فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کا یہ بیان کہ گولیوں سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، کشمیر کی حقیقی صورتحال کےتئیں ایک مثبت سوچ کی جانب اشارہ کر رہا ہے او رسیاسی حلقوں کی طرف سےنہ صرف اسکا خیر مقدم کیا جا رہا ہے بلکہ یہ اُمید بھی قائم کی جارہی ہے کہ جنرل موصوف کا یہ احساس اُن قوتوں کو اپنے مؤقف میں نرمی لانے کےلئے آمادہ کرسکتا ہے، جو جموںوکشمیر میں آگ و آہن کے کھیل کو وسعت دینے کےلئے زمین و آسمان ملانے کے حامی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران جب سے برصغیر ہند تقسیم ہوا ہے جموںوکشمیر کے لوگوں کو کبھی سرحدوں پر اور کبھی سرحدوں کے اندر جس آگ و آہن کا سامنا رہا ہے وہ تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے۔ خصوصیت کے ساتھ1990کے بعد مسلح ٹکرائو اور تصادم آرائیوں اور پھر عوامی ردعمل میں ہلاکتوں کا جو نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ہے اُس نے اس خطے کو جہنم میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، اور اس پر طرہ یہ ہے کہ بھارت او رپاکستان دونوں جانب سے اس پر سیاسی کھیل کھیل کر ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہیں جو پون صدی سے چلے آرہے ہیں اس مسئلے کے مستقل حل میں سب سے بری روکاوٹ بن گیا ہے۔ یہ ایک اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس وقت جنرل بپن راوت کا یہ بیان سامنے آیا ہے اُسی کے آس پاس پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجواہ کی طرف سے بھی حوصلہ افزاء باتیں سننے کو ملی ہیں، جن میں انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر سمیت تنازعات کا حل صرف پُر امن بات چیت میں مضمر ہے اور وہ اس سمت میں آگے بڑھنے کےلئے ہر وقت تیار ہیں۔ دونوں فوجی سربراہان کے بیانات کا بین السطور جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں مسلح تصادم اور ٹکرائو کو برصغیر کے لئے نقصان رساں تصور کرتے ہیں اور پُر امن طور طریقوں سے مسائل کو حل کرنے کے متمنی ہیں۔ ایسی سوچ کے ہوتے ہوئے اگر آئے دن حدمتارکہ پر تصادم آرائیاں دیکھنے کو ملیں اور کشمیر کے اندر ہلاکت خیز صورتحال شدت اختیار کرے تو ایسا کیوں ہے؟ظاہر ہے کہ اس کے پس پردہ مختلف سیاسی عوام کار فرماء رہے ہیں ، جو برصغیر کے سیاستدانوں کی مجبوریاں رہی ہیں۔ اب چونکہ دونوں ممالک کی فوجی قیادت میں یہ سوچ پنپ رہی ہے تو یہ انکار فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ممالک کی سیاسی قیادت اور پالیسی سازوں کو اس حوالے سے بیدار کرنے کی کوشش کریں۔اگر سیاسی قیادت میں یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ پر امن مذاکرات کے ذریعہ ہی مشکلات کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ریاست کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر میں اسکے حق میں ایک مثبت ماحول تیار نہ ہو۔ حقیقت میں جموںوکشمیر کے غالب سیاسی حلقے، جن میں مین اسٹریم بھی شامل ہیں اور مزاحمتی خیمے بھی، ہمیشہ پُر امن مذاکرات کی وکالت کرتے آئے ہیں ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ایسی کوششیں صرف وقت گذاری کےلئے کی جائیں تو ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچنے کے بجائےنقصان کا ہی اندیشہ ہے۔ ملک بھر کے میڈیا کے توسط سے اور سیاست دانوں کی جانب سے فی الوقت یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر کی نئی نسل انتہا پسندی کی جانب کشش محسوس کر رہی ہے اور یہ بالآخر ان کے لئے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن اگر اُن سے یہی سوال کیا جائے کہ ان حالات کو تبدیل کرنے کےلئے کیا کبھی کوئی سنجیدہ اور پُر خلوص کوشش دردست لی گئی ہے تو یقینی طور پر جواب نفی میں ہوگا۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی ایام میں اُس وقت کے وزیراعظم نے ’’ آسمان حد ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر پُر امن مذاکرات کی بات کی تھی لیکن بعد کے حالات میں ایسی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ اس ساری صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جو بھی اقدام کیا جائے اُس میں خلوص کی کار فرمائی ہو اور ایسا ہونے کی صورت میں مثبت نتائج کے امکانات پیدا ہونے سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا۔لہٰذا دونوں ممالک کے فوجی سربراہان کو اپنی سیاسی قیادت میں تصاد م آرائیوں سے ہو رہے نقصانات کے احساس کو اُجاگر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو برصغیر کے کروڑوں عوام نہ صرف انکے شکر گزار رہینگے بلکہ خطہ میں امن و امان کی فضاء پیدا ہو کر کروڑوں لوگوں کو غربت اور جہالت سے نکلنے کا راستہ مل جائے گا۔