Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

اُمید کہانی

Mir Ajaz
Last updated: October 8, 2023 1:08 am
Mir Ajaz
Share
17 Min Read
SHARE

بابا مرتضیٰ

میرا کیا قصور ہے! جو آپ میرے آخروٹ کے درخت کو کاٹنے جارہے ہو۔سنئے ذرا سنئے! میرا یہی ایک ذریعہ ہے جس سے میں زندگی کے آخری ایام گزار رہی ہوں۔ بیوہ حاجرہ تحصیل دار صاحب سے مخاطب ہوکر مخلصانہ گزارش کر رہی ہے کہ میرا یہ اخروٹ کا درخت نہ کاٹا جائے۔صرف یہی ایک درخت میری آمدن کا ذریعہ ہے۔مجھے پہلے ہی سماج کے مہذب لوگوں نے الگ تھلگ چھوڑ رکھا ہے اب اگر آپ اور آپ کا محکمہ مجھ سے یہ ذریعہ بھی چھین لے گا تو آپ مجھے در در کی ٹھوکریں کھانے اور بھیک مانگنے پر مجبور کریں گے۔
بیوہ حاجرہ بیگم کی باتیں تحصیل دار صاحب اور انکے ساتھ آئے ماتحتوں کا دل چھلنی کر رہے تھے۔مگر دل پر پتھر رکھ کرمجبور اور لاچار ہوکر کسی طرح وہ یہ کام کسی شور و غل اور ہنگامے کے بغیر سلجھانا چاہتے تھے۔ قانون کے بڑے بڑے حوالے دے کر بیوہ حاجرہ کو وہ مطمئن کرنا چاہتے تھے۔مگر لاچار عورت منت سماجت کرتی رہی کہ یہ اخروٹ کا درخت میرا آج بھی ہے اور میرا آنے والا امید کا کل بھی ۔برائے کرم آپ اسے نہ کاٹ لیجئے گا۔ تحصیل دار صاحب شش و پنج میں پڑگے کہ کیا کروں۔ اِدھر اُدھر ٹہل کر من ہی من میں سوچنے لگا کہ ہاتھ میں لئے گئے کام کو پائیہ تکمیل تک پہنچادوں یا لاچار بیوہ عورت کی امید کو زندہ رکھوں۔ خیال یہ آیا کہ کیوں نہ گاوں کے مکھیہ سے عورت کی تفصیلی جانکاری لی جائے۔ گاوں کا مکھیہ پیش ہوا اور تحصیل دار صاحب مکھیہ کو ایک طرف لے جاکر پوچھنے لگے کہ یہ عورت، جو ہمیں اس اخروٹ کے درخت کو کاٹنے سے روک رہی ہے، کیا یہ سچ مچ میں بیوہ ہے؟ کیا اس کے پاس واقعی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں ہے؟ کیا یہ سماج نے حقیقی معنوں میں الگ تھلگ چھوڑ رکھی ہے؟ مجھے سب سوالوں کا تفصیلی جواب چاہیے ۔
مکھیا نے جواب دیاکہ جناب آپ نے جتنے بھی سوال مجھ سے کئے ہیں ان سب کا جواب میں تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جناب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص اس مہنگائی والے دور میں اخروٹ کےایک درخت پر گزارہ کرسکے، یہ عورت جھوٹ بول رہی ہے۔اسکو اپنے گاؤں اور آس پڑوس کے گائوں والے ضرور مدر کرتے ہونگے تب جاکے اسکا زندہ رہنا ممکن ہے۔ تحصیل دار صاحب مکھیہ کی بات کاٹتے ہوے اس سے کہنے لگے کہ گاؤں کے لوگ امداد کرتے ہونگے یا واقعی امداد کر رہے ہیں۔ بات کو گماہ پھرا کر پیش نہ کرو بلکہ صاف صاف میرے سوالوں کا جواب دو، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے ۔۔جناب والا ایسی بات نہیں میں آپ سے صاف صاف ہی اس عورت کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ جہاں تک میں جانتا ہوں یہ عورت مجھے ناٹک کی اداکارہ لگ رہی ہے۔ ڈرامے باز ہے۔جو جھوٹ بولکر اور منت سماجت کرکے سرکای کام میں رخنہ ڈال رہی ہے۔مگر تحصیل دار صاحب کسی طرح سے بھی مکھیہ کی باتوں سے مطمئن نہ ہوئے مگر مکھیہ کو کہنے لگے کہ چلو ٹھیک ہے جو جانکاری تم نے عورت کے بارے میں دی اس پر سوچا سمجھا جائے گا۔ تحصیل دار صاحب بیوہ حاجرہ کو بلا کر کہنے لگے۔ دیکھیں یہ آپ کا جو اخروٹ کا درخت بے شک بڑا ہے اور آپ کی آمدن کا ذریعہ بھی ہے مگر آپ اس طرف سے دیکھو تو اب یہ سوکھنے جارہا ہے اور اسکی چھال بھی اتر رہی ہے، ایک دو سال میں یہ خود ہی گر جائے گا ۔َ۔سوکھنے کو نہ آتا تو شاید میں اسکے کاٹنے کے احکام واپس بھی لیتا اور أپ کی امید بھی قائم رکھتا مگر اب میں کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔میں بھی مجبور ہوں مجھے بھی اپنے کام میں کوتاہی نہیں برتنی ہے۔
