Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

آب زم زم

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: February 24, 2019 10:55 pm
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
بڈھا وزیر پلنگ پر سونے کے لئے جیسے ہی جھکا، دوسرے کمرے سے بچوں کی لاڈلی سی پر جوش باتوںکی آواز سنائی دینے لگی۔ وہ یکدم کھڑا ہوگیا ۔ اس کو معلوم تھا کہ اس وقت فون کرنے والا خالد ہی ہے۔ خالد اس کا سب سے چھوٹا لڑکا جو سات سال پہلے روزگار کی خاطر سعودی عرب گیا تھا۔ اب کچھ ہی دنوں میں واپس آنے والا ہے۔ یہ فون یقینا گھر کے تمام لوگوں کی خواہش پر ان کی من پسند چیزیں لانے کے لئے کیا ہے۔ بڈھا اس فون کا انتظار پچھلے کئی سالوں سے کر رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ لڑکھڑاتا ہوا دوسرے کمرے کے دروازے کی ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ اندر سب لوگ اپنی اپنی من پسند چیزوں کے نام گنا رہے تھے۔ وزیر کو معلوم تھا کہ آخر میں ہی سہی مگر اس کو ضرور بلایا جائے گا۔ اس لئے وہ وہیں دروازے کے ساتھ بت کی مانند کھڑا بلاوے کا انتظار کرنے لگا۔ وقت گزرتا گیا مگر ان کی من پسند چیزوں کی فہرست ختم نہ ہوئی۔ وہ کھڑے کھڑے تھک چکا تھا ۔اس نے کئی بار چاہا کہ وہ اندر جائے اور بچوں کے ہاتھ سے فون چھین کر اپنے بیٹے سے بات کرے مگر اس کے پاس اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ بچوں کا سامنا کر پائے۔ ہمت تھی تو صرف انتظار کرنے کی اور وہی وہ کرتا رہا۔ 
اچانک کمرے میں سے خوش لہجے میںایک شور بلند ہوا۔ وزیر نے دروازے سے جھانک کر دیکھا، بہو اور بچے اپنی من پسند چیزوں کے انتظار میں جھوم رہے تھے۔ وزیر نے اداسی میں نظروں سے کمرے کو ٹٹولا تو فون ایک ٹیبل پر بند پڑا پایا۔ یہ دیکھتے ہی اُس کے دل کو ایک دھچکہ سا لگا۔ گویا ایک ہی پل میں بیٹے نے باپ کو لات مار دی ہو۔ وہ اپنے کمرے کی طرف دو چار قدم بڑھا مگر پھر رک گیا۔ اس کے ذہن میں آیا وہ کیوں نا ایک بار بہو سے پوچھ لے۔ وہ پیچھے پلٹا اور سیدھے بہوکے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ’’رضو خالد کا فون آیا تھا کیا؟‘‘ وزیر نے ندامت سے سوال کیا۔ 
’’ہاں ،ابھی تو آیا تھا مگر کٹ گیا‘‘ رضوانہ نے جواب دیا
’’باتیں ہوئی تھیں کچھ؟‘‘
’’ہاں سب سے ہوئی مگر آدھے میں فون کٹ گیا‘‘
’’اچھا کب آرہے ہیں؟‘‘
’’کل شام کو جدہ سے فلائٹ ہے‘‘ 
’’اچھی بات ہے‘‘ یہ کہتے ہی وزیر نے بڑی لاچاری سے اپنی نظریں رضوانہ کے چہرے سے زمین پر گرا دیں اور بڑی مایوسی کے عالم میں دروازے کی طرف پلٹا۔ ’’ ابو فون شاید پھر آئے گا، آپ سے میں بات ضرور کرائونگی ‘‘ رضوانہ نے ایک بزرگ باپ کے درد کو محسوس کرتے ہوے کہا۔مگر وزیر ایک لاچار مریض کی طرح خاموش دروازے سے نکل گیا۔
وزیر غمزدہ دل لئے ہوئے پلنگ پر جاکر لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی وہ کئی طرح کی خیالوں میں کھو گیا۔ایک باپ آخر ہوتا کیا ہے ۔جتنی بھی اولاد سے محبت کرو بچوں کے دلوں میں باپ کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی۔ اس دور میں تو نئی نسل کو باپ کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔ اس طرح کے کئی خیالات اس کے ذہن میں پیدا ہوئے۔ وہ کافی عرصہ تک اس طرح کے خیالوں سے دل کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اچانک اس کے ذہن میں آیا کہ خالد اس کا وہی بیٹا ہے جس نے اپنی ماں کی بیماری پر لاکھوں رپیے خرچ کر دیئے تھے۔ اگر ماں پر اتنے خرچ کر سکتا ہے تو میرے بارے میں ضرور سوچتا ہوگا۔ وہ یقینا مجھے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ میرے لئے آب زم زم کیا اہمیت رکھتا ہے اسے پتہ ہے۔ ویسے بھی وہ سعودی عرب سے آرہا ہے، آب زم زم تو ضرور لائے گا۔ انہیں خیالوں میں کھوئے کھوئے اس کی آنکھیں لگ گئی۔ 
