مالک کائنات نے دنیا کے جس گوشے کوہر اعتبار سے اپنے فضل و کرم اور خوبی ٔ حسن فطری سے نوازا ہے، اُسے جنت ثانی یعنی وادی کشمیر کہا جاتا ہے۔ رب ذولجلال نے اس حسین خطے کو بلند قامت پہاڑوں ، برف سے ڈھکی فلک پوش چوٹیوں ، رنگ اخضریٰ سے سجے پربتوں کے پیڑوں ، سحر انگیز نظاروں ، گھاس کے وسیع وعریض میدانوں اور لہلہاتے کھیتوں سے خوب سے خوب تر بنانے میں جہاں کوئی کمی نہیں رکھی ،وہیں خدائے مہربان نے اس جنت نما وادی کو چار موسموں کی سوغات سے بھی سرفراز کیا ،اس کے باوجود بھی اس اللہ جل شانہ کی کریمی یہاں پر ہی نہیں تھمتی بلکہ اسے اُس خاص و بیش قیمتی شئے سے بھی پوری طرح مالا مال کیا جسے ہم بجا طور آب زلال کے نام سے جان سکتے ہیں اور یہ قیمتی تحفہ اُردو میں پانی نعمت لافانی اگر کہلائے تو ہرج نہیں۔ بڑے پیمانے پرپانی کے ذخائر عطا کرکے رب کائنات نے اس وادی گلپوش پر اپنی کریمی سے مستفیض کیا ہے ۔ مگرافسوس! وادی ٔکشمیر جو اہل دانش وبینش کا بھی بسیرا ہے مگر یہاں مٹی کے مادھوں اور خاک بازوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہاں کی جھیلوں ، دریائوں ، ندی نالوں ، چشموں اورآب گاہوں کے وجود کے ساتھ اس قدر کھلواڑ نہیں کیا گیا ہوتا کہ کئی علاقوں میں خصوصاً پانی کے بیشتر چشمے اور سوتے یا تو خشک ہو چکے ہیں یاان کا نام و نشان ہی مٹادیا گیا ہے۔اس پر جتناکفِ افسوس ملاجائے اتنا کم ہے۔ اپنے نجی اور حقیر مفادات کی خاطر عقل کا چراغ گُل کرنے والوں نے پہلے تو دریائوں اور ندی نالوں کے کناروں پر پاخانے تعمیر کئے اور پھر انہیں پوری طرح ان کے کناروں کو اپنے قبضے میں لے کر اُن پر غیر قانونی تجاوزات بھی کھڑی کردیں، جس کا ثمرہ یہ نکلا کہ ان ندی نالوںمیں بہنے والا آبِ زُلال پاخانوں سے خارج ہونے والے گند اور فضلہ سے پلید و ناپاک ہو کر زہر آلودہ بن گیا، جس کے نتیجہ میںاُن پانیوں میں پلنے والی آبی مخلوق گدھے کے سینگ کی مانند غائب ہونے لگیں اور ساتھ ہی عام لوگوں کو بھی ان ندی نالوں اور دریائوں کا پانی پینا عوام کے لئے بیماریوں اور تکالیف کا باعث بنا۔ حد تو یہ ہے کہ کئی مقامات پر دریائوں اور نالوں کو اس قدر سکڑنے پر مجبور کیا گیا کہ دریا کو نہر اور نالوں کو نالیوںمیں تبدیل ہونا پڑا، نتیجتاً ان علاقوںمیں معمولی سی بوندا باندی کے دوران نکاس آب کی نایابی کے باعث یہی پانی سیلابی صورت حال پیدا کر دیتا ہے جس کا خمیازہ گناہ گاروں کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگوں کو بھی بھگتاپڑتا ہے۔اسی طرح یہاں بیشتر نالوں کے نالے بھی کوئی نہیں سنتاہے ورنہ بے ضمیر لوگ ان نالوں سے باجری اور ریت نکالنے کی احمقانہ حرکت انجام نہ دیتے جب کہ وہ بھی اس بات سے ہرگزناواقف نہیںکہ اُن کے اس فعل قبیحہ سے نالوں میں بہنے والے پانی کی سطح دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے ۔ اسی طرح جھیلوں کا حال بھی بے حال ہے ، جھیلوں کے قریب رہائش پذیر لوگ ان کے کناروں کو خس و خاشاک اور ملبے سے بھرائی کرنے کا فعلِ بد دن رات انجام دے رہے ہیں۔ اس وجہ سے اُن کا پانی مضرصحت بن جاتا ہے جب کہ بعض جگہوں پر نادان لوگ جھیلوںمیں کوڑا کرکٹ ڈال کے انہیں کوڑے دان اور عفونت کا کارخانوں میں تبدیل کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کر تے ۔اس وجہ سے ان جھیلوںمیں پائی جانے والی مچھلیاں اور خصوصاً کشمیری ندرو کی پیداوار میںبھی زبردست کمی واقع ہونے لگی ہے ۔ لوگوں کی ان بد اعمالیوں سے آبی سوتوں اور چشموں کا خدا ہی حافظ ہے ۔ وادی کے متعدد علاقوں جن میں لور منڈا قاضی گنڈ بھی شامل ہے، میں پہاڑوں سے پتھر نکالنے کے باعث درجنوں سوتے اور چشمے سوکھ چکے ہیںاور لوگوں کو جو انمول پانی ان سوتوں سے ہمیشہ فراہم ہوتا تھا، اُ س سے وہ پوری طرح سے محروم ہو گئے ہیںاور نتیجتاً آج کل لور منڈا اور اس کے کئی مضافاتی علاقوں کے باشندے پانی کی ایک ایک بوندکو ترس رہے ہیں۔ ریاستی حکومت اگر چہ آبی ذخائر کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے زرِ کثیر صرف کرنے کا دعویٰ کرتی رہتی ہے تاہم لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ پانی کے ان ذخائر کی قدر کریں اور انہیں معدوم و مسخ ہونے سے بچانے کیلئے خود کی ذمہ داریاں سمجھیں،ورنہ یہاں کی اراضی بنجر وغیر آبادہونے سے نہیں بچ سکتی اور جہاں خشک سالی سے لوگوں کو پانی کی عدم موجودگی میں آنسوؤں کا سیلاب بہاکراپنا دامن تر کرکے جیناپڑے گا ،وہیں اہل ِوادی کو پانی کی ایک ایک بوند کیلئے صرف آسمان کی طرف دیکھنا پڑے گا مگر آسمان والا پانی کے ذخائر کو تباہ کرنے والوں کی ایک بھی سنتے ہوئے ان پر اسی طرح آفات اک نزول کر ے گا جس طرح خشک سالی کے متاثرہ خطوں میںا کثر ہوتا چلا آیا ہے۔ ہمارے یہاںوقت وقت کی حکومتوں نے اگر چہ دعوئے کئے کہ آبی ذخائر کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے تاہم پوری وادی میں آبی ذخائر کی حالت ِزار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اگر آبی ذخائر کو اب بھی مکمل طورپر تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تو مستقبل قریب میں اس حوالے سے ہمیںا جتماعی طور سنگین خطرات لاحق ہوں گے ۔اس صورت حال پر ماہرین بھی اظہار تشویش کررہے ہیں۔جنوبی کشمیر میں نالوں اور چشموں کے سکڑ جانے کے حوالے سے فلڈ کنٹرول کے سپر انٹنڈنٹ انجینئر برائے جنوبی کشمیر کا کہنا ہے کہ محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق نالہ رمبی آرہ کی لمبائی اور چوڑائی کافی زیادہ ہے، تاہم کئی مقامات پر لوگوں نے نالہ کی اراضی کو مالِ مفت کی مانند اپنا قبضہ جما لیا ۔بقول اُن کے عدالت عالیہ کے احکامات کے تحت سال 2014ء میں آئے تباہ کن سیلاب کے بعد غیر قانونی طورپر تعمیر کئے گئے رہائشی مکانات اور دوسرے ڈھانچوں کو تو منہدم کیا گیا، تاہم ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نالہ رمبی آرہ کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ کہتے ہیں کہ جنوبی کشمیر کے نالہ وڑجی ، نالہ ٹونگری ، نالہ آری پل ، نالہ واتو، نالہ رمشو ، نالہ سنگری کی شانِ رفتہ کو بحال کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جار ہے ہیں۔ پلوامہ اور شوپیان میں نالوں کے اردگرد پچھلے کئی مہینوں سے 2لاکھ پودے اور پیڑ کاٹے گئے تاکہ نالوں کو تحفظ فراہم کرنے کے وعدئے کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ اُدھرقاضی گنڈ میں درجنوںسوتے اور چشمے ریلوے ٹنل ، فوروے ٹنل کی تعمیر اور پتھر کی کانوں سے پتھر نکالنے کے باعث ناپید ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں سپر انٹنڈنٹ انجینئر ہائی ڈرولکس اسلام آباد کا کہنا ہے کہ نالوں ، چشموں کے اردگرد مکانات تعمیر کرنے اور گندگی ڈالنے سے نہ صرف نالوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے بلکہ مستقبل میں سیلاب آنے کے خطرات بھی لاحق ہیںکیونکہ رہائشی مکانات اور دوسرے ڈھانچے تعمیر کرنے کے باعث چھوٹے چھوٹے سوتوں سے آنے والا پانی رُک جاتا ہے اور بارشوں کے بعد یہی پانی سیلابی رخ اختیار کرتا ہے ۔ اس کی مثال 2014میں آئے تباہ کن سیلاب سے لی جاسکتی ہے ،جس نے پوری وادی کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ بقول اُن کے لور منڈ ا قاضی گنڈ میں ریلوے ٹنل اور فوروے ٹنل کی تعمیر سے کئی سوتے متاثر ہو گئے اوار ٹنجلو قاضی گنڈ کے پانچ گائوں میں پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ چونکہ اب نیشنل ہاوے اتھارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ کام مکمل ہونے کے بعد متاثر ہ علاقوںمیں ٹیوب ویل کھودے جائیں گے تاکہ لوگوں کے لئے پانی کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جب نالوںمیں کوڑاکرکٹ ڈالا جائے تو نہ صرف پانی متاثر ہو گابلکہ نالوں کے سکڑنے کا بھی احتمال ہے۔ قاضی گنڈ میں تعینات پی ایچ ای کے ایگزیکٹیو انجینئر صاحب بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ریلوے ٹنل اور فور وے ٹنل کی تعمیر سے قاضی گنڈ کے پانچ گائوںمیں پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی اور پی ایچ ای محکمہ کی جانب سے ہر روز پانی کے ٹینکر متاثر علاقوں میں پہنچائے جار ہے ہیںتاکہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم نہ رہیں۔لور منڈا قاضی گنڈ میں نابود کئے گئے پانی کے سوتے اور چشموں پرایک طرف عام لوگ خون کے آنسوں رو رہے ہیں تو دوسری جانب ماہرین بھی دبے الفاظ میں افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ اب حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو پانی کی بوند بوند کے لئے ترسنا اور تڑپنا نہ پڑے۔
ارشد احمدبٹ ۔۔۔ سری نگر