تاریخ اسلام میں حضرت زینب کبریٰ بنت علی ؑ کی شخصیت کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ آپ سرکارِ رسالت ، رسولِ رحمت، ختمی مرتبت، احمدِ مجتبیٰ محمد مصطفےٰؐ اور اُم المومنین حضرتِ خدیجہ الکبریٰ ؑ کی نواسی تھیں۔ امیر المومنین شاہِ ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے والد جبکہ خاتونِ جنت سیدہ النساءحضرت فاطمہ الزہرا ؑ آپکی والدہ تھیں۔ اسی طرح مربیٔ رسول حضرت ابو طالب عمران ابن عبدالمطلب آپکے دادا اور حضرت فاطمہ بنت اسد آپکی دادی تھیں۔سیدہ زینب بنتِ علیؑ حضرات حسنین یعنی امام حسن ؑ اور امام حسینؑ جیسے اُن براداران کی سگی بہن تھی، جن کو دربارِ رسالت سے سیدی شباب ِ اہل جنت کی سند ملی۔ البتہ یہ سب نسبی فضائل ہیں۔ سیدہ زینبؑ کی عظمت اور فضلیت کا اصلی راز اُن کی ذاتی صفات اور انسانی و نسوانی کمالات بالخصوص اُس لامثالی کردار میں پوشیدہ ہے جو کہ انہوں نے واقعۂ کربلا کے حوالے سے ادا کیا۔ آپ کی شخصیت ،طہارت و پاکیزگی ، علم و عمل، عقل و دانش، ہمت و حوصلہ، فصاحت و بلاغت اور صبر و استقلال جیسے فضائل سے مزین تھی۔ تاریخ نے آپ کو مختلف القاب سے نوازا ہے جیسے خاتون کربلا، فاتحِ کوفہ و شام، شریکتہ الحسین ؑ، ثانی زہرا، عقیلہ بنی ہاشم، عالمہ غیرمعلمہ وغیرہ ۔اسی طرح آپ کی مشہور کنیت ’’ اُم المصائب‘‘ ہے۔
اکثر مورخین کے مطابق حضرت زینب بنت علیؑ ۵ جمال الاول۵ ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔ روایات میں آیا ہے کہ جب جناب زینب ؑ متولد ہوئیں اور اس کی خبر آپ کے نانا جان کو دی گئی تو آنحضورؐ سیدہ زہراؑ کے گھر تشریف لائے، نو مولود بچی کو اپنے سینے سے لگایا اور اس کے رخسار پر اپنا رخسارِ مبارک رکھ کر گریہ کیا۔ اس کی وجہ پوچھے جانے پرآنحضرتؐ نے اپنی بیٹی کو اُن المناک حالات اور تکالیف سے باخبر کیا جن سے یہ بچی اپنی زندگی کے دوران دو چار ہونے والی تھی۔( اس واقعہ کا ذکر ڈاکٹر عائشہ الشاطی مصری نے بھی اپنی شہرۂ آفاق عربی تصنیف’’ بطلتہ کربلا‘‘ میں کیا ہے۔) کچھ دن بعد رسول اللہ ؐ نے اس بچی کا نام ’’ زینب‘‘ رکھا۔ ایک روایت کے مطابق’’ زینب‘‘ عبرانی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں’’ بہت زیادہ رونے والی‘‘۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ لفظ’’ زین ابیھا‘‘ یا’’ زین واب‘‘ کا مخفف ہے یعنی’’ اپنے باپ کی زینت‘‘۔
بچپن سے ہی مصائب نے ام المصائب پر ڈیرہ ڈالنا شروع کیا۔ چھ برس کی عمر میں نانا جان رحلت کر گئے۔ کچھ ہی مہینوں بعد شفیق ماں کا سر سے سایہ اُٹھ گیا۔ جس وجہ سے کمسنی میں ہی آپ کو امورِ خانہ داری کی ذمہ داری سنبھالنی پڑی۔ آپ اپنے بابا اور بھائی بہنوں کی ہر ضرورت کا پورا پوار اخیال رکھتی۔ جبکہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرکے غریبوں یتیموں اور محتاجوں کی خبر گیری اور مدد کرتی۔
