یہ چاند اکھاڑ کر پھینک دوں۔
یہ سبھی تارے نوچ ڈالوں۔
اِس رات کو پاش پاش کروں۔
یہ سب
یہ سب خُدا اور میرے بعد اُس کام کے گواہ ہیں جو میں ابھی ابھی کرکے لوٹ رہا ہوں۔
ایسا کام جو سب کی نظروں میں گناہ ہے ، بہت بڑا گناہ۔
لیکن
میرے لئے تو صرف مجبوری ہے۔
گناہ بھی ایسا جو پہاڑوں سے بھی بھاری ہے بہت بھاری۔ مجھے لگ رہا ہے جیسے میرے کاندھوں پر دو پہاڑ رکھ دیئے گئے ہوں۔ پر اتنا بوجھ ہونے کے باوجود بھی پتہ نہیں میں کیسے استادہ ہوں اور چل رہا ہوں حالانکہ میرے قد م نہایت بوجھل ہیں۔ ہر قدم اُٹھانے کے بعد مجھے لگا رہا ہے جیسے میں دلدل میں دھنساجا رہا ہوں۔ ہر سُو سناٹا ہے بے حد سناٹا۔ پر اتنا سناٹا ہونے کے باوجود بھی میں اپنے قدموں کی چاپ نہیں سُن پارہاہوں۔ میں بہرہ بھی تو نہیں ہوں۔ رات کا پچھلا پہر ہے اور بستی کے لوگ سارے سوئے پڑے ہیں۔ مجھے اپنے چلنے کی رفتار اور تیز کرنی ہوگی۔مجھے سحر ہونے سے پہلے ہی واپس لوٹنا ہوگاکیونکہ گھر پر زینب انتظار کررہی ہوگی۔ ابھی اُس پر بھی غم کا یہ پہاڑ ٹوٹنا باقی ہے کیا پتہ وہ یہ صدمہ برداشت کرپائے گی بھی یا نہیں۔ میں اُس سے کیسے بتائوں ، کیسے سمجھائوں ، مجھے شبدوں کی جادوگری بھی تو نہیں آتی۔ ہوسکتا ہے وہ میرے چہرے کی حالت سے سب کچھ سمجھ جائیے۔ اگر نہیں بھی سمجھی تو میں دھیر ے دھیرے اُسے سمجھادوں گا۔ سمجھادوں گا جو پریشانی ہم چند مہینوں سے جھیل رہے تھے میں وہ پریشانی ۔۔۔۔۔
جس خوف ، جس دہشت نے کئی دنوں سے ہماری نیند اُجھاڑ کر رکھ دی تھی ہم اِس خوف اُس دہشت سے نجات۔۔۔
کئی روز سے ہم ایک دوسرے سے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن پتہ نہیںکیوں کچھ کہہ نہیں پارہے تھے۔ صرف ایک دوسرے کا منہ تکتے رہتے تھے۔
پر ایک دن جب زینب کچھ زیادہ ہی پریشان ہوگئی تو مجھ سے پوچھ بیٹھی۔
جی اب کیا ہوگا؟
اور میں نے جھوٹا دلاسہ دیتے ہوئے جواباً کہا۔
کچھ نہیں سب ٹھیک ہوجائیگا ۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
پر۔
پر میںاُسے کیسے بتاتا کہ میں خود اندر ہی اندر اور سہما سہما سا ہوں۔
دل دہلادینے والی خبریں برابر آتی رہیں۔
آج پانچ سالہ بچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سات سالہ بچی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دو شیزہ کو اغوا کر لیا گیا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔
پھر دہلی کے واقعے نے سب کے ہوش ہی اُڑا دیئے۔ اُس رات زینب اور میں پوری رات نہیں سو پائے صرف ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ خبروں میں کچھ یوں سُنا تھا۔
ائر پورٹ سے آتے وقت ایک لڑکی کو چند غنڈوں نے اُٹھا لیا او ر اُسکا گینگ ریپ کیا۔ اُن غنڈوں نے باری باری ایک ایک کرکے اُسکی آبروریزی کی۔
اِس واقعے نے لاکھوں کروڑوں کے چہروں پر سوالیہ نشان چسپاں کردیئے۔ ایک سوالیہ نشان مجھے زینب کے چہرے پر بھی نظر آیا۔
جیسے وہ مجھ سے بہت کچھ کہناچاہتی تھی ، مجھے سمجھانا چاہتی تھی۔ پر اُسے کچھ بھی سوجھ نہیں رہا تھا۔
اُف
اُف غم کے وقت یہ راستہ طویل، بہت طویل کیوں ہوجاتا ہے۔ آتے وقت یہ راستہ اتنا لمبا تو نہ تھا اور نا ہی مجھے یہاں آنے میں اتنا وقت لگا تھا۔ میں بے حد افسر دہ دل ہوں اور پریشان بھی ہوں۔ پر پتہ نہیں ایسی افسردگی اور پریشان حالت میں بھی میں گھر کی اور کیسے جارہا ہوں۔ میں ذرا بھر بھی راہ نہیں بھٹکا۔ پتہ نہیں میرے حواس کو کس چیز کی رہنمائی حاصل ہے ۔ مجھے تو تیز اور تیز چلنا ہوگا۔