صبح اٹھتے ہی وہ بہو سے مخاطب ہوا۔ ’’رضو خالد کا فون آیا تھا پھر کیا؟‘‘اُس نے اپنی خواہش کو چھپاتے ہوئے پوچھا تو بہو نے جواب دیا۔
’’میں رات بھر فون کا انتظار کرتی رہی مگر نہیں آیا‘‘ 
’’اب تو وہ نکل آیا ہوگا ‘‘۔۔۔۔ وزیر نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا
’’شاید ! مگر ابو آپ بے فکر رہئے ،آب زم زم وہ ضرور لائیں گے‘‘
’’ چلو اب اگر نہ بھی لایا تو کیا کر سکتے ہیں‘‘
’’ نہیں نہیں! آپ یقین رکھئے ۔اس کو معلوم ہے کہ آپ کی بیماری کا علاج صرف اور صرف آب زم زم ہے‘‘ 
’’ہاں بتایا تو بہت بار ہے مگر اس نے یاد دلانے کے لئے بھی کہا تھا‘‘
’’ آپ ان کے باپ ہیں اتنی بات تو یادرہے گی نا‘‘
’’ا ﷲ کرے بس یہی بات یاد رہے‘‘
’’ اس کے باپ کو ڈاکٹروں نے بے علاج ٹھہرایا ہے، اب آب زم زم ہی آخری امید ہے ۔اتنا تو وہ کبھی نہیں بھول سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لیجئے آپ چائے پیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ابھی پورے گھر کی صفائی کرنی ہے۔‘‘
وزیر بہو کے ہاتھ سے چائے کی پیالی لیکر باہر صحن کی طرف نکل گیا۔ ابھی دھوپ پوری طرح سے شباب پر نہ آئی تھی ۔ وزیر نے نیلے صاف آسمان کو دیکھ کر دل میں راحت محسوس کی۔ جو بھی شک و شبہ تھا اس کو رضوانہ نے دور کردیا تھا۔ اب اس کو یقین تھا کہ خالد اس کے لئے آب زم زم ضرور لے کر آئے گا۔ 
منگل کی صبح کو ان کے گھر کے سامنے گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ گھر کے تمام افراد بوڑھے وزیر سمیت دوڑتے ہوئے باہر آئے۔ سفید کپڑوں میں ملبوس، سر پر رومال باندھے ہوئے، خالد گاڑی کے اوپر چڑھ کر سامان نیچے اتار رہا تھا ۔ بچوں نے یہ دیکھتے ہی نعرے بلند کئے اور گاڑی کے اوپر ہی خالد میاں سے لپٹ گئے۔ خالد نے بڑے پیار سے ایک ایک کو اٹھا کر گلے سے لگایا۔گاڑی سے سامان اتارنے کے بعد خالد نیچے اتر کر ڈرایئور کے ساتھ مشغول ہوگیا۔ وزیر دور ایک کونے میں کھڑا خالد کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ خالد اب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نہیں رہا تھا بلکہ بھرے بھرے جسم کا جوان تھا۔ وزیر کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں ٹپک رہے تھے۔ ڈرائیور سے فارغ ہوتے ہی خالد کی نظریں باپ پر پڑیں تو اسے جھٹکا سا لگا ۔ جب وہ گھر سے گیا تھا تو باپ اچھا حاصا صحت مند تھا مگر اب جسم سے گوشت جیسے غائب ہو چکا تھا ۔چہرے پر جھریاں ہی جھریاں تھیں۔ ہڈیاں ابھر کر چمڑی سے باہر جھانک رہی تھیں۔ کمزور آنکھوں سے آنسوں کسی آبشار کی طرح بڑی تیزی سے ٹپک رہے تھے۔ خالد نے باپ کی اس حالت پر سر جھکا کر افسوس جتایا۔ پھر کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ باپ کے گلے سے لپٹ گیا۔ باپ نے اس چھوٹے سے لمحے میں دنیا کی ساری راحتوں کو محسوس کرلیا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ جو کچھ بھی خالد کے بارے میں سوچتا تھا سب فضول تھا۔ باپ نے وہ تمام آنسوں، جو پچھلے کئی سالوں سے اس کی آنکھوں کے سمندر میں جمع ہوگئے تھے، بے تہاشہ بہادیئے۔ بڑی مشکل سے بچوں کی ضد پر باپ نے خالد کو فارغ کیا۔ اس کے بعد رات تک لوگوں کی آمدورفت جاری رہی۔ 
