاتی ؎
میرے لئے سحر بھی آئی ہے رات بن کر
نکلا میرا جنازہ میری برات بن کر
بہر حال اب ذرا اپنے یہاں بھی ایک نظر دیکھتے ہیں ۔ہمارے یہاں کا جہلم اور جموں میں دریا ئے توی اور چناب بھی اپنی اہمیت اور افادیت رکھتے ہیں۔چناب کشتواڑکے دور دراز پہاڑوں سے آکر راستے میں اپنے ساتھ کیلاش پربت سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے ندی نالے ،آبشار اور آبجور (Brooks)اپنے میں مدغم کرکے رام بن تک آتے آتے ایک اور ہی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اسی دریا کے پانی سے کچھ اور آگے جاکر اتنی بجلی پیدا کرلی جاتی ہے جو ہندوستان کی کئی ریاستوں کو اُجول یعنی روشن تو کرتی ہے مگر اپنے وطن خاص کر وادی کو اندھیروں میں ڈبو کر رکھتی ہے ۔اب اس ستم ظریفی کا کیا علاج ؎
میں نے تاریکیوں کو بخشی ہے ضیا
اور خود ایک تجلی کا محتاج ہوں
روشنی دینے والے کو کم سے کم
اِک دیا چاہئے اپنے گھر کے لئے
اپنی ررومانی داستانوں ،شعرونغموں اور رمتی سنہری یادوں کے مقابلے میں ہمارے دریائے چناب نے ہمیشہ خون خرابہ ہی رقم کیا ہے ۔اُس نے ماضی میں بھی مسلمانوں کے لٹتے پٹتے تباہ حال قافلے اپنی زندگی بچانے کی خاطر دریا کے اس طرف جاتے دیکھے۔اُس نے اپنے کناروں پر لاکھوں بے بس و بے کس مسلمان مرد وزن اور بچوں کو لٹتے پٹتے کٹتے دیکھا ۔اُس نے ہزاروں بے یار و مدد گار نوجوان لڑکیوں کی حرمتیں لٹتی دیکھیں۔اُس نے بار بار انسان کا وہ رویہ اور وہ روپ دیکھا جو خاص طور پر مسلمانوں کی تباہی و بربادی کے موقعہ پر ہی انسانی چہرے پر چھا جاتا ہے اور وہ سلسلہ آج بھی رُکا نہیں ہے۔آج بھی گوجروں اور بکر والوں کے قافلوں پر حملے ہوتے ہیں،ٹھکانوں پر حملے ہوتے ہیں ۔قافلے لٹتے ہیں ، ٹھکانے تباہ ہوجاتے ہیں اور جان کے ساتھ مال و متاع کا بھی زیاں ہوجاتا ہے۔چناب کے کنارے یہ درد بھرے اور ظلم و بربریت کے نظارے کب تک دیکھتے رہیں گے ۔اُن کا کبھی اختتام بھی ہوگا کہ نہیں ۔یہ مسلمان اس ملک میں کب تک اسی خوف و ہراس میں اپنی بے سروپا اور تار تار زندگی گزارتا رہے گا ۔کب تک اپنی حیاتِ مستعار کو بچانے کے لئے راتیں جاگ جاگ کر گزارتا رہے گا ۔کب تک منتیں کرکے اور ہاتھ جوڑ کر چند سانسوں کی بھیک مانگتا رہے گا ۔کب تک روز کنواں کھود کر پانی پیتا رہے گا ۔کب تک اپنی صدیوں پرانی پرکھوں کی جائیداد والے گھر میں گھر واپسی کی کہار سنتا رہے گا ؟کب تک اپنے مذہبی قانون میں مداخلت برداشت کرتا رہے گا ؟کب تک اپنے معبدوں اور مسجدوں کی حفاظت کی خاطر بے کل و بے چین پھرتا رہے گا ؟کب تک جھوٹے الزامات اور جعلی مقدمات کے ساتھ نبرو آزما ہوتا رہے گا ؟کب تک تعذیب خانوں اور جیل خانوں سے جھوجتا رہے گا ؟کب تک اپنی آخری آرام گاہوں کے بچائو کے لئے دہائیاں دیتا رہے ؟آخر———-آخر کب تک؟
میں آج زد پر اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بُجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
احمد فراز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995