سبدر شبیر ، کولگام
’’آئینہ بن، منصف نہیں‘‘ یہ ایک فکر ہے، ایک صوفیانہ دعوت، جو انسان کو دوسروں کے عیب گننے سے پہلے اپنے باطن کی گرد جھاڑنے کی طرف بلاتی ہے۔ ہم سب زندگی کی عدالت میں دوسروں پر فیصلے صادر کرنے میں مصروف ہیں، مگر کبھی خود کو اس کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتے جہاں سچائی کا آئینہ سوال کرتا ہے۔ ‘کیا تُو کامل ہے؟ ہر لمحہ ہم دوسروں کی لغزشوں پر نظریں گاڑتے ہیں، مگر خود کے نفس کی پھسلن سے بے خبر رہتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو رُکنا چاہیے، سوچنا چاہیے اور اپنی آنکھوں میں چھپا اندھیرا دیکھنا چاہیے۔ آئینہ بننا، منصف بننے سے کہیں زیادہ مشکل ہے، مگر اصل انسانیت اسی میں ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر شخص جج ہے اور ہر دوسرا شخص مجرم۔ ہر محفل میں زبانیں تلوار بن چکی ہیں اور دلوں میں بغض، حسد اور برتری کا زہر گھلا ہوا ہے۔ ہم دوسروں کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر بات کرنے میں تو دیر نہیں لگاتے، مگر اپنے اندر چھپی بڑی بڑی خامیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کسی کی آواز، لباس، رویے، ماضی یا عقیدے پر فقرہ کسنا ہمیں روحانی تسکین دیتا ہے، مگر کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اگر ہمارے اعمال کو بھی اسی پیمانے پر پرکھا جائے تو کیا ہم سراٹھا کر کھڑے ہو سکیں گے؟
انسان کا نفس بڑا چالاک ہے۔ یہ ہمیں وہ دکھاتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب ہم کسی کو برائی کرتے دیکھتے ہیں تو ہمارا نفس فوراً ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تم تو اس سے بہتر ہو، تم نے تو کبھی ایسا نہیں کیا، تم تو نیکی کی راہ پر ہو ،اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان عاجزی کے راستے سے غرور کے راستے پر مڑ جاتا ہے۔ نیکی کی بنیاد پر خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا بھی درحقیقت ایک چھپی ہوئی برائی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘یہ حدیث ہمیں محض اعمال کی درستی ہی نہیں، بلکہ زبان کی حفاظت کا بھی درس دیتی ہے۔ جب ہم کسی کی خامی بیان کرتے ہیں تو دراصل اپنی زبان کو دوسروں کے زخموں میں چبھو دیتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ زبان ایک تیر کی طرح ہے، جو اگر چلا دی جائے تو واپس نہیں آتی۔
نفسیات کے مطابق، انسان جب خود کو ناکامی، احساسِ کمتری یا اندرونی خلفشار کا شکار محسوس کرتا ہے، تو وہ لاشعوری طور پر دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے لگتا ہے تاکہ اپنے ضمیر کو تسلی دے سکے۔ گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ’’میں تنہا نہیں ہوں، دوسروں میں بھی برائیاں ہیں‘‘ایسے افراد اکثر خود پر تنقید برداشت نہیں کرتے، مگر دوسروں کو کڑی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نفسیاتی دفاع (Defence Mechanism) کہلاتا ہے، جو خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اصل بہادری تو یہ ہے کہ انسان آئینہ خودی میں جھانکے اور اپنی روح کی گرد صاف کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو؟ ‘‘(القرآن۔ سورہ البقرہ: 44)
’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟‘‘( القرآن۔الصف: 2)
کتنی عجیب بات ہے کہ ہم روزانہ درجنوں باتیں دوسروں کو سکھاتے ہیں مگر خود ان پر عمل کرنا ہمیں بوجھ لگتا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص جھوٹ بولتا ہے، مگر خود روزمرہ گفتگو میں مبالغہ کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ لوگ نمازی نہیں، مگر خود وقت کی پابندی نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں فلاں ریاکار ہے، مگر جب صدقہ دیں تو تصویر کے ساتھ۔یہ سب کیا ہے؟ یہ وہی ہے جسے خود فریبی کہتے ہیں اور خود فریبی انسان کو سب سے زیادہ اندھا کرتی ہے۔اگر ہم روزانہ اپنے دل کے آئینے میں جھانکیں تو ہمیں اپنے اعمال پر ندامت ہونے لگے گی۔ہمارے لہجے، ہماری نیتیں، ہماری خاموشی، ہمارا تکبر، ہماری خودپسندی، سب کچھ بے نقاب ہو جائے گا۔مگر ہم آئینہ کیوں نہیں دیکھتے؟ کیونکہ آئینہ سچ بولتا ہے اور ہمیں سچ سننا پسند نہیں۔ہم دوسروں پر انگلی اٹھاتے ہیں تاکہ ہم خود کو پاک اور بہتر محسوس کر سکیں۔
