سرینگر//’’اسلام علیکم پاپا،میں سجاد ہوں،میںممی سے بات کرنا چاہتا ہوں‘‘یہ جاں بحق حزب جنگجو سجاد گلکار کے آخری الفاظ ہیں جو انکے والد نذیر احمد کے دماغ میں اب بھی گونج رہے ہیں۔پیشہ سے گلکار نذیر احمد شہر خاص کے گنجان علاقے پاندان میں رہتاہے اور اہل خانہ کا ماننا ہے کہ سجاد کو بندوق اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔سجاد کے چاچا نے بتایا’’جب آئے دن گھر پر چھاپے ڈالے جاتے تھے اور کنبے کی کسمپرسی حالت د یکھ کراسکا کلیجہ منہ کو آتاتھا‘‘۔سجاد کے والد نذیر احمدنے بتایا ’’ بدھ کی شام 7بجکر48منٹ پر مجھے سجاد کی کال جب موصول ہوئی تو میں چونک گیاکیونکہ سجاد13روز سے لاپتہ تھا‘‘۔انہوں نے کہا’’ میں پانپورمیں تھا جب فون کی کال موصول ہوئی اور سجاد نے کہا’’ میری وجہ سے آپ کو بہت مصیبتوں اور تکالیف کا سامنا کرناپڑا،میں محاصرے میں پھنس چکا ہوںاور جلد ہی خالق حقیقی سے ملنے والا ہوں‘‘۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ سجاد اپنی والدہ سے بھی بات کرنا چاہتا تھا تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکاکیونکہ میں گھر سے دور تھا۔نذیر احمد نے بتایا ’’ بارش تیز تھی اور شام کا وقت تھامیں سکوٹر پر گھر پہنچ گیا ، یہاں سب کچھ معمول کے مطابق دیکھااور گھر والوں کو ابھی تک اسکی بھنک بھی نہ لگی تھی‘‘۔انہوں نے بتایا’’ پہاڑ جیسا دکھ میں نے دل میں رکھااورگھر والوں کو کھانا کھلایا‘‘۔انہوں نے بتایا ’’رات کے11بجے انٹرنیٹ پر سماجی رابطہ گاہوں سے سجاد کی تصاویر آنی شروع ہوگیںاور گھر کے دیگر افراد کو بھی پتہ چل گیا‘‘۔۔ نذیر احمد کا کہنا ہے کہ سجاد کے سر پر کئی ایسے کیس بھی دال دئیے گئے تھے،جن سے اسکا سرو کار ہی نہیں تھاجبکہ ایسے بھی کیس تھے،جب وہ شیر خور بچہ تھا۔ نذیر احمد نے مزید بتایا’’ مجھے اپنے لخت جگر کے جانے کا کوئی غم نہیں ہے کیونکہ اس جدوجہد میں نہ جانے کتنی مائوں کے گود خالی ہوگئے ،تاہم نوجوانوں کو پست از دیوار کر کے بندوق ہاتھوں میں تھامنے پرمجبور کیا جا رہا ہے‘‘۔سجاد کے بھائی مرتضیٰ نے کہا ’’گاڑہ کوچہ میں پیٹرول بم پھینکنے کا کیس سجاد پر عائد کیا گیا تھاجبکہ اس وقت وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا‘‘۔انہوں نے کہا ’’ پولیس کے بار بار چھاپوں کی وجہ سے سجاد کوتعلیم ترک کرنی پڑی‘‘۔انہوں نے کہا’’2016میں صرف اس لئے سجاد پر پی ایس ائے عائد کیا گیا کیونکہ وہ تاریخ شنوائی پرحاضر نہیں ہوا تھا‘‘۔انہوں نے کہا ’’سجاد پر اس قدر بے بنیاد کیس عائد کئے گئے تھے کہ وہ تاریخ شنوائی پر جاتے جاتے تھک جاتاتھا جبکہ جون میں ہی اسے5بار عدالت میںحاضرہونا پڑا‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس دوران سجاد کے بدلے ان کے والد نذیر احمد کو گرفتار کیا گیاتو ہم نے سجاد کو جج کے سامنے پیش کیااور جج نے اسی وقت اسے ضمانت پر جانے کی اجازت دی ‘‘۔مرتضیٰ نے کہا ’’ بعد میں جج نے سجاد کو سینٹرل جیل منتقل کرنے کی ہدایت دی اور انکے والد کو رہا کیا گیاتاہم حیرت کی بات یہ تھی کہ بلا وجہ سجاد پر ایک اور پی ایس ائے عائد کیا گیا اور اس کو کوٹ بلوال جیل جموں منتقل کیا گیا،جہاں سے انہیں رواں سال کے آغاز میں رہا کیا گیا۔ نذیر احمد گلکار نے کہا’’ میں سجاد کو اکثر عدالت میں شنوائی کے دوران حاضر رہنے کی ہدایت دیتا تھااو رایک بار اس نے کہا ’’پاپا مجھے لگ رہا ہے کہ عدالت کے باہر ہی کمرہ کرایہ پر لوں‘‘۔اہل خانہ کے مطابق پولیس کے ایک افسر کو زیر چوب مارنے اور دیگر عسکری کاروائیوں میں انہیں ملوث کرنے کے معاملے بالکل لغو ہیںجبکہ اس دوران کئی بار پولیس نے سجاد کو پولیس تھانے طلب کیااور اگر ان واقعات میں صداقت ہوتی تو ان کو اسی وقت گرفتار کیوں نہیںکیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ اس معاملے میں وہ جلد ہی عوام کے سامنے اپنی بات رکھیں گے ۔