تین دن ہوئے بارشیں رک گئی تھیں۔ اب اور ہلکی سی دھوپ کھلنے لگی تھی میں خوشی سے اسکول جارہا تھا۔ راستے میں کافی لوگوں کا سامنا ہوا، مگر اچانک میری نظریں ایک عورت پہ پڑیں، جسکی نظریں مجھ پہ جمی ہوئی تھی۔وہ کافی بے بس لگ رہی تھی۔ اسکی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے اور تھرتھرا تے ہاتھوں میں خون سے لت پت ایک پھٹا ہوا کپڑا اور ایک روٹی تھی۔ میں ضرور اُس کا حال پوچھتا لیکن سکول بھی وقت پہ پہنچنا لازم تھا۔ وہ آنسوں کا جھرنا، وہ چہرے کی بے بسی ، وہ تھرتھراتے ہاتھ۔
اُس بے بس عورت کی بے بسی لگاتار چھ دنوں تک میری آنکھوں میں سمائی۔ آج وہ پھر سے میرے سامنے سے گزری۔ وہی حال پھر دیکھنے کو ملا۔ مجھ سے اور سہا نہیں گیا۔ میں اُس کی اور بڑھنے لگا۔ لیکن مجھے دیکھتے ہی وہ تیزی سے چلنے لگی۔ میں نے اُس کو پکارا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ اسکول پہنچتے ہی میں نے اپنے دوست سلمان سے یہ ساری کہانی سنائی او راُ س نے کہا کہ سکول سے نکلتے ہی ہم اُس عورت کے گھر جاکے اُس کا حال پوچھیں گے۔ اب میرا سارا دھیان اُس بے بس عورت کی بے بسی پہ تھا ۔ اسی بیچ سلمان نے مجھ سے کہا، اس وقت تمہارا دھیان سبق پہ ہونا لازم ہے۔ میں نے اپنے بستے سے کتاب نکالی۔جوں ہی میں نے کتاب میز پہ رکھی، باہر سے گولیاں چلنے کی آواز اور لوگوں کی چیخیں سنائی دیں۔ اسکول کا سارا ماحول درہم برہم ہو گیا ۔ سارے طلبا اور اساتذہ ڈر کے مارے اسکول سے چلے گئے۔ کسی کا کچھ پتہ نہیں تھا ۔ اپنی جان بچانے کی فکر میں کے لئے حالات ٹھیک ہونے تک میں اسلم چاچا کی دکان میں رُکا۔ تقریباََ ایک گھنٹے کے بعد میں دکان سے نکلا۔ میری نظریں جم کر رہ گئیں۔ وہ سڑکیں، جن پہ کل پارش کا پانی بہہ رہا تھا، اب خون سے لت پت تھیں۔
سلمان کا کچھ پتاہ نہیں چلا۔ میں فوراََ سلمان کو ڈھونڈنے چلا۔ اسی بیچ راستے میں وہی عورت پھر ملی ۔ مگر میں اس بات پہ حیران رہ گیا کہ وہی آنکھیں جن سے آنسوں بہہ رہے تھے ، اب غصے سے بھر گئی تھیں۔ میں نے اسکو پانی پلا کر سڑک کے کنارے بٹھادیا۔ جوں ہی میں کچھ کہنے لگا، اُس نے میری بات روک کے کہا ، میرا بیٹا بھی تمہاری عمر کا تھا ، جو علم کے سمندر پر تیرنا چاہتا تھا مگرنجانے کیوں خون کے ساگر میں ڈوب گیا ۔اُس کے دل میں سب کے لئے شفقت تھی مگر اس ظالم نے اسکے سینے پہ گولی ماری ۔ وہ بے گناہ تھا، وہ معصوم تھا۔ یہ جو خون سے لت پت پھٹا ہوا کپڑا تم دیکھ رہے ہو، یہ میرے بیٹے کی وردی کا ایک حصہ ہے۔وہ بھی اُس دن سکول سے گھر لوٹ رہا تھا اور میں دروازے پر اسکے انتظار میں تھی، کیونکہ صبح سکول جانے کی جلدی میں کچھ کھائے بغیر ہی گھر سے نکلا تھا۔ یہ کشمیر ہے یہاں کس کا کیا ہو کسی کو نہیں پتہ۔ آخر یہ سب کس لئے اور کب تک چلتا رہے گا۔ ہر گھر اور ہر ماں کی یہی کہانی ہے ۔
���
طالب علم، کنیل قاضی آباد کپوارہ
موبائل نمبر؛7889804801