نفسیات کہتی ہے کہ جو لوگ اندر سے غیر مطمئن ہوتے ہیں، وہ دوسروں میں خامیاں تلاش کر کے اپنی ذات کو تسلی دیتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی دفاعی نظام ہے، جو ہمیں وقتی سکون تو دیتا ہے، مگر باطنی طور پر ہمیں کھوکھلا کر دیتا ہے۔صوفیاء کرام کا نقطۂ نظر اس کے برعکس ہے۔ ان کے نزدیک سب سے عظیم عبادت اپنی اصلاح ہے، نہ کہ دوسروں کی نگرانی۔
شیخ سعدی فرماتے ہیں۔’’ اگر تُو اپنے اندر عیب نہ دیکھے، تو جان لے کہ تُو سب سے بڑا عیب دار ہے۔‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں،’’بدترین انسان وہ ہے جو دوسروں کی غلطیوں پر ہنسے، جبکہ اس کے اپنے اعمال اس سے بدتر ہوں۔‘‘یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ کا دل نرم ہوتا ہے، زبان خاموش اور آنکھ اشک بار۔وہ کسی پر انگلی نہیں اٹھاتے، بلکہ ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔ دعا کے لیے، بخشش کے لیے۔اگر ہم روزانہ صرف پانچ منٹ سچائی سے اپنا محاسبہ کریں، تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہم جنہیں گناہ گار کہتے ہیں، ان جیسی کوتاہیاں ہم میں بھی موجود ہیں، بس ابھی منظرعام پر نہیں آئیں۔یاد رکھیں، اللہ کا ایک پردہ ہے جو ہمارے عیوب پر پڑا ہے، اگر وہ ہٹا دیا جائے تو شاید وہی لوگ جن پر ہم انگلی اٹھاتے ہیں، ہمارے لیے دعا کرنے لگیں۔زندگی ایک مسلسل آزمائش ہے۔ ہم ہر لمحہ کسی نہ کسی اخلاقی دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں۔جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے، تو ہمیں دو راستے ملتے ہی ہیں، یا تو ہم اس کی برائی بیان کریںیا اس کے لیے دعا کریں۔پہلا راستہ نفس کو خوش کرتا ہے، دوسرا راستہ اللہ کو خوش کرتا ہے۔ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اصلاح کا عمل تنقید سے نہیں، کردار سے ہوتا ہے۔اگر ہم واقعی کسی کو بدلنا چاہتے ہیں تو خود کو مثال بنائیں۔ہمارا حسنِ کردار، ہمارا سکوت، ہماری عاجزی، ہماری نرم مزاجی ، یہ سب کسی خطبے سے زیادہ مؤثر ہو سکتے ہیں۔لوگ وہی بات مانتے ہیں جسے وہ کردار کی صورت میں دیکھیں، صرف باتیں سن کر کوئی نہیں بدلتا۔ہم دوسروں کے عیبوں کو اپنے دل میں ذخیرہ کرتے جاتے ہیں اور یہ ذخیرہ ہمیں زہریلا کر دیتا ہے۔ہمارے دل میں جب کسی کی نفرت بیٹھ جائے تو نہ عبادت میں مزہ رہتا ہے، نہ ذکر میں۔اور یہ نفرت کب پیدا ہوتی ہے؟
جب ہم خود کو بہتر سمجھتے ہیں اور دوسروں کو کمتر۔اصل ایمان وہ ہے جو عاجزی سکھائے۔اور عاجزی وہ ہے جو ہمیں اپنی کمزوریوں کا احساس دلائے۔اس احساس کے بغیر نہ نیکی معتبر ہے، نہ علم، نہ عبادت، نہ نصیحت۔دنیا کا سب سے بڑا مجرم وہ نہیں جس سے خطا ہو جائے، بلکہ وہ ہے جو دوسروں کی خطا پر ہنستا ہے، اور اپنی کوتاہی کو بھول جاتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ جب کسی کی کمزوری نظر آئے، تو بجائے تضحیک کے، ہم خاموشی سے اپنے رب سے عرض کریںکہ یااللہ! اسے ہدایت دے اور ہمیں بھی نفس کی شرارتوں سے بچا۔
آخر میں، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انگلی صرف دوسروں پر نہیں اٹھتی ۔وہ خود ہم پر بھی پلٹ سکتی ہے۔ہم جس کو ناپاک، کمزور یا گمراہ سمجھتے ہیں، ممکن ہے وہ اللہ کی نظر میں ہم سے بہتر ہو،اور ہم جو اپنے آپ کو نیک، سچا اور باکردار سمجھتے ہیں، ممکن ہے قیامت کے دن وہ سب دھوکہ نکلے۔
زندگی کا سب سے قیمتی آئینہ انسان کا اپنا دل ہے،اگر وہ صاف ہو تو سب کچھ صاف نظر آتا ہے۔اگر وہ دھندلا ہو تو دنیا کی سب خوبیاں بھی بدصورت دکھائی دیتی ہیں۔لہٰذا کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے دل کے آئینے کو صاف کریں۔شاید وہاں وہ خامی چھپی ہو جو ہمیں دوسروں میں دکھائی دیتی ہے ۔