میں نے زندگی کو کئی پہلوؤں سے دیکھاہے مگر آج زندگی مجھے جس پہلو کی اور لے آئی وہ واقع میرے لیے نیا تھا ۔میں اکثر آج بھی اُس واقعہ کو سوچ کر حواس باختہ ہو جاتا کہ لوگ کیسے بدل جاتے ہیں ‘ زندگیاں کیسے بدل جاتی ہیں، وقت بدل جاتا ہے اور کبھی کبھی یہ وقت ہمیں اس موڑ پر لے آتا ہے کہ ہم بے بس ہوجاتے ہیں اور پھر خود بہ خود سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے ۔
ہر روز کی طرح آج بھی میں آفس جانے کی تیاری میں تھا کہ اچانک میری گلی میں ایک فقیر نے صدا دی کہ اللہ کے نام پر کچھ دے دیجیے مگر کوئی اُسے کچھ نہیں دے رہا تھا ۔اُس نے بہت دیر انتظار کیا مگر اُس کی آہ وزاری ناکام ہی رہی۔۔۔۔۔۔میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا مگر میری زبان سے کچھ نہ نکلا ۔اتنی ساری بھیڑ میں بھی اُ سکا دامن خالی ہی تھا ۔وہ حسرت بھری نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھامگر اُس کا دامن پھر بھی خالی کا خالی ہی رہا۔نہ جانے کیا بات تھی کہ اتنے سارے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی اُسے کوئی بھیک دنیا تو دور کی بات ،اُس کی طرف کوئی دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔میں ذرا رُکا اور اُسے بڑے غورو فکر سے دیکھنے لگا۔واقعی یہ حیران کُن منظر میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔میں اُس فقیر کے پاس گیا اور اپنی جیب سے کچھ سکے نکال کراُس کی جھولی میں ڈال دیئے ۔اُس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے گویا کسی نے اُس پر بہت بڑا احسان کیا ہو۔اُس کے بعد اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر مجھے بہت ساری دعائیں دیں اور وہاں سے چلتا بنا۔کئی دن گزر گئے میں اُس فقیر کو بھول گیا یا اُس کا خیال میرے ذہن سے نکل سا گیا ۔کچھ دن گزرنے کے بعد میں کچھ خرید وفروخت کے لئے بازار کرنے جا رہا تھا کہ میں نے بازار کے ایک کونے میں اُسی فقیر کو پایا ۔وہ گم سم سا کھڑا ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہا تھا مگر اُس کی جھولی آج بھی خالی ہی تھی ۔اُس کے علاوہ وہاں اور بھی لوگ بھیک مانگ رہے تھے مگر اُن کی جھولیاں بھری ہوئی تھیں ۔اس منظر کو دیکھ کر میں اُسی طرح حیرا ن ہوا جس طرح پہلے ہوا تھا گویا میں یہ منظرپہلی بار دیکھ رہا تھا ۔میں پھر اُس کے پاس گیا اور اس سے پہلے کہ میں اُس سے کوئی سوال کرتا ‘اُس نے اشارے سے مجھے چُپ کروادیا اور پھر میری طرف دیکھ کر کے زور زور سے ہنسنے لگا ’’ان حیران کُن نگاہوں سے کیا دیکھتے ہو بیٹا ؟یہ سب میرے گناہوں کی سزا مجھے مل رہی ہے ۔ْ۔۔۔اس نے کہا !
’’کن گناہوں کی سزا بابا جی؟ میں نے فوراََ سوال کیا ‘‘اُس نے ایک لمبی آہ کھینچی اور پھر خود کی طرف اشارہ کر کے بولا یہ فقیر ۔۔۔۔۔جس کی جھولی میں اُمید کے علاوہ تم کچھ نہیں دیکھ رہے ہو کبھی لاکھوں ‘کروڑوں کا مالک ہواکرتا تھا۔۔۔۔۔۔کبھی میں اپنے جیسے فقیروں کو ہزاروں روپیے دئیے کرتا تھا لیکن وقت یکساں نہیں رہتا ۔ہائے افسوس یہ وقت بڑا ظالم ہے ۔یہ کہہ کر وہ اپنا ماتھا پیٹنے لگا ۔۔۔۔۔میں نے اُس سے پوچھا بابا آپ سے ایسے بھی کیا گناہ ہوئے ہیں جن کی سزا آپ کو اس طرح مل رہی ہے!وہ ہلکا سا مسکرایا اور پھر بولا میں کبھی وقت کا بادشاہ ہوا کرتا تھا اور دولت‘ عزت سب کچھ میرے پاس تھا ۔ایک عالی شان گھر بھی تھا جہاں میں، میری بیوی اور میرے بوڑھے ماں باپ رہا کرتے تھے لیکن دولت کے نشے سے چُور اور اپنی طاقت پر گھمنڈ کر کے میں اپنے والدین کی قدرو و قیمت جاننے سے بالکل قاصر رہا ۔ وہ جب بھی مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے میں کام کا بہانہ کر کے فرار کی راہ اختیار کرتا ۔میں انہیں ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتا تھا کہ یہ سب دولت میں نے خود جمع کی ہے اور میرے والدین کا کوئی بھی ہاتھ اس میں شامل نہیں ۔میں ان کے تمام احسانات، جو انہوں نے مجھ پہ زمانہ طفلی میں کئے تھے، کو بھول بیٹھا تھا ۔۔۔۔مگر ان کی میرے تئیں محبت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ترستے بھی رہے تو صرف میری آواز سننے کو لیکن میں دنیاوی زندگی میں اتنا مصروف رہا کہ مجھے اُن کی کمی کبھی بھی محسوس نہ ہوئی ۔یہ سلسلہ بہت سالوں تک چلتا رہا اور پھر ایک ایک کر کے میرے والدین اس دنیائے فانی سے چل بسے ۔ادھر اُن کا جانا تھا کہ اُدھر مجھ سے سب کچھ چھن گیا،میری بیوی بیمار رہنے لگی اس کے علاج پر اتنا روپیہ خرچ ہوا کہ میرا دیوالیہ نکل گیا ،لیکن افسوس صد افسوس اتنی دولت خرچ کرنے کے باوجود بھی میں اُسے نہ بچا سکااور میں اپنے گھر میں تنہا رہ گیا۔مگر قدرت کا انتقام ابھی پورا نہیں ہوا تھا شاید ابھی قدرت کو مجھے اور سزا دینا مطلوب تھا ۔میرے رشتہ داروں نے اکیلا دیکھ کر مجھ سے ہمدردی کرنے کے برعکس بچی ہوئی دولت اور گھر تک سے مجھے اس طرح نکالا گویا میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔نتیجہ یہ نکلا کہ میں بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا۔حالت یہ ہے کہ اب لوگ مجھے بھیک بھی نہیں دیتے ۔میں سب لوگوں کو کیسے یہ باور کراؤں کہ یہ میرے مکافاتِ عمل کا نتیجہ ہے ۔میرا غرور اور تکبر ہی میری اس حالت کا ذمہ دار ہے ۔والدین کو بھول کر دنیائے لہو لعب میں مشغول رہتے اور عیش و نشاط کی زندگی گزارنے میں محو رہ کر میں اپنے مالکِ حقیقی کو بھی بھول گیا تھا ،جس نے والدین کی بڑھاپے میں خدمت اور راحت رسانی کا حکم دیا ہے ۔اے کاش دوبارہ جوانی لوٹ آتی اور میرے والدین زندہ ہوتے میں تو اُن کی خدمت اور نگہداشت کرنے میں کوئی کثر باقی نہ چھوڑتا۔یہ سن کر میں فوراََ گھر کی اور چلا ‘والدہ کے پیر پکڑ لئے اور ہنستے مسکراتے اُس سے کچھ کھانے کا تقاضا کیا ۔
���
محلہ قاضی حمام بارہمولہ ،موبائل نمبر؛9469447331