دن بھر پورے جگ کو تمازت فراہم کرنے کے بعد سورج اب تھک کر اندھیرے کے آنچل میں پناہ لے چکا تھا۔موسم نے بھی کروٹ بدلی اور اب بوندا باندی ہورہی تھی۔شہزاد برق رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا۔جس راستے پہ شہزاد کی گاڑی رواں دواں تھی،وہ بالکل سنسان تھا۔دور دور تک کسی شئے کا نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔انسان ،گاڑیاں،شورشرابا۔۔۔کچھ بھی نہیں۔دور دور تک فقط اندھیرے کا راج تھا۔شہزاد کو اس سُنسان سڑک پہ گاڑی چلاتے ہوئے ایک عجیب سی وحشت ہورہی تھی۔’’رات کے اس پہر مجھے دفتر سے نہیں نکلنا چاہیے تھا۔کون سی قیامت برپا ہوتی جو میں ایک رات اپنے اہلخانہ سے دور رہتا۔‘‘اُ س نے من ہی من میں خود کو کوسا۔’’مگر نہیں میں کیسے اپنے بیوی بچوں سے دور رہ سکتا ہوں۔۔۔اور میری پیاری بچی،میری پیاری بیٹی،میری پیاری گڑیا،دِیا رانی۔۔۔میں کیسے رات گزارتا اُس کے بغیر‘‘۔اچانک فون کی گھنٹی بجی تو اُس کا مخمور ذہن خیالوں کی دُنیا سے باہر آگیا۔اُس نے جیب سے فون نکالا اور اسکرین کی طرف دیکھا۔دفعتاً اُس کے رُخسار پہ ایک خوشگوار مسکراہٹ پھیلی،دِیا رانی کا فون تھا،اُس کی پیاری اور اکلوتی بیٹی کا ۔’’الے الے ،میلا جِگل،میلا پیالا بچہ کیوں لو لہا ہے‘‘۔فون کی دوسری جانب اُس کی بیٹی کے رونے کی آواز آئی تو وہ اُسے بچگانہ انداز میں تسلی دینے لگا۔’’ارے نہیں بچے،بس دفتر میں آج کچھ زیادہ ہی کام تھا اس لئے تھوڑی دیر ہوگئی۔۔۔ہاں ہاں،بس میں کچھ ہی دیر میں گھر پہنچ جاوں گا،تشویش کی کوئی بات نہیں۔خدا حافظ‘‘۔
اُس نے فون جیب میں رکھا اورگاڑی چلانے میں منہمک ہوگیا۔ابھی وہ کچھ دور ہی چلا تھا کہ اُس کی گاڑی کے سامنے ایک عورت نمودار ہوئی۔۔۔۔عمرہ رسیدہ،مریل،ننگے پائوں،پھٹے پیرہن ،بال بکھرے ہوئے۔۔۔۔عورت کا حلیہ دیکھ کر شہزاد حواس باختہ ہوگیا۔۔۔کہیں کوئی بھوت پریت تو ۔۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔وہ ابھی اسی سوچ میں غرق تھا کہ اُس عمر رسیدہ نے عورت نے اُس کی گاڑی کے شیشے پہ دستک دی۔اُس کا گلا سوکھ گیا۔کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اُس نے گاڑی کی کھڑکی کھولی تو وہ عورت اُس کے قدموں میں گر پڑی۔’’بیٹے،بیٹے!میری بیٹی یہاں سڑک کنارے زخمی حالت میں پڑی ہے ۔وہ مر رہی ہے،خدارا اُسے اسپتال لے جاؤ‘‘۔معمر عورت نے اُس کے قدموں میں گر کر آہ وزاری کی تو اسے یقین ہوگیا کہ وہ کوئی بھوت پریت نہیں بلکہ آدم زاد ہی ہے۔
’’ماں جی!آپ اس طرح آنسو نہ بہائیں،مجھے بتائیں معمہ کیا ہے؟‘‘۔اُس نے عمر رسیدہ خاتون سے استفسار کیا۔
’’بیٹے!دراصل میری اکلوتی بیٹی کے سسرال والے بڑے ظالم ہے۔اس کے درندے شوہر نے آج اُسے کچوکے سے بری طرح گھائل کردیا۔کسی طرح میں اُسے اُن وحشیوں کے چنگل سے چھڑا لائی۔خدا کے لئے اسے اسپتال پہنچاؤ‘‘۔
’’ماں جی! مجھے بڑا دکھ ہوا مگر میں کچھ نہیں کرسکتا۔یہ پولیس کیس ہے۔‘‘
’’بیٹے!تمہاری بھی تو کوئی بیٹی ہوگی۔۔۔اگر خدانخواستہ اُس کے ساتھ بھی ایسا ہوجائے تو!‘‘۔
’’میری بیٹی،دِیا رانی۔۔نہیں نہیں۔۔۔اُس کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔چلیں ماں جی میں آپ کی بیٹی کو اسپتال لے جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘۔
صبح صبح وارڈ کی کھڑکی وا ہوئی تو نسیم صحر کے جھونکوں نے گویا معمر عورت کی زخمی بیٹی کے لئے دوا کا کام کیا۔پوری رات بے ہوش رہنے کے بعداُسے ہوش آگیا۔شہزاد کے چہرے پہ مسکراہٹ ابھری۔
’’میں۔۔میں۔۔۔میں یہاں کیسے پہنچی۔۔۔مجھے کون لے کے آیا یہاں؟‘‘ہوش میں آتے ہی جواں سال لڑکی نے متعجب اندازمیں سوال کیا۔
’’بی بی!آپ اطمینان سے لیٹی رہیں۔آپ زخمی حالت میں سڑک پر پڑی تھیں۔پھر آپ کی ماں نے میری گاڑی روکی اور ہم دونوں آپ کو اسپتال لے کر آئے۔۔۔مگر آپ کو یہاں داخل کرانے کے فوراً بعد ہی وہ پیٹھ پیچھے غائب ہوگئی،نہ جانے کہاں؟‘‘۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہے۔۔۔میری ماں۔۔۔میری ماں تو تین سال پہلے مر چکی ہے‘‘۔
یہ سُن کر شہزاد ٹھٹک گیا،اُس کے اندر آتشِ سیال بھڑک اُٹھا۔
’’آتما،آتما،آتما‘‘یہ کہہ کر شہزاد زمین پر گر پڑا۔
رابطہ؛برپورہ پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر؛9596203768