جناب ِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔آپؓ کی تعلیم و تربیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسی جلیل القدر ہستی کے ذریعہ ہوئی۔آپؓحضرت عائشہؓ کی پیدائش سے چار سال قبل ہی اسلام قبول کرچکے تھے ۔چھوٹی عمر میں ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود ِاقدس سے منسلک ہوکر حضرت عائشہ ؓ کا وجود ایک با برکت وجود بن گیا اور آپ مجسم نور بن گئیںاور دنیائے جہاں کا چاند آپؓ کی زندگی کی رونق بن گیا ۔
آپؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حرکت و سکون کو غور سے دیکھا اور اُن انمول ہستی کی قربت سے بھرپور فایدہ اٹھایا ۔اپنے آپ کو رسول اللہ ؐ کے رنگ میں رنگین کرلیا ۔تقویٰ و طہارت ،نیکی اور علم میں سب سے اعلیٰ مقام حاصل کیا ،یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،نصف دین عائشہؓ سے سیکھو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج ِ مطہرات میں سب سے زیادہ محبت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کرتے تھے اور اس بات کا علم حضرت عائشہؓ کو بھی تھا اور ان کے دل میں یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ہی قرب اور آپ ؐکی ایسی ہی محبت حاصل کروں اور آپ ؐ کی ایسی ہی خدمت کروں جیسی حضرت خدیجہ ؓ نے کی تھی۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں اگرچہ میں نے حضرت خدیجہ ؓکو نہیں دیکھا مگر مجھ کو جس قدر اُنؓ پر رشک آتا ،کسی اور ازواج مطہرہ پر نہیں آتا،جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خدیجہ ؓ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے حضورؐ کی خدمت میں نہایت ادب سے عرض کیا ۔یا رسول اللہؐ ! آپ کو خدا تعالیٰ نے بہت سی بیویاں عطا کی ہیں پھر بھی آپؐ اُنؓ کو یاد کرتے ہیں جو پہلے فوت ہوچکی ہیں ۔یہ سن کر آپ ؐ آبدیدہ ہوگئے اور فرمانے لگے ۔اے عائشہؓ! خدیجہؓ مجھ پر اُس وقت ایمان لائی جب سب نے میرا نکار کیا اور اس نے اُس وقت میری تصدیق کی جب سب نے میری تکذیب کی اور اپنے مال سے میری مدد کی جب سب نے مجھے چھوڑ دیا اور خدا نے اس کے بطن سے مجھے اولاد کی نعمت عطا کی۔
اس رشک کے باوجود حضرت عائشہؓ کو حضرت خدیجہؓ کا بے حد احترام اور آپ ؐ سے بے حد پیار تھا کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کو ہر اُس وجود سے محبت تھی جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیار کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی حضرت عائشہؓ کو بہت پیار تھا اور فرماتی تھیں کہ میں نے کسی کو حضرت فاطمہؓ سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکل و صورت اور چال ڈھال میں مشابہ نہیں دیکھا ۔اُدھر حضرت فاطمہؓ کو بھی حضرت عائشہ ؓ سے بے حد لگائو تھا اور ان سے ہر بات کرلیتی تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی بات پہنچانی ہوتی تو وہ حضرت عائشہؓ کے ذریعہ پہنچاتی تھیں۔آپؓ کی راز دار بھی تھیں ۔حضرت خدیجہ ؓ کے بارے میں بہت ساری روایتیں حضرت عائشہؓ نے ہی بیان فرمائی ہیں ۔مثال کے طور پر قرآنی وحی کے ابتدائی حالات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ ؓ کا تسلی دینا کہ خدا آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا ۔آپؐ تو نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں وغیرہ وغیرہ۔اور پھر آپ ؐ کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس جانا ،ان سب کی راویہ حضرت عائشہؓ ہی ہیں۔
رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی زندگی ،آپ ؐ کی سیرت اور آپ ؐ کے اخلاق فاضلہ کا حضرت عائشہؓ نے گہرا مطالعہ کیا تھا اور بہت قریب سے آپؐ کو دیکھنے کی سعادت ملی تھی اور بہت چھوٹی عمر میں ہی خدا تعالیٰ نے آپؓ کو بہت ذہانت عطا کی تھی۔چنانچہ جب ایک شخص نے آپ سے رسول کریم ؐ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو آپؓ نے بے ساختہ جواب دیا: کان خلقہُ القرآن یعنی آپ ؐ کے اخلاق قرآن کریم کی تعلیم کی عین تصویر ہیں۔آپؓ کا جواب کتنا سچا اور کتنا جامع تھا ۔
