اٹھوبیٹا کالج نہیں جانا ہے بہت دیر ہو جائے گی، بیٹا اٹھو۔
ماں آج میرا دل نہیں کر رہا ہے کالج نے کا۔آج میں گھر میں ہی رہوں گی ،پلیز ماں ۔۔۔
شیما اور اس کی ماں انجم ابھی باتیں ہی کر رہی تھیں کہ اچانک سے شیما کا چھوٹابھائی یونس روتے ہوئے کمرے میں آیا۔
یونسـ:۔ماں مجھے ساحل نے مارا ۔وہ سبھی بچوں سے کہہ رہا تھا کہ میری ماں اچھی عورت نہیں ہے اور سبھی بچے اب میرے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتے۔یہ سن کر انجم کی آنکھوں میں آنسوں آئے اور اُس نے یونس کو اپنے سینے سے لگالیا ہے۔شیما کو یہ سب سن کر حیرانگی نہیں ہوئی کیوںکہ اس کو اس بات کا سامنا روز کرنا پڑتا تھا ۔اسی لیے وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانا ڈھونڈتی رہتی تاکہ وہ گھر میں ہی رہے۔
کچھ دیر بعد ہی اُن کے گھر میں وہ آدمی آیا جس کی وجہ سے گاؤ ں کے سبھی لوگ اس کی ماں کو غلط سمجھتے ہیں۔شیما اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑی دیکھ رہی ہے۔
انجم:۔اسلام علیکم کیسے ہیں آپ؟۔
آدمی:۔وعلیکم اسلام ،میں ٹھیک ہوں۔
شیما نے یہ سب کچھ بہت بار دیکھا ہے۔اُس آدمی نے اس کی ماں کو ایک بیگ تھما دیا اور دروازے سے ہی واپس چلا گیا۔اس بیگ میں کیا ہوتا ہے وہ شیما کو پتا نہیں ہوتا۔ اس نے بہت بار چاہا کہ وہ ا س بات کا ذکر اپنی ماں سے کرے لیکن یہ سوچ کر ٹال دیتی کہ ماں کچھ برا نہ مان لے اور یہ نہ سمجھے کہ میری بیٹی مجھ کو شک کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔
انجم:۔بیٹا میری تمنا یہی ہے کہ تم خوب پڑھو لیکن بیٹا تم کالج روز کیوں نہیں جاتی ۔
شیما:۔ماں جب میں کالج کے لیے نکلتی ہوں تو گاؤں کے لوگ مجھے بُری نظروں سے دیکھتے ہیںاور آپس میں کچھ باتیں بھی کر تے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میںروزکا لج نہیں جاتی ہوں۔
انجم:۔بیٹا سب ٹھیک ہو جائے گا ۔
ایک روز شیما گھر میں اکیلی تھی اچانک اس آدمی نے دروازے پر دستک دی۔ اس نے روز کی طرح ایک بیگ دیا اور دروازے سے ہی واپس چلا گیا۔ شیما نے جب وہ بیگ کھولا تو دیکھا اس میں راشن کیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ہیں ۔وہ آدمی اب اس کی نظروں میں ایک نیک آدمی بن گیا۔ جب اس کی ماں گھر آئی تو اُس نے اپنی ماں سے اس آدمی کا ذکر کیا۔انجم نے اس کو بتاتا کہ دراصل وہ ایک ادارے سے تعلق رکھاہے،جو غریب لوگوں کی مدد کرتا ہے۔لیکن بیٹا لوگ یہ سب نہیں سمجھتے ۔ لوگوں کا نظریہ الگ ہے۔لوگ یہ کبھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ آخر ماجرا کیا ہے
یہ دنیا کا دستور ہے کہ غربت انسان کو اپنے ہی شہر میں ایسا اجنبی بنا دیتی ہے کہ لوگ اُسے پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔رشتہ دار غریب ہو تو لوگ وہاں جانا پسند نہیں کرتے لیکن کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرے گے کہ کیا ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے یا نہیں،یوں تو لوگ اپنی شان بڑھانے کے لیے بڑی بڑی محفلوں میں اپنے نام کے اعلان کروا کر بھاری بھاری چندے دیں گے لیکن اپنے گلی محلے میں اگر کوئی سفید پوش ہے کوئی مفلس ہے غریب ہے، تو اس کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔غریب پر احسان کرو کیوں کہ غریب ہونے میں وقت نہیں لگتا۔
���
محلہ توحید گنج بارہمولہ کشمیر