حضرت زینب بنتِ علی ؑ کا نکاح اُن کے چچیرےبھائی حضرت عبداللہ ابن جعفر طیارؓ سے ہوا تھا۔ مولا علی ؑ نے اپنے داماد حضرت عبداللہ سے شادی کےوقت ہی یہ وعدہ لیا تھا کہ وہ زینبؑ کو اپنے بھائی حسین ؑ کے ساتھ سفر کرنے سے نہیںروکیں گے۔ سیدہ زینبؑ سے عبداللہ ابن جعفرؓ کی پانچ اولادیں ہوئیں۔ چار بیٹے۔ علی، عون، محمد اور عباس اور ایک بیٹی ،اُم کلثوم۔ ان میں سے عون اور محمد کربلا میں حسینی ؑفوج کی جانب سے شہید ہوئے۔
جناب زینب کبریٰ ؑ مدینہ پاک میں بڑی تعداد میں خواتین کو قرآن و حدیث اور فقہ جیسے اسلامی علوم کی تعلیم دیا کرتی تھیں حضرت علی ؑ کے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد جب زینب ؑ اپنے بابا اور شوہر کے ساتھ کوفہ چلی گئیں تو وہاں بھی انہوں نے خواتین کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
تاریخ ِ کربلا دو ستونوں پر قائم ہے۔ قیامِ حسین ؑ اور قیام زینبؑ۔ چاہے مدینہ چھوڑنے کا وقت ہو یا مکہ سے بغیر حج کے وداع ہونے کا وقت، سفر کی مشکلات ہوں یا حضر کی سختیاں، صلح کی منزل ہو یا جنگ کا میدان، شب عاشور ہو یا صبحِ عاشور، زینب ؑ ہمیشہ حسین ؑ کی شریک کار ہیں۔ بقول ڈاکٹر پیام اعظمیؔ ؎
نقیب فتح شہہ مشرقین بن کے اُٹھی
نہ تھے حسین ؑ تو زینب حسینؑ بن کے اُٹھی
سید الشہدا، اما م حسین ؑ اور اُن کے رفقاء کی شہادت کے بعد کربلا میں یزیدی فوج نے حسینی قافلے کی عورتوں ، بچوں اور فرزندِ حسین ؑ امام زین العابدین ؑ کو اسیر کیا۔ عصر عاشور کے بعد ان غریب الوطن اور بے سہارا اسیروں کےلئے شام غریباں آئی۔ ان کا سارا سامان لوٹ لیا گیا۔ نبی زادیوں کے سر کی ردائیں چھین لے گئیں۔ یتیموں کے کانوں سے گوشوارے نوچ لئے گئے۔ خیموں کو جلا دیاگیا۔ ایسے میںیہ خیبر شکن کی بیٹی زینبؑ ہی تھی جس نے جلالِ حیدری کا مظاہرہ کرکے بچوں اور عورتوں کی حفاظت کی اور بیمار بھتیجے امام زین العابدینؑ کو آگ کے جنگل سے بچایا۔
گیارہویں محرم کو اسیروں کا قافلہ بازارِ کوفہ سے ہو کر دارالامارہ پہنچایا گیا۔ کوفے میں بنت علی ؑ نے اتنا فصیح و بلیغ اور پُر جوش خطبہ دیا کہ لوگوں کو علی ؑ کی یاد آگئی۔ والیٔ کوفہ عبداللہ بن زیاد کے دربار میں بھی زینبؑ نے ابن زیاد کے ہتک آمیز کلمات کا برجستہ و شائستہ اور دندان شکن جواب دیا۔
بعد میں نہایت ہی جبر و زیادتی اور سختی کے ساتھ یہ لُٹا ہوا قافلہ دمشق ( شام) پہنچایا گیا جہاں یزید کا دارالخلافہ تھا۔
صاحبِ لہوفؔ نے لکھا ہے کہ جب قیدیوں کو شام کے دربار میں یزید کے سامنے لایا گیا۔ تویزید نے زینبؑ کی طرف مخاطب ہو کر کہا۔ اے علی کی بیٹی! دیکھا اللہ نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟‘‘۔ اسکے بعد یزید نے ایک چھڑی سے امام حسین ؑ کے سرِ اقدس سے بے ادبی کرتے ہوئے اپنے اسلاف کی تعریف میں کچھ اشعار پڑھے۔ یہ منظر دیکھ کر جنابِ زینبؑ نے وہ یاد گار خطبہ دیا ،جس نے پورے دمشق میں زلزلہ پیدا کیا ۔ چند جملے ملاحظہ ہوں۔