حضرت عائشہؓ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے اُتار و چڑھائو دیکھ کر آپ کی دلی کیفیت کا اندازہ کرلیتی تھیں ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب آسمان پر بادل گھر آتے تو آپؐ کا رنگ بدل جاتا اور آپؐ کبھی گھر میں داخل ہوتے اور کبھی باہر نکلتے ،کبھی آگے آتے اور کبھی پیچھے ،اور جب بادل برس جاتا تو آپ ؐ کی گھبراہٹ ختم ہوجاتی ۔فرماتی ہیں کہ یہ بات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے پہچان لیتی تھی۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار میں نے رسول اللہؐ سے اس گھبراہٹ کا سبب پوچھا تو آپؐ نے فرمایا :اے عائشہ!یہ اس لئے ہے کہ کہیں یہ بادل قوم عاد پر عذاب لانے والے بادل جیسا نہ ہو۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت عائشہؓ کی قربت عزیز تھی ،علالت کے ایام میں آپؐ نے دوسری ازدواج مطہرات سے اجازت لے کر آپ ؐ نے حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں قیام کرنے کا فیصلہ فرمایا ۔آخری گھڑیوں میں حضرت عائشہؓ ہی آپ ؐ کا ہر لحاظ سے خیال رکھتیں ،چنانچہ حضرت عائشہ ؓ ہی کی گود میں سر مبارک رکھے آپؐ اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔رفیق الاعلیٰ رفیق الاعلیٰ کہتے ہوئے اپنی جان اللہ کے سپرد کردی۔کیا شان ہے حضرت عائشہؓ کی کہ اُن ؓ کے ہی حجرہ کو آپؐ نے آخر ی آرام گاہ بنایا ،اس چھوٹے سے حجرہ میں پھر خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے یار غار کے پہلو میں جا سوئے ۔اب اس حجرہ میں ایک ہی قبر کی جگہ باقی تھی جس کی ہر پہلو کی حقدار حضرت عائشہ ؓ تھیں ۔دنیا جہاں کی دولت اورخوشیوں کے مقابلہ میں آپؓ اس حق کو کسی کے لئے قربان نہیں کرسکتی تھیں بلکہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں ۔قربان جایئے اس عظیم ہستی پر جب حضرت عمررضی اللہ عنہ خلیفہ وقت نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ اگر آپؓ اجازت دیں تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں لیٹ جائوں۔حضرت عائشہ ؓ نے اپنی ساری ترجیہات کو خلیفہ وقت کی آرزو پر قربان کردیا ۔اللہ تعالیٰ حضرت عائشہ ؓ پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔آمین
انسان کی آرزوئوں اور تمنائوں کی انتہا نہیں ۔بہت مشکل ہے کہ انسان یہ طے کرے ،اس کی سب سے بڑی آرزو کیا ہے اور اس آرزو کی انتہا کیا ہے۔میں خدا سے مانگو ںتو کیا مانگوں۔یہی خیال حضرت عائشہؓ کے دل میں بھی پیدا ہوا ۔چنانچہ آپؓ نے ایک مرتبہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، یا رسول اللہؐ! میں جانتی ہوں کی اللہ تعالیٰ ہماری بہت ساری دعائوں کو سنتا ہے لیکن وہ سب سے قیمتی سب سے نایاب اور مقبولیت کی و ہ گھڑی جس کو لیلتہ القدر کہتے ہیں ،جو ہزاروں راتوں سے قیمتی اور سب مقبول گھڑیوں سے مقبول گھڑی ہے ،اگر وہ خوش قسمتی سے مجھ کو نصیب ہو جائے تو میں اپنے پیارے خدا سے کیا مانگوں ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔اے عائشہؓ! اگر وہ خوش بخت گھڑی تجھ کو میسر آجائے تو یوں دعا کرنا اللہُمّہ اِنَکَ عَفُوُّ تُحِبُّ العَفوَفَا عفُ عَنّیِ یعنی اے میرے پیارےخدا تو مجسم عفو ہے اور عفو کو پسند کرتا ہے تو مجھے بھی معاف کردے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بستر مرگ پر اسی مفہوم کی دعا کی تھی ۔اے خدا میں تجھ سے اپنی کسی نیکی کا بدلہ نہیں چاہتا ۔پس تو میری کسی کوتاہی کی باز پرس نہ کیجئے ،تو بس مجھے بخش دے۔