تحصیلدار صاحب! تحصیلدار صاحب! ایسا ظلم نہ کریں مجھ غریب پر، میں کہاں جاؤں کس سے مدد مانگوں ۔مجھ غریب کی کسی سے جان پہچان بھی نہیں۔ ہاں مگر امید ہے کہ میرا رب مجھ سے یہ ذریعہ نہیں چھین لے گا۔وہ جانتا ہے کہ میرا یہی ایک ذریعہ معاش ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں بے بس اور مجبور ہوں ۔صاحب جی میں نے آپ سے اتنی منت سماجت کی ہے برائے کرم آپ اس درخت کو نہ کاٹیئے، واللہ میرا یہی ذریعہ ہے۔ حاجرہ بیگم جذباتی ہوئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تحصیلدار صاحب کے دل میں حاجرہ بیگم کی باتیں نوکیلے تیر کی طرح اُتر رہی تھیں اور آنکھوں سے موتی جیسے آنسوں گر کر دیکھنے سے مانو تحصیل دار صاحب کا دل موم کی طرف پگھل گیا اور اسی اثنا میں تحصیلدار صاحب کے فون کی گھنٹی بجنے لگی اور وہ جیب سے فون نکال کر ایک طرف چل کر فون پہ بات کرنے لگے۔ ہیں کچھ دیر بات کرنے کے بعد وہ اپنے ماتحتوں کی طرف بڑھ کر ڈرائیور کو اشارہ کیا کہ گاڑی نکالیے دفتر میں کچھ اہم کام نپٹانا باقی رہ گیا۔اور جاتے جاتے حاجرہ بیگم سے کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں میں کچھ کرتا ہوں۔اتنے میں ڈرائیور نے تحصیلدار صاحب کے قریب گاڑی لا کر کھڑی کردی۔ تحصیلدار صاحب اپنے کچھ ماتحتوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو کر نکل گئے۔
یہاں حاجرہ بیگم کے ذہن میں بس یہی سوال ہے کہ اس کا درخت نہ کاٹا جائے۔ یہی بوجھ دل میں لئے وہ گھر کی طرف ہمت جٹا کر روانہ ہو رہی ہے اور اپنے آپ سے کہنے لگتی ہے کہ امید پہ ہی دنیا قائم ہے اس لیے میں بھی اپنی امید کو مرنے نہیں دوں گی کیونکہ نا امیدی کفر ہے۔
حاجرہ بیگم کے اخروٹ کے درخت کے قریب میں ہی ایک چنار کا پرانا درخت موجود تھا جہاں جنات کا ایک بہت پرانا اور بڑا کنبہ صدیوں سے رہائش پذیر تھا۔ اس بڑے جنات کے کنبے کا سربراہ حارث نامی جن نے خود بیوہ حاجرہ بیگم کے مرحوم خاوند کے تابع کئ سال گزارے اسلئے اس جنات کے کنبے کی ہمدردی بھی حاجرہ بیگم کے ساتھ ہی منسلک تھی۔وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ حاجرہ بیگم کے اس اخروٹ کے درخت کو کاٹا جائے اور حاجرہ بیگم سے یہ جینے کا سبب بھی چھینا جائے۔وہاں حاجرہ بیگم اپنی امید اللہ سے لگائی بیٹھی اور اپنی امید زندہ رکھی ہوئی تھی کہ میرا رب کوئی اچھا فیصلہ مرے حق میں ضرور دیر سویر کردے گا۔
