جنیوا// گرمی کی لہروں، گلوبل وارمنگ، جنگل میں لگی آگ، طوفان، خشک سالی اور طوفان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں اقوام متحدہ کے موسم کے حوالے سے قائم ادارے نے خبردار کیا ہے کہ جن لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر انسانی مدد کی ضرورت ہے ان کی تعداد 2018 میں 10 کروڑ 80 لاکھ کے مقابلے میں 2030 تک 50 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک نئی رپورٹ میں عالمی محکمہ موسمیات کی ایجنسی کا کہنا تھا کہ ہر سال موسم کی وجہ سے زیادہ آفات آرہی ہیں، اس میں کہا گیا کہ 11 ہزار سے زیادہ آفات موسم، آب و ہوا اور سونامی سے منسوب ہیں جو پچھلے 50 سالوں میں پانی سے متعلق ہیں جسکی وجہ سے 20 لاکھ اموات ہوئیں اور اس کے نتیجے میں 36 کھرب ڈالر کے معاشی اخراجات ہوئے۔اس عرصے کے دوران ہونے والی ایک حوصلہ افزا پیش رفت کے دوران ہر موسمی تباہی سے اوسطاً سالانہ ہونے والی اموات میں ایک تہائی کی واقع ہوئی ہے حالانکہ اس طرح کے واقعات اور اسکے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصانات میں اضافہ ہوا ہے۔بین الاقوامی اسٹیٹ آف کلائیمٹ سروسز 2020 کی رپورٹ 16 بین الاقوامی ایجنسیز اور مالیاتی اداروں نے مرتب کی تھی اور اس رپورٹ میں حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم اس تباہی کے حوالے سے خبردار کرنے والے نظام کے لیے استعمال کریں تاکہ ملکوں کی ان قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت اور ردعمل کو بہتر بنایا جا سکے۔عالمی سطح پر موسم کی تنظیم کے سیکریٹری جنرل پیٹیری طلالس نے کہا کہ گوکہ کووڈ۔19 نے بین الاقوامی سطح پر صحت اور معیشت کا بڑا بحران پیدا کیا ہے جس سے نکلنے میں سالوں لگیں گے لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی زندگیوں، ماحولیاتی نظاموں، معیشتوں اور معاشروں کے لیے جاری و ساری خطرے کا باعث بنے گی۔ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 وبائی امراض سے بحالی انسانیت کی آب و ہوا میں تبدیلی کی روشنی میں لچکدار اور موافقت کی طرف ایک زیادہ پائیدار راستے پر آگے بڑھنے کا موقع ہے۔طلالس نے ایک نیوز کانفرنس میں چین کے سی سی ٹی وی نیٹ ورک کے سوال کے جواب میں گزشتہ ماہ چینی صدر شی جنپنگ کی جانب سے کیے گئے بڑے اعلان کو بھی سراہا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا ملک 2060 تک کاربن سے پاک ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