حمد و ثنا اور درود وسلام کے بعد آپ نے اس آیتِ قرآن کی تلاوت فرمائی( ترجمہ:۔ خبردار! یہ خیال نہ کرنا کہ کفر اختیار کرنے والے ہم کو زمین میں عاجز کرینگے ۔نہیں! بلکہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترین انجام ہے‘‘۔پھر فرمایا’’ اے یزید! تیرا گمان ہے کہ تو نے ہم پر زمین و آسمان کو تنگ کیا ۔ان لوگوں سے اور کیا امید کی جاسکتی ہے جنہوں نے پاکبازوں کا جگر چبایا ہو۔ راہِ الٰہی کے شہداء کا خون ،جن کی غذا ہے ۔ میرے جدا مجد حضرت حمزہؓ کے گوشت کے ریشے ابھی تیرے دانتوں میں پھنسے ہونگے۔۔ اے پسر آزاد کردگان! کیا تیرا عدل و انصاف یہ ہے کہ تو نے اپنی بیٹیوں اور کنیزوں کو تو پردے میں رکھا ہے اور رسول خداؐ کی بیٹیوں کو تماشہ کےلئے سر بازار ننگے سر پھراتاہے۔ بخدا نہ تو ہمارے ذکر کومٹاسکتا ہے نہ ہی ہماری شریعت کو ضائع کرسکتا ہے۔ تو طوقِ لعنت کو اپنے گلے سے کبھی نہ اُتار سکے گا۔ خدا کا شکر کہ نیکی اور شرافت ہماری ابتداء اور رحمت و شہادت ہمارا انجام ہے۔‘‘جوں ہی سیدہ زینبؑ نے اپنا خطبہ ختم کیا ۔ ہر طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہونے لگی۔ سب لوگ یزید اور قاتلانِ حسین ؑ پر لعنت کرنے لگے۔ جن میں اکثر درباریوں کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کے ایک بوڑھے صحابی ابو برزہ اسلمی، ایک یہودی طیب، ایک عیسائی عالم بنا م جائلیقؔ۔ یہاں تک کہ یزید کی چہیتی بیوی ہند بنت عبداللہ ابن عامر اور اسکی بیٹی عاتکہؔ بھی شامل ہیں۔ یہ سب فاتح خیبر کی شیر دل بیٹی کا ہی کمال تھا کہ حق آشکار ہوگیا اور باطل کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔
قید خانۂ شام میں ہی زینبؑ اُن خواتین کو کربلا کی حقیقت اور آلِ نبیؐ پر ہوئے ظلم وستم سے باخبر کرتی رہی، جواُن سے تعزیت پرسی کےلئے ملنے آتی تھیں۔ اور اس طرح مجلس و ماتم کی بنیاد بھی زینب بنت علی ؑ نے ہی ڈالی۔دمشق میں طویل اسیری سے رہائی کے بعد زینبؑ بھی قافلے کے ساتھ واپس اپنے نانا جان کے مدینہ میں آئی اور یہاں بھی مجالس عزا کا سلسلہ جاری رکھا اور لوگوں کو حق و باطل کی تمیز سکھائی۔ جس سے حکومت کو شدید خطرہ محسوس ہوا اور یزید کے حکم سے زینبؑ کو پھر سے اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ یزید نے مدینہ پاک پر چڑھائی کرکے اس کی بے حرمتی اور واقعۂ حرہ عمل میں آیا۔کہتے ہیں کہ زینب ؑ مدینہ سے نکل کر مصر پہنچیں لیکن زیادہ دن ٹھہر نہ سکیں اور پریشان شہر بہ شہر پھرتی رہیں اور ظلم یزیدبیان کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ آپ پھر شام پہنچیں اور وہیں55برس کی عمر میں62ھ میں انتقال فرمایا۔مورخین نے آپ کے جائے مدفن پر بھی اختلاف کیاہے۔ کہ آیا آپ شام میں دفن ہیں یا مصر میں یا پھر مدینہ میں۔ آپ کا مزار دمشق میں بھی ہے اورقاہرہ میں بھی۔ البتہ زیادہ تر مورخین دمشق میں واقع ’’مزارِ زینبیہ‘‘کو ہی آپ کا اصلی مقبرہ مانتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر پیام اعظمیؔ۔’’ اسلام مٹ گیا ہوتا اگر کربلا نہ ہوتی اور کربلا، کربلا میں ہی دفن ہوگئی ہوتی اگر زینب کبریٰ ؑ نہ ہوتی‘‘۔
شالہار ڈب گاندربل