دل دہلادینے والی خبریں پھر معمول بن گئیں۔ اب بات صرف دلی شہر کی نہیں تھی۔ کوئی بھی شہر ، کوئی بھی بستی اب تو کوئی بھی گھر، کوئی بھی بازار، کوئی بھی ادارہ ، کوئی بھی دفتر ، کوئی بھی نکڑ، محفوظ نہ تھا۔کہیں بھی کھبی بھی یہ کھیل کھیلا جاتا ۔ پتہ نہیں ہوس کی کیسی بدحواس ہوا چلی جو بس چلی ہی جارہی ہے۔ کسی کی چارد چھینی جارہی ہے ، کسی کا ڈوپٹہ اُچھالاجارہا ہے، کسی کی اوڑھنی کھینچی جارہی ہے، کسی کی شلوار اُتاری جارہی ہے۔ یہ کھیل پہلے بھی شاید کھبی کھیلا گیا ہو لیکن اب تو یہ معمول بن گیا۔ کب کہاں کیا ہوجائے کچھ پتہ نہیں۔ صبح پڑھائی یا کام کے لئے جارہی کس گھر کی عزت کیا پتہ شام کو کس حالت میں واپس لوٹے ۔ گھروں میں انکا انتظار کرنے والے عجیب عجیب وسوسوں اور بُر ے خیالات میں ڈوبے رہتے ہیں۔
ارے۔۔۔۔۔۔۔ارے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میر ا گھر رہا اور ابھی سحر بھی نہیں ہوئی پھر گھر کا دروازہ کُھلا اور وہ بے لگام طوفان کی طر ح اندر گُھس آیا۔ زینب اُسے دیکھکر اُٹھ کھڑی ہوئی اور پریشانی کی حالت میں جلدی جلدی پوچھنے لگی اُسکے حلق سے الفاظ ٹھیک سے نہیں نکل پارہے تھے۔
ک۔۔۔۔۔۔۔کہاں ۔۔۔کہا ں تھے آپ۔ اسطرح۔۔۔۔ اچانک کہاں غائب ہوگئے تھے۔ اس طرح بن بتایئے آپ تو کہیں نہیں جاتے ۔ کیا ہوا۔ لل للہ بتایئے ناکیا ہوا؟ آپ کی آنکھوں سے عجیب وحشت ٹپک رہی ہے۔ آپ کے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ سارا بدن پسینے سے شرابور ہے لل للہ بتائیے نا کیا ہوا۔ یہ پاگلوں سی حالت کا کیا مطلب ہے ۔ کچھ تو بتایئے۔
میں۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اُسے۔۔۔
میں نے اُسے نہیں مارا۔
بھلا میں اُسے کیوں مارتا۔
اُس کا کیا قصور تھا۔
اگر اُس کو مارنا ہی ہوتا تو میں اُسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو میں اُس کا گھلا گھونٹ دیتا یا پھر اُسے زہر دے دیتا۔
مگر نہیں۔
بالکل نہیں۔
مجھے اُسے نہیں مارنا تھا۔ بلکہ مجھے تو صرف اُسے محفوظ کرلینا تھا۔
محفوظ۔
ہمارے سماج میں گھومتے پھرتے چاروں او ر انسانوں کا روپ دھارن کئے ہوئے اُن بھیڑیوں سے ،ا ُن درندوں سے جو کل جاکر اُسکی بوٹی بوٹی نوچ ڈالتے،اُسکی عزت ، اُسکی آبرو ریزہ ریزہ کرتے۔ اُسے رسوائی او ر شرمساری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے۔
اسی لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سُنو زینب تم سُن رہی ہونا۔
زمین سخت تھی
بہت سخت ، سنگلاخ
پر اُسے ہار ماننی ہی پڑی، ایک بار، دوبار، کئی بار میںنے وار کئے اورآخر کار زمین کا سینہ چاکر کرکے گھڑا کھو د ہی لیا۔پتہ نہیں اتنی سخت زمین میں ، میں اپنے برابر کا گھڑا کھودنے میں کیسے کامیاب ہوا۔ میں بہت تھک گیا۔ لیکن جب وہی خوف، وہی دہشت مجھ میں سرایت کرنے لگتی تو میں پھر اپنی پوری طاقت سے گھڑا کھودنے لگتا۔
وہ
وہ مجھے گھورہی تھی۔ برابر گھور رہی تھی جیسے اپنی معصوم نگاہوں سے مجھ سے کئی سوال پوچھ رہی ہو۔
کیوں ؟
آخر کیوں؟
آپ کیوں ایسا کررہے ہو۔
میں محشر میں آپکا دامن پکڑ کر ضرور پوچھوں گی۔
آخر میرا کیا قصور تھا۔
میں اُسے نظروں ہی نظروں میںسمجھا رہا تھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں میر ی لخت جگر۔
میر ی نور چشم، تمہارا کوئی قصور نہیں، تمہاری کوئی خطا نہیں، بس تمہار اابو مجبور ہے۔ بہت مجبور۔
اور کوئی جگہ بھی تو نہیں جہاں میں تمہیں محفوظ رکھ سکوں۔ درندوں کی اِس بستی میں آخر تمہیں کہاں چھپائوں۔
کہاں چھپائوں۔
پھر میں نے اُس سے گود میں اُٹھا لیا۔ اُسے بے تحاشہ اسکے بوسے لئے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں
ہاں زینب پھر۔
پھر میں اُس نور کو جس کی روشنی سے ہمار ا گھر پچھلے تین سال سے روشن تھا، محفوظ کرلیا۔
ہاں ہاںمیں نے اپنی نور کو دفنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندہ
زند ہ دفنا دیا اور یوں اُن بھیڑیوں اور درندوں کو شکست دے دی جو ہر وقت گھات لگائے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ بولے جارہا تھا پر اُسکی بیوی زینب پتہ نہیں کب کی غش کھا کر گر پڑی تھی۔
رابطہ؛محلہ جامع قدیم سوپور کشمیر
فون نمبر: 9419031183
E-mail Id: [email protected]