رات کے کھانے کے بعد خالد نے تمام اہل خانہ کو ایک کمرے میں جمع ہونے کا حکم سنا دیا۔ سارے اہل خانہ اپنی اپنی من پسند چیزوں کو حاصل کرنے کی خوشی میں بے چین تھے۔ خالد نے سارے بیگ اور صندوق ایک جگہ جمع کئے۔ وزیر اور رضوانہ بھی اپنی اپنی چیزوں کے انتظار میں کافی بے چین تھے مگر ان کے اندر صبر کا مادہ زیادہ تھا، اس لئے ذرا دور کرسیوں پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگے۔ خالد نے اپنے بیگ کھول کر سب سے پہلے بچوں کو ان کے کھلونے اور کپڑے دیدیئے۔ بدلے میں بچوں سے خالد نے پپیاں لیں۔ بچے اپنی اپنی چیزوں کو لیکر وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئے۔ 
اب خالد نے رضوانہ کو مدعو کیا اور ایک ایک چیز کھول کر اس کے سامنے رکھ دی ۔ وزیر کافی عرصہ تک وہیں کرسی پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتا رہا مگر تاخیر مسلسل ہوتی رہی۔ سامان بھی لگ بھگ پورا کھل چکا تھا۔ اس کو یقین ہوگیا کہ اب اس کا یہاں بیٹھنا بے کار ہے۔ وہ مایوسی کے عالم میں آہستہ سے کھڑا ہوکر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ خالد اور رضوانہ اپنے ہی کاموں میں مصروف تھے۔ وزیر جیسے ہی پلنگ پر بیٹھا اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں بہنے لگے۔ وہ آج کھل کر اور با آواز بلند چیخ چیخ کر رونا چاہتا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ ایک بیٹا سات سال کے بعد گھر واپس آیا اور اپنے باپ کے لئے آب زم زم نہیں لایا جو اس کے جینے کے لئے بے حد ضروری تھا۔ آب زم زم تو ایک طرف کچھ بھی نہیں لایا۔ ایسے میں آنسوں بہانا تو فطری تھا۔ وزیر اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک دروازے پر کسی نے دستک دی۔ وزیر نے جلدی سے اپنے آنسوں پونچھے اوراندر آنے کے لئے آواز لگائی۔ خالد ایک بیگ لئے کمرے میں داخل ہوا۔ ’’ابو یہ آپ کے لئے‘‘ بس اتنا کہتے ہی وہ دروازے سے باہر نکل گیا۔ وزیر کے اندر شرمندگی کی ایک لہر سی دوڑ پڑی۔ کچھ دیر تک سوچنے کے بعد اس نے وہ بیگ کھولا ۔ اس میں ایک رومال، دو سیٹ کپڑوں کے اور ایک ڈبیہ کھجوروں کی تھی۔ مگر وزیر کو آب زم زم کی تلاش تھی۔ اس نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ بیگ کے بالکل نیچے ایک اور ڈبا موجود ہے۔ اس کو یقین ہوگیا کہ یہی آب زم زم ہے۔ اس نے بڑے پر جوش انداز سے اسے کھولا مگر اس میں سفید کفن کا کپڑا چمک رہا تھا۔ 
 پی ایچ ڈی اسکالر دہلی یونی ور سٹی
موبائل نمبر؛[email protected]
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Elvis The new Queen Lifetime Video slot Enjoy Totally free WMS Online slots
Nordicbet Nordens största spelbolag med gambling enterprise och possibility 2024
blog
Elvis the new king Gambling establishment Online game Courses
Find Better On the web Bingo Web sites and you may Exclusive Also provides in the 2025

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ماسٹر جی کہانی

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ضد کا سفر کہانی

July 12, 2025

وہ میں ہی ہوں…! افسانہ

July 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?