سلمانؔ تھک ہار کر جب گھر واپس لوٹتاتو اکثر اوقات پارک میںبیٹھ کر کچھ دیر کے لئے سستا لیتا۔ اُس وقت بھی وہ معمول کی طرح ایک نئی لڑکی دیکھ کر آیا تھا اور من ہی من میں سوچ رہا تھا ۔
’’ گردش ایام کے ساتھ ساتھ رسم ورواج بدلتے رہتے ہیں۔رہن سہن کے طور طریقے بدلتے رہتے ہیں انسان بدلتے ہیںپہلے بڑے بزرگ اپنی بساط دیکھ کر رشتے طے کرتے تھے اور اولاد بھی چپ چاپ فیصلہ تسلیم کر لیتی۔‘‘
اتنے میں ماں نے چائے کی پیالی لا کر ٹیبل پر رکھ کر کہا ۔
’’چائے پی لو بیٹے ۔ تم تھک گئے ہو نگے۔‘‘
سلمانؔ چائے کی لمبی لمبی چسکیاں لے کر گہرائی سے سوچتا رہا۔’’وقت بدلتے بدلتے بہت بدل گیا ہے بڑے بزرگوں کو اب سائیڈ میں کر دیا گیا ہے اب اولاد اپنی مرضی کی مالک ہے ۔‘‘
سلمانؔ کئی برسوں سے اپنی پسند کی لڑکی کی تلاش میں تھا اُس نے بے شمار لڑکیاں دیکھیںمگر ہر لڑکی میں وہ کوئی نہ کوئی نقص نکالتا تھا ۔
’’چھوٹی ناک‘ لمبا چہرہ‘ بڑے کان ‘پتھرائی آنکھیں‘ کھردرے بال وغیرہ وغیرہ۔‘‘
ایک مرتبہ سلمہ ؔ نام کی ایک لڑکی کو دیکھا۔خوبصورتی کا مجسمہ‘ستواں ناک‘گلابی ہونٹ‘گول گول چہرہ‘نیلی نیلی آنکھیں۔وہ سلمانؔ کو بہت بھا گئی۔ دونوں روبروبیٹھے تھے کہ سلمان بول اُٹھا۔
’’محترمہ ۔۔۔۔سلمہ سلمانؔ کی جوڑی کیسی رہے گی۔‘‘
دونوں کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے۔پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کئی مہینوں تک دونوں ملتے رہے گھر والے بھی سلمانؔ کے اس فیصلے کو تقریبا حتمی سمجھ بیٹھے تھے۔مگر ۔۔۔۔۔۔ماڈرن اولاد۔ان کے فیصلے جیسے برسات کی چاندنی۔سلمانؔ اپنے عہدوپیمان سے مکر گیا اور سلمہ سلمانؔ کی جوڑی بننے سے پہلے ہی ٹوٹ گئی۔گھر میں کسی نے بھی وجہ پوچھنے کی جرات نہیں کی کیونکہ یہ ماڈرن اولاد ہے اپنی مرضی کی مالک۔وقت گزرتا گیا سلمانؔ حتمی فیصلہ نہیں لے پا رہا تھا۔ لڑکیاں دیکھتے دیکھتے وہ بھی تھک چکا تھا اور درمیانہ دار بھی۔پھر ایک بار درمیانہ دار اس سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔
’’ آج آخری بار میں تجھے لڑکی دکھانے لے جارہا ہوں۔‘‘
سلمان ؔنے لڑکی دیکھی تو اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ لڑکی کا انگ انگ چمک رہا تھا۔ خوبصورتی نیچرل لگ رہی تھی۔ اُس نے موقعہ پر ہی اعلان کر دیا ۔
’’میںشادی اسی لڑکی کے ساتھ کروں گا۔یہی میری آخری پسند ہے۔‘‘اور اس نے گھر پہنچتے ہی سب کو آگاہ کردیا۔گھر میں رونق سی آگئی۔ والد صاحب سب سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے
’’اب سب شادی کی تیاریوں میں جٹ جائو،ہم بڑی دھوم دھام سے سلمانؔ کی شادی کریں گے۔‘‘
