تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ جس کسی قوم یا معاشرے نے اپنے مذہبی احکامات اور تہذیبی اقدار سے منہ موڑ لیا ،اُس قوم یا معاشرے میں سب سےپہلے اخلاقیات کا خاتمہ ہوتا ہے، پھر مفاد پرستی ،خود غرضی اور موقع پرستی عام ہوجاتی ہے،جس کے نتیجے میںظلم و تشدد،ناانصافی ،غیر مساویانہ تقسیم اور دوسری کئی سماجی بُرائیوں اور خرابیوں کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔معاشرے میںصبر و برداشت کا مادہ معدوم ہوکر نفسیاتی خواہشات بڑھ جاتی ہیں، جرائم کے ارتکاب ہوتے ہیںاورامن و سکون غارت ہو کر رہ جاتاہے۔پھر اس شیطانی چکر میں قوم یا معاشرے کے زیادہ تر افراد دھیرے دھیرے بدحالی اور پسماندگی کے شکار ہوجاتے ہیں۔بغور دیکھا جائےتو ہمار ے کشمیری معاشرےکے بے شمار خامیوںمیںاخلاق وکردار کا فقدان سر فہرست نظر آرہا ہے۔اگر ہم اخلاقی گراوٹ کے اسباب پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ ہم خدا ترس ہونے کے بجائے مادہ پرست ہوگئے ہیں۔جبکہ یہ امر بھی انتہائی بدنصیبی کا باعث ہےکہ ہمارے معاشرے میںزیادہ ترپڑھے لکھے افراد بھی کہیں نہ کہیں بے انصاف ، بے درد، بد دیانت ، سنگ دل ، رشوت خور، موقع پرست ، کام چور، دولت کے غلام ، انسانیت کے دشمن اور خود غرض دکھائی دیتے ہیںجو امن وسکون کی زندگی کے بجائے بدنظمی ،خود سری اور بد خوئی کے رسیا بن گئے ہیںاوررواداری اور یکسوئی کو چھوڑ کر دولت کے پجاری بنے ہوئے ہیںاور انسانیت کی خدمت کرنے کے بجائے دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں، گویا وہ پاکیزگی اور پاک دامنی کی زندگی چھوڑ کر بے حیائی کی انتہاکو پہنچ چکے ہیں۔اگرچہ ہر دور میںقوم یا معاشرے کو ہر قسم کی بُرائیوں اور خرابیوں سے صاف وپاک رکھنے کی ذمہ داری تعلیم یافتہ لوگوں کے سر رہی ہے، تاہم تعلیم یافتہ افراد کا باصلاحیت ، نیک سیرت ، خوش اخلاق ، فرض شناس اور باکردار ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔لیکن ہمارے معاشرےکے پڑھے لکھے لوگوں کا ایک خاصا حصہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بداخلاقی کی پستی میں جاگرا ہےکہ اُنہیں تعلیم یافتہ کہنا گویا تعلیم کی توہین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ان کی ضرویات کی خاطر پیدا کی ہیںمگر انسان خود اپنے خالق ومالک کی مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتا ہے جو نہ صرف اللہ کی رضا کے خلاف ہے بلکہ انسانیت کیلئے بھی نقصاندہ ہے۔ آج کا انسان مادہ پرست ہوگیا اور مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق وکردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے۔اللہ نے صرف انسان ہی کو اشرف المخلوقات کا اعزاز بخشا ہے،اُسے بہترین دل ودماغ عطا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسی ایسی ایجادات عمل میں لائی گئیںجن کا تصور بھی نہ تھا۔ زمانہ قدیم سے آج تک جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں،وہ اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ انسان نے دماغ کا استعمال کرکے ہی چاند تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن یہی انسان آج مادہ پرستی کی گہری دلدل میں ڈوب چکا ہے اور اسی مادہ پرستی نے انسان کے اخلاق کوبُری طرح متاثر کیا ہے، جس سے معاشرہ فساد وبگاڑ کی آماجگاہ بن گیا ہے۔حق بات تو یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق وکردار سے پہنچانا جاتا ہے، اچھا اخلاق اسے انسانیت کے اعلیٰ مقام پر پہنچاتا ہے جبکہ بُرے اور گندے خصائل اُسے ذلیل ورُسوا کرکے پستی میں ڈال دیتے ہیں۔ اس لئے ان تمام چیزوں پر ہمیں غورو فکر کرنا چاہئے۔اپنے اخلاق وکردار کو سنوار کر اور دوسروں کے حقوق ادا کرکے ہی ہمیں امن وسکون اور راحت وآرام حاصل ہوسکتا ہے۔خصوصاً ہمیں اپنے معاشرے کے اِس مروجہ نظام کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے،جس میں ہم نے اخلاقیات سے کنارہ کشی کرلی ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے دلوں میں احساس ، مروت ، انسانیت ، اخلاق، تحمل، اپنائیت اور برداشت نام کی کوئی چیزباقی نہیں رہی ہے۔ہمارے لئے لازم ہے کہ اسوۂ رسولؐ پر عمل پیرا ہوکر گفتگومیں نرمی رکھیں، کسی پر ظلم نہ کریں ، دھوکہ دہی ، بے ایمانی اور فریب کاری سے پرہیز کریں ،اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کریںاور اساتذہ کا احترام کریں۔ یہ وہ اخلاقی تعلیمات ہیں جنہیں اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے ایمان کا خاص حصہ قرار دیا ہے۔اس لئے ہمیںمحض نام کے نہیں، اچھے کام کے مسلمان بن جانے کی ضرورت ہےاور یاد رکھیں کہ جو مسلمان دنیا میں خوشحالی سے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے،اُس کو لازم ہے کہ وہ اخلاص و کردار اور نیک نیتی کا مظاہرہ کرے۔