بلال احمد پرے
ہر سال5ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ یہ دن ہندوستان کے دوسرے صدر اور ممتاز فلسفی اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن کی یوم پیدائش کے اعزاز میں منایا جاتا ہے ۔ یہ روایت 1962ء میں اس وقت شروع ہوئی جب ان کے طالب علموں نے ان کی سالگرہ منانے کی درخواست کی، لیکن اس کے بجائے انہوں نے اس دن کو ملک بھر کے اساتذہ کے اعزاز کے لئے وقف کرنے کا نیک مشورہ دیا ۔یہ اسی مشورہ کی حقیقی شکل تھی کہ ان کی سالگرہ کو اساتذہ کی عزت کے دن کے طور پر منایا جائے نہ کہ ان کی اپنی سالگرہ منائی جائے ۔ تاکہ یہ خاص دن ملک کے اندر ان تمام اساتذہ کی محنت کو پہچاننے کے لئے استعمال کیا جائے ۔ جو محنت، لگن اور دلچسپی سے ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی خدمات سر انجام دیں رہے ہیں ۔ اس طرح سے ملک کے مستقبل کو تعلیم دینے اور تشکیل دینے میں اساتذہ کے اہم کردار کو تسلیم کیا جا سکے ۔
یہ آپ کی بلند خیالی، عظیم نظریہ، تدریسی پیشہ کے لئے غیر معمولی احترام، معاشرے کی تشکیل کے لئے تعلیم کی طاقت پر ان کا پختہ یقین اور اساتذہ کی خدمات کا احترام کرنے کی دلی خواہش تھی ۔ انہوں نے ایک مثالی فلسفی، مدبر اور معلم کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں اور ان کی یوم پیدائش ذہنوں کو ڈھالنے اور ایک بہتر معاشرے کو فروغ دینے میں اساتذہ کے اہم کردار کو پہچاننے کا ایک طریقہ ہے ۔
آپ درس و تدریس کے لئے اس قدر جذبہ رکھتے تھے کہ اپنی زندگی بھر تدریس اور فلسفے میں ہمیشہ گہرائی کے ساتھ ڈوبے رہیں ۔ ان کا پختہ یقین تھا کہ تعلیم معاشرتی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے اور اساتذہ ذمہ دار شہری بنانے کی بنیاد ہیں ۔ انہوں نے لوگوں کو اساتذہ کی انمول شراکت کو تسلیم کرنے کی ترغیب دی جو ان کے خیال میں ملک کے بہترین دماغ ہونے چاہئیں ۔
یہی وجہ ہے کہ 5 ستمبر کو ان کی سالگرہ کے بجائے ان کی دلی خواہشات کے احترام میں یوم اساتذہ کے طور پر قرار دیا گیا ہے ۔ اس دن کوملک میں اساتذہ کے لیے منانے اور ان کی تعریف کرنے کا دن بنایا گیا ہے ۔ حالانکہ پیراڈک لیبر فورس سروے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک میں اس وقت کل ملا کر خواندگی کی شرح 80.9 فیصدی ہے جب کہ جموں و کشمیر یو ٹی کی خواندگی کی شرح 82 فیصدی ہے، جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ تعلیم و تدریس ایک معزز اور قابل احترام پیشہ ہےاور استاد کے منصب کو اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔ اس مقدس پیشہ کے فن کے لیے شوق و زوق کا ہونا ضروری ہے ۔ اس میں فطری صلاحیت کو پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور منصب ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے توجہ، محنت و مشقت لازمی ہوتی ہے ۔ اس طرح معلم کے تجربات میں مزید اضافہ ہوتے ہوئے بہترین نکھار آجاتا ہے، جب وہ تدریسی خدمات انجام دینے چلیں تو طلباء اس سے خوب مستفید ہو جائیں اور وہ خود بھی علمی و روحانی لذت کو محسوس کر سکیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ استاد ہی قوم کی تعمیر کا معمار اور اخلاق کا مینار ہوتا ہے ۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس بھروسے کو کھونے نہ دیں اور قوم کو جو ان سے توقعات وابستہ ہے انہیں برقرار رکھنے کی پوری کوشش کریں ۔ استاد کے جذبہ، شوق اور گہرائی سے انجام دی جانے والی تدریسی عمل سے تو تعلیم کے معیار کے بڑھنے کی امید واقعی ممکن ہے اور طلباء کا بھی مستقبل روشن ہو سکتا ہے ۔ تعلیم و تربیت سے وابستہ لوگوں کو اپنے اندر ان تمام اوصاف کو جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ایک کامیاب اور بہترین استاد بننے کے لئے درکارہے ۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کی طرح سماج کے سبھی اساتذہ کرام میں یہ اوصاف لازمی ہونے چاہئے ۔
(۱) قابلیت۔ ایک معلم کو اپنے مضمون میں ماہر ہونا چاہئے اور وہ اپنے مضمون خاص میں اس فن کو بخوبی انجام دینا جانتا ہو ، امکانی حد تک اس سے علم میں کمال حاصل ہو، کسی ایک خاص مضمون میں مہارت و دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ طلاب کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرنا جانتا ہو، بچوں کو پڑھائی جانے والی کتاب کا مطالعہ خود بھی کر کے آیا ہو ۔ (۲) ذہانت۔ ایک معلم کا ذہین ہونا ضروری ہے ۔ اس کی یاداشت غیر معمولی ہو، تدریسی عمل کے دوران معلم کو غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہیے، جس زبان میں وہ طلباء کو پڑھا رہا ہو، اُس زبان پر اس سے مکمل دسترس ہو، اور وہ سامنے بیٹھے طلباء کےذہنی سمجھ بوجھ کی سطح کے مطابق ہو ، ربط کے ساتھ ساتھ باثر و ترتیب میں ہو، طلباء سے سوالات پوچھنے کا موقع دینا جانتا ہو، اُسے تدریسی عمل کو دو طرفہ کا سلسلہ بنانا آتا ہو، کسی معنوی یا غیر محسوس حقیقت کو حسی مثال کے ذریعے سمجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔(۳) دلچسپی۔ ایک کامیاب استاد پڑھانے کی طرف دلچسپی رکھتا ہو اور مضمون کے ساتھ ساتھ طلباء میں بھی دلچسپی پیدا کرنا جانتا ہو ، صرف وقت کے گزرنے کی طرف میلان نہ رکھتا ہو، چھٹیاں کاٹنے کا زیادہ عادی نہ ہو، غیر ضروری کام پر تدریسی عمل کو مؤخر کرنے والا نہ ہو، طلباء کے ذہن میں اپنے مضمون کی طرف لگن، شوق اور اہمیت پیدا کرنا جانتا ہو۔(۴) شفقت ۔ ایک کامیاب استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں سے بے حد محبت، شفقت، رحم دل اور ہمدرد ہو، وہ انہیں باپ سے بڑھ کر پیار کرتا ہو ۔ خصوصاً اپنے مخالف جنس کے ساتھ والدین سے بڑھ کر رویہ رکھتا ہو، مار پیٹ کے بجائے نصیحت سے کام لیتا ہو، غصے پر قابو پا نے والا،بَد زبانی سے دور بلند اخلاق و نرم مزاجی کا مالک ہو، طلباء کو صحیح تربیت کرنے والا ہو اور ان کے سامنے اپنی ذات کو بطور عملی نمونہ پیش کرنے والا ہو ، بچوں کو خوبصورت اور پیار بھرے لہجے سے میٹھے بول بولنے والا ہو۔ (۵) مرضی۔ ایک کامیاب استاد تدریس کے میدان میں اپنی مرضی سے اس پیشہ کو اختیار