بالآخر دونوں کی منگنی ہوگئی۔لاکھوں روپے خرچ کئے گئے ادھر سلمان ؔکی بے تابی بڑھ رہی تھی اس نے اگلے ہی دن انجمؔ سے فون پر رابطہ کیا۔
’’ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔جان میں سلمانؔ ہوں۔میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’جناب تھوڑا صبر رکھئے وقت وقت پرہی گل کھلتے ہیں۔ شادی کی تاریخ طے تو ہونے دیجئے پھر تو ملنا ہی ہے۔‘‘اور اس نے فون کاٹ دیا۔
کئی مہینے گزر گئے شادی کی تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔دولھا دلہن کے لئے تحفے تحائف خریدے جا چکے تھے۔ دوست احباب سب بے تابی سے اس مبارک گھڑی کا انتظار کر رہے تھے ۔
اب شادی کی تاریخ قریب پہنچ چکی تھی کہ سلمانؔ نے پھر فون گھومایا۔
’’ہیلو ۔۔۔جان۔اب توملنے میںکوئی اعتراض نہیںہونا چاہئے۔اب کچھ ہی دنوں میں ہماری شادی ہورہی ہے۔‘‘
’’سلمان ؔصاحب میں فون کرنے ہی والی تھی میں بھی تم سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’او۔۔۔۔۔۔۔!!! جان یہ میں کیا سن رہا ہوں۔کیا تم انجم ہی ہو۔ آج مجھے لگ رہا ہے کہ تم بھی ماڈرن ہو۔‘‘
’’ہاں ۔۔ہاں سلمانؔ صاحب میں بھی۔۔۔۔کل ملتے ہیں ۔‘‘
وہ بہت زیادہ اُتاولا ہورہا تھارات دیر تک پارک میں بیٹھے بیٹھے خود سے ہی باتیں کرتا رہا۔
’’آخر میں نے انجمؔ کو ملنے کے لئے آمادہ کر دیااس میںبھی نیا پن آہی گیا۔‘‘رات آنکھوں میں ہی کٹ گئی۔
اگلے دن وہ اقبال پارک میںبڑی بے صبری سے انتظار کر رہا تھا۔انجمؔ بھی کچھ ہی دیر میں آگئی تھی۔
’’ہیلو۔۔۔سلمانؔ کیسے ہوتم‘‘
انجم ؔالٹرا ماڈرن لگ رہی تھی اُس نے خوب بیوٹی کمیکلز کا استعمال کر کے خود کو دلہن کی طرح سجا لیا تھا۔
’’تم انجمؔ ہی ہو ۔۔۔۔نا‘‘
’’ہاں ۔۔۔ہاں میں انجم ہی ہوں‘‘
’’تم بہت ماڈرن لگ رہی ہو۔‘‘
’’ماڈرن نہیں ۔میں الٹرا ماڈرن ہوں‘‘
اتنے میں سلمانؔ نے ایک خوب صورت انگریز نوجوان کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔
’’انجمؔ ۔۔۔وہ دیکھ۔۔۔۔ ایک انگریز نوجوان ہماری طرف آرہا ہے ‘‘
’’سلمانؔ یہ۔۔۔۔ جان ابراہم ہے ۔‘‘
اتنے میں وہ قریب پہنچ کر بولا۔
’’انجمؔ یہ بہت خوبصورت پارک ہے ۔چلو۔۔اب چلتے ہیں۔؟who is that man‘‘اُس نے سلمانؔ کی طرف اشارہ کیا۔
’’مین‘‘سلمان چونک سا گیا۔
’’ اُس کے کچھ کچھ بال سفید ہوگئے ہیں ‘‘
o John……you are so sweet.He is my ….previous boy friend
O…Naughty.
انجم جان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرجاتے ہوئے بولی۔
’’جانؔ ۔۔۔میری آخری پسند ہے ‘‘
سلمان ؔہکا بکا ہوکر اپنے بال دیکھنے لگا۔۔۔!!!
���
دلنہ بارہمولہ کشمیر ،موبائل نمبر:-9906484847