گزشتہ مہینے میں سری نگر پارلیمانی انتخابات انتخابات کے وقت کشمیر ماتم کد ے میں تبدیل ہو ا کہ ا س روز آٹھ جنازے اُٹھے ، درجنوں نوجوان زخمی کئے گئے اور متعد مقامات پر توڑ پھوڑاور گرفتاریاں ہوئیں۔ آخر پر سابق وزیراعلیٰ داکٹر فاروق عبداللہ کو چار فی صد ووٹ لے کر منتخب قراردیا گیا۔ا نہوں نے ا س موقع پر حسب سابق دفعہ ۳۷۰ کے حوالے سے حسن ِغم خواری کی ۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے کرم فرما سیاست دانوں کوا کثر دفعہ ۳۷۰ کا دورہ پڑجاتاہے ۔ جب یہ اقتدارمیں ہوتے ہیں تو اس بارے میںچپ کاروزہ ہی نہیں رکھتے بلکہ اس آرٹیکل کو روندھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور جب کرسی کسی اور کسی اور کی تحویل میںہو تو انہیں اس کی یاد بہت ستاتی ہے ۔ یہ روزاول سے این سی کا طریقہ کار رہا کہ جب انہیںلگاکرسی کھسک رہی ہے تو دفعہ ۳۷۰ کی راگ چھیڑی، اٹونومی کا شور مچایا، ۵۳ کی پوزیشن پر مر مٹنے کی قسمیں کھائیں،اپنا مطلب نکل گیا تو لوگوں کو پہچانتے ہی نہیں۔ ان کے مورث اعلیٰ نے خود اعلانیہ کہا کہ دفعہ ۳۷۰ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں جس میں ترمیم و تنسیخ نہیں کیا جاسکتی۔ یہی بات اگر کھل کر بھاجپا کہتی ہے کہ اس دفعہ کو ہٹادو تو این سے کس منہ سے اس پر چوٹ کر تی ہے ؟ حالانکہ گاؤ کشی کی ممانعت سے لے کر رام مندر کی تعمیر اور یکساں سول کوڈ کے نفاذتک تاحال بی جے پی اپنا کوئی بھی ہدف پوار نہ کر سکی چاہے یہ اقتدار میں آئی یا اپوزیشن میں بیٹھی کیونکہ الیکشن تقریر کرنا اور عملی طور کچھ کر دکھانے میںزمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ پریوار دفعہ سہ طلاق اور تین سو ستھر کو ووٹ بنک سیاست کا ہتھیار بناکر چل رہی ہے ۔ البتہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے اپنے حکمرانوں نے اس دفعہ کے بخیئے اُڑائے کہ آج وزیراعظم ، صدر ریاست کے منصب ہی قصہ ٔ پارینہ نہیں بلکہ ہمارے آبی وسائل پر این ایچ پی سی قابض ہے اور ہماری بیروکریسی بشمول پولیس غیر ریاستی حضرات تعینات ہیں۔ ہمارے سیاسی کرم فرماؤں کے پاس کوئی عوامی منڈیٹ نہیں مگر یہ پھر بھی باتیں بڑی بڑی کر نے نہیں چوکتے ۔
مجید مجروح۔۔۔آلو چی باغ سری نگر