یہاں جنات کے سربراہ ‘حارث نے تمام کنبے والوں کو اکھٹا کرکے تلقین کی کہ حاجرہ بیگم کے درخت کو کس بھی طرح کسی قسم کی آنچ نہیں آنی چاہئے۔کچھ بھی ہو ہمیں مرحوم کی زوجہ کا یہ ذریعہ أمدن اور ان کی اس جینے کی امید کو پست نہیں ہونے دینا ہے۔مانا کہ انسان ہمیں اپنے سے کم تر سمجھ رہا ہے۔ دکھاوے کی دنیا اور آرائش و آسایش کے سامان کو اپنی ترقی سمجھ رہا ہے ۔مگر حقیقتاً انسان احساس، انسانیت، سچ اور امداد و خیرات کی پٹری سے پوری طرح اتر چکا ہے۔ تم سب نے نہیں دیکھا کہ گائوں کے مکھیہ نے کیسے جھوٹ بولا۔ ۔ایک ہی جگہ رہتے ہوئے بھی بیوہ کے حالات زندگی کے بارے میں کچھ نہ جاننا اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ اب ہمدردی، ایثار، اخوت اور بھائی چارے کا جذبہ انسانوں میں مکمل طور پر فوت ہو چکا ہے۔
مگر میں تم سب کو سربراہ کی حیثیت سے ایک بار پھر اس بات کی تلقین کرتا ہوں کہ ہمیں انسانون کے اس معیار اور مکاری سے اوپر اٹھ کر حاجرہ بیگم کے اخروٹ کے درخت کو بچانا ہو گا۔اب میں اس نیک کام کے لے آج سے ہی بلکہ ابھی سے ہی اپنے کنبے کا ایک دستہ اس درخت کی رکھوالی کے لئے متعین کرتا ہوں جو دن رات اس درخت کی رکھوالی کریگا۔
اگلے روز تحصیلدار صاحب اپنے سرکاری ٹولے کے ساتھ پھر اس اخروٹ کے درخت کو کاٹنے کے لئے آئے تاکہ ہاتھ میں لیا گیا کام وقت پر مکمل کیا جاے۔ اسلئے آتے ہی لکڑ ہارے کو حکم کیا کہ وقت ضائع کئے بغیر ہی اس اخروٹ کے درخت کی شاخ تراشی کی جائے ۔لکڑہارے نے حکم کی اطاعت میں اپنی تیز دھار والی کلہاڑی اپنی پھٹی میلی قمیض کے گلے کی پچھلی طرف رکھکر چڑھنے کی تیاری کی۔ ایک دو قدم چڑھکر پھسلنے لگا۔ دراصل جنات کا جو دستہ درخت کی پہرےداری میں لگایا گیا تھا وہ حرکت میں آگیا تھا۔ وہی دراصل جنات لکڑ ہارے کو پیر پکڑ کر واپس نیچے کھینچ رہے تھے۔ لکڑ ہارا یکے بعد دیگرے کوششیں کرتا رہا مگر ہر بار وہ نیچے پھسلتا جارہا تھا۔۔وہ بے چارہ چلاتا رہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی مخلوق میرے دونوں پیروں کو پکڑ کر نیچے کھینچ رہی ہے ۔۔مگر اس بے چارے کی بات کا کون بھروسہ کرتا اور الٹا اسکو آلسی، نا اہل اور ناتجربہ کار کے کڑوے طعنے سننے پڑے۔ لکڑ ہارا بیچارہ دنگ رہ گیا کہ یہ آج میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔وہ بے چارہ شرمندہ ہوکر سرخم ہوا کہ یہ کام مجھ سے نہ ہونے والا ہے۔ اب محکمے کے سارے لوگ یہی سمجھ بیٹھے کہ لکڑ ہارہ سچ مچ میں ہی اس کام کے لئے نااہل ہے۔
اسلئے اب محکمہ کے ملازموں نے مشورہ یہ لیا کہ شاخ تراشی درخت کو مشین سے جڑوں سے اکھاڑنے کے بعد ہی کی جائے ۔جونہی مشین منگوائی گئ اور ڈرائیور کو کام بتایا گیا اور دکھایا گیا تو ڈرائیور وقت ضائع کئے بغیر ہی مشین کو درخت کے کچھ قریب لے آیا۔وہاں بیٹھے جنات پھر حرکت میں آگئے اور محکمے کے ملازم بھی کچھ قریب آکر نظارہ دیکھنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ مشین جونہی درخت کے نیچے سے مٹی ہٹانے لگی تو جنات نے اسکا رخ بدل کر اوپر اٹھاکر پاس میں کھڑے محکمے کے لوگوں کے سروں پر پھیر دیا۔ سب لوگ چلاتے رہے ارے! ارے! یہ مشین کا ڈرائیور کہیں پاگل تو نہیں ۔ کوئی بولا شاید شراب پی کر آیا ہوگا۔ اسی بیچ ہر ماتحت ملازم اپنے سے بڑے ملازم کی دھول صاف کر رہا تھا۔اپنے چہرے پر لگی دھول کو بھول کر دوسروں کے چہرے پر لگی دھول مٹی اور گندگی کو دیکھکر ہنس بھی رہا تھا اور جتا بھی رہا تھا کہ میں دوسروں کی مدد میں ہمیشہ پیش پیش رہتا ہوں۔ وہیں ڈرائیور مشین کی سیٹ پر دھنگ رہ کر لوگوں کے کسے گئے طعنے سن کر اور زیادہ پریشان ہوا اور من ہی من میں سوچتا رہا کہ آخر یہ کیسے ہوا۔ آج تک تو مجھ سے کبھی ایسی بھول نہ ہوئی۔
