جموں// جموں وکشمیر کی سرمائی دارالحکومت جموں میں پیر کے روز چھ ماہ کے بعد کھلنے والے دربار مو دفاتر کے پہلا دن کا استقبال مختلف سیاسی جماعوں، تجارتی انجمنوں اور ٹرانسپورٹروں کی جانب سے احتجاجوں، گھیراؤ اور ہڑتال سے کیا جائے گا۔ پیر کی صبح پولیس کے دستے کی جانب سے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو روایتی گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا، جس کے بعد سکریٹریٹ میں سرکاری کام کاج شروع ہوگا۔ تاہم چیمبر آف ٹریڈرس فیڈریشن (جموں) نے ریاست میں گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے اطلاق کے باوجود دوسری ریاستوں سے درآمد ہونے والی اشیاء پر ٹول ٹیکس کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھنے کے خلاف 6 نومبر کو (دربار مو دفاتر کھلنے کے موقع پر) ’جموں بند‘ کی کال دے رکھی ہے۔ متعدد سیاسی اور غیرسیاسی جماعتوں نے اس ہڑتال کال کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب جموں وکشمیر کانگریس، جموں وکشمیر پنتھرس پارٹی، گوجر باڈی، ٹیم جموں، جموں بار ایسو سی ایشن اور چند دیگر سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں نے پی ڈی پی، بی جے پی مخلوط حکومت کی مبینہ ’جموں مخالف‘ پالیسیوں کے خلاف ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔ جموں کے ٹرانسپورٹروں نے بھی اپنے مطالبات منوانے کے لئے 6 نومبر کو ریاست بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔ تاہم جموں وکشمیر پولیس کا کہنا ہے کہ سکریٹریٹ گھیراؤ کی کسی بھی کوشش اور احتجاجوں کو ناکام بنانے کے لئے سیکورٹی کے وسیع انتظامات کئے گئے ہیں۔ جموں کٹھوعہ رینج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس نور الحسن نے یو این آئی کو بتایا ’ہم صورتحال کو انتہائی پیشہ ورانہ طریقے سے سنبھالیں گے‘۔ انہوں نے بتایا ’احتجاجیوں کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی کمپنیاں کام پر لگادی گئی ہیں۔ ضلع انتظامیہ نے پہلے ہی سول سکریٹریٹ کے اردگرد دفعہ 144 سی آر پی سی کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے گا‘۔ قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر میں دربار مو کی ڈیڑھ صدی پرانی روایت کے تحت موسم گرما کے چھ ماہ گرمائی دارالحکومت سری نگر میں رہنے کے بعد تمام دربار مو دفاتر بشمول گورنر، وزیر اعلیٰ اور کابینی وزراء کے دفاتر پیر کو سرمائی دارالحکومت جموں میں کھلیں گے۔ یہ دفاتر سری نگر میں27 اکتوبر کو بند ہوئے تھے۔ جموں وکشمیر ملک کی واحد ایسی ریاست ہے جس کی دو دارالحکومتیں ہیں اور جس کا حکومتی انتظام و انصرام موسم سرما کے چھ مہینوں کے لئے جموں جبکہ موسم گرما کے چھ مہینوں کے لئے سری نگر منتقل کیا جاتا ہے۔ ریاست میں سرکاری ریکارڈوں کی منتقلی اور دربار مو سے وابستہ ملازمین کے سفری اور دیگر الاؤنس پر سالانہ کروڑوں روپے خزانہ عامرہ سے خرچ کئے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ دربار مو دفاتر کی آمد کے سلسلے میںدیواروں، سڑکوں اور عمارتوں کو پرکشش بنانے پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق سالانہ دربار مو کے سلسلے میں ملازمین اور سرکاری ریکارڈ کی منتقلی پر ہر سال قریب 20 کروڑ روپے صرف ہوتے ہیں۔ وادی کشمیر میں عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ دربار مو ایک فضول روایت ہے جس کو ختم کردینا چاہیے اور اس فضول روایت کو زندہ رکھنے کے لئے خرچ ہونے والے پیسوں کو عوام کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال میں لانا چاہیے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس روایت کی داغ بیل1872 میں ڈوگرہ راج کے اُس وقت کے فرماں روا مہاراجہ رنبیر سنگھ نے ڈالی اور یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک بار کہا تھا کہ موسم سرماکے دوران دربار مو دفاتر سری نگر میں کام کرنا چاہیے کیونکہ اُس وقت وادی کے لوگوں کو برف باری سے بجلی کی کٹوتی اور اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لوگوں کو حکومت کی مدد درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ موسم گرما کے دوران جموں باسیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لئے گرما کے دوران دربار مو دفاتر جموں میں کام کرنا چاہیے۔یو این آئی۔