نوید کے کمرے کی لائٹ پچھلے کئی دنوں سے خراب تھی۔ٹھیک کرنے کو کے لئے وقت ہی نہیں ملتا تھا ۔آج نوید ڈیوٹی سے واپس آتے ہوئے نیا بلب، نیا ہولڈر اور نئی تار ساتھ لایا تھا۔چائے پینے کے بعد نوید نے بلب جیب میں رکھا اور تار ہولڈر ہاتھ میں اٹھائے اور اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔پرانی تار کھڑکی سے پھینک دی کہ نئ تار جوڑنے لگا اور اپنی چھوٹی بہن صفورہ کو آواز دی ۔صفورہ ذرا دیکھو میرے کمرے میں لائٹ آئی۔نہیں بھیا یہاں گھپ اندھیرا ہے۔کافی جتن کرنے کے باوجود بھی نوید کے کمرے کی لائٹ بحال نہیں ہوئی۔اتنے میں پاپا آگئے اور نوید کے ہاتھوں سے تار چھینی اور خود کام پر لگ گئے۔
عزرہ جاؤ دیکھو بجلی بحال ہوئی کہ نہیں۔بڑے آئے یہ بجلی ٹھیک کرنے والے۔پاپا نے فخریہ لہجے میں کہا۔عزرہ نوید کے کمرے کی طرف گئی اور دروازہ کھول کر جواب دیا۔نہیں پاپا لائٹ نہیں آئی بھیا کے کمرے میں ۔
پاپا نے جیب سے موبائل فون نکال کر میکنیک کو فون کیا ۔میکنیک آیا اور آتے ہی نیا سوئچ لانے کے لیے کہا۔نیا سوئچ لایا گیا ۔ایک ایک کر کے سبھی کو نوید کے کمرے کی لائٹ دیکھنے کے لیے کہا گیا ۔لیکن سب کا جواب نفی میں آیا۔آخر نوید خود اپنے کمرے کی لائٹ دیکھنے کے لیے گیا ۔دروازے پر پہنچ کر اسے فون آیا ۔فون نکالنے کے لیے اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ جو بلب اس نے دکان سے لایا تھا وہ ابھی اس کی جیب میں ہی پڑا تھا۔ اس نے دراصل بلب لگایا ہی نہیں تھا۔ اس نے فوراً جیب سے بلب نکالا اور اپنے کمرے میں لگاتے ہی آواز لگائی ۔جی جی بجلی بحال ہو گئی۔شرمندہ ہوتے ہوئے نیچے آیا۔سوچتا تھا کہ یہ کیسی بھول ہوئی مجھ سے۔
نیچے آیا تو میکنیک سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا رہا تھا اور گہری سوچوں میں گُم تھا۔نوید نے میکینک سے پوچھا۔انکل کیا سوچ رہے ہیں آپ۔
میکینک کچھ نہیں بیٹا ۔۔ابھی تک۔۔۔
سوچ رہا ہوں کہ آخر وجہ کیا تھی
���