مشین کے ارد گرد جمع جنات خوشیاں منا رہے تھے اور ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ دیکھو یہ ہے آج کل کے انسانوں کا حال۔ جہاں ان کو ابھی ایک دوسرے کی چہرے پہ لگی گند اور دھول صاف نظر آرہی تھی وہیں یہ دوسروں کی غلطیوں ، گناہوں اور عیبوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جیسے ان کو ابھی اپنے چہرے پر لگی دھول اور گند نظر نہیں آرہی ہے ویسے ہی ان کو اپنی ساری عمر یہی وہم اور گماں رہتا ہے کہ صرف ہم ہی نیکوکار ہیں باقی سارے بدکار۔ اتنے میں ایک آدمی ڈرائیور کے قریب آکر غصے سے چلاتا ہوا کہتا ہے کہ تم کیا منحوس کی طرح مشین میں بیٹھے ہوئے ہو۔ ارے! تم نے تو ہم سب کو مار ہی ڈالا تھا۔ چلو اب کیا دیکھ رہے ہو سارا دن یہی تماشہ کرنا ہے۔ ہمیں اور بھی کام نپٹانے ہیں۔ چلئے جلدی جلدی کرکے اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ ددیجئے ۔ڈرائیور کچھ ہوش میں آیا اور پھر سے کھدائی شروع کرنے لگا ۔ اب کی بار جنات نے ڈرائیور کو سبق سکھانے کا مشورہ کیا۔ ان میں سے ایک جن نے سانپ کی شکل اختیار کی اور ڈرائیور کی ٹانگوں کے قریب نمودار ہوا ۔مشین کا ڈرائیور سانپ کو دیکھ کر مشین چالو چھوڑے کھڑکی سے کود پڑا۔وہاں کھڑے سارے لوگ ڈرائیور کی حرکت دیکھ کر ہنس پڑے۔ڈرائیور بیچارہ نیچے چلاتا رہا کہ مشین میں سانپ ہے! مشین میں سانپ ہے! تو کچھ لوگ یقین کر کے مشین کی طرف بڑھنے لگے۔ ہمت کر کے ایک دو آدمی مشین میں چڑھے تو وہاں کچھ بھی ان کو نظر نہ آیا۔وہ نیچے آکر سب لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ ڈرائیور بالکل یا تو نشہ کر کے آیا یا تو سراسر ذہنی مریض ہے۔
اتنے میں تحصیلدار صاحب کسی دوسرے کام کو نپٹا کر وہاں پر پہنچ گئے۔پہنچنے کے بعد سارا کچھ واقعہ دریافت ہوا تو من ہی من میں سوچا کہ یہ حاجرہ بیگم کی امید کا سارا کارنامہ ہے ورنہ کیسے یہ ممکن ہے کہ ایک لکڑہارا بھی درخت پر چڑھنے میں ناکام ہوتا اور اب حد یہ ہے کہ مشین بھی ناکام ہوئی۔ اس درخت کو اکھاڑنے سے روکنے میں یہ ضرور حاجرہ بیگم کی دعاؤں نے رنگ لایا ہے اور اللہ نے حاجرہ بیگم کے بدلے کسی مخلوق کو یہ کام سونپ دیا ہے کہ وہ حاجرہ بیگم کے اس درخت کی رکھوالی کرے۔ اور اب تحصیلدار صاحب کو یہ یقین ہوا ہے کہ بے شک جو دنیا ہے وہ امید پہ ہی قائم ہے اور اگر انسان اپنی امید حقیقی معنوں میں زندہ رکھے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔
اس لیے آخر پر تحصیلدار صاحب نے اس درخت کو کاٹنے سے منع کیا اور اس درخت پر موٹے حروف سے لکھی گئی ” امید” نام کی ایک تختی لگانے کے احکامات صادر کئے۔

���
رے کاپرن، شوپیان، کشمیر
موبائل نمبر؛7889379873

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
اسرائیلی بربریت جاری حملوں میں مزید 120 فلسطینی جاں بحق
بین الاقوامی
اقوامِ متحدہ کی مسئلہ فلسطین پر کانفرنس امریکہ کاممالک سے شرکت نہ کرنے پر زور
بین الاقوامی
لاس اینجلس میں احتجاج کرنے والے400 افراد گرفتار
بین الاقوامی
اسرائیل ایران پر حملے کیلئے پوری طرح تیار
بین الاقوامی

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?