وہ دبے پاوں اسکے قریب آکر گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گئی۔ ہلکے سے اُسکا کا بے جاں داہنا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا۔وہ چپ چاپ اسکے ہاتھ میں اس سبز انگوٹھی کو تکتی رہی جس پر لکھا اسکا نام صاف ظاہر تھا ' رابعہ'،،، ۔آنکھوں میں کھارا پانی ریت کی طرح بکھر کر اسکی آنکھیں نم کر گیا ۔ نگاہ ہٹا کر جونہی اس نے اپنے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کی طرف دیکھا تو اسے انگوٹھی پر لکھا زید کا نام دھندلا سا دکھائی دیا، اس نے اپنے ہاتھوں کے اوپری حصّے سے آنکھیں پونچھیں اور دونوں انگوٹھیوں کو ایک دوسرے کے بالکل قریب لیجاکر پھر سے ناموں کا مشاہدہ کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد آبدیدہ ہوکر زید کے زرد چہرے کی طرف دیکھتے ہی اُس نے دردبھرے لہجے میں کہا "میں خود غرض ہو کر دولت کو محبّت سمجھ بیٹھی تھی، مجھے معاف کردیں"
زید کسی لاش کی طرح پڑا بیجاں جسم لیکر موت سے لڑ رہا تھا، کھلی نگاہوں کے ساتھ وہ اس آخری سانس کے نکلنے کے انتظار میں تھا جو اسکے گلے میں اٹکی ہوئی کسی جستجو کو لیکر ابھی اسکے لہو کو گرمی بخش رہی تھی۔ 'مگر کس لئے' یہ سوال رابعہ کے ذہن میں بھی گردش کر رہا تھا۔ طرح طرح کے خیالات اسکے ذہن میں یوں اْبھر رہے تھے گویا اسکا ضمیر اسے دھتکار کے کہہ رہا ہو۔
"واہ!! جن ہاتھوں سے تم نے اسکی یہ حالت کی ہے، انہی ہاتھوں سے محبّت جتا رہی ہو"
رابعہ اپنے اندر سے آتی اس صدا سے اس قدر خوف زدہ ہوگئی کہ یکلخت زید کا ہاتھ چھوڑ کر اپنے ہاتھوں کو آنکھوں کے قریب لیجا کر خوف زدہ نگاہوں سے انھیں تکنے لگی۔ اسے اپنے ہاتھوں پر زید کے گرم گرم لہو کا احساس ہونے لگا۔ وہ دہشت سے چلّا اٹھی اور بھاگ کر جنگل کے وسط میں بہہ رہی اسی ندی کے پاس جاکر ٹھیک اسی جگہ اپنے ہاتھ دھونے لگی جہاں چند روز قبل اُس نے خالد کے ساتھ مل کے زید کی اُکھڑی سانسوں کو روکنے کی کوشش میں اسکا سر پتھر سے پھوڑا تھا۔ لا شعور میں رابعہ اپنے فعل کو اس طرح دوہرا رہی تھی کہ موقعہ واردات سے سراغ کی تلاش میں آے پولیس افسر کو خالد سمجھ کر پکارنے لگی۔
"خالد !!! بزدل آ !! لاش کو گہرائی میں پھینکنے میں میری مدد کر"
اِدھر رابعہ کے منہ سے یہ جملہ نکلا اْدھر زید کے گلے میں اٹکی آخری سانس نے اپنی جستجو پوری کرکے اسکے لہو کو ٹھنڈا کر دیا۔
شعبہ اْردو کشمیر یونیورسٹی،بٹہ پورہ ماگام، ہندواڈہ ،رابطہ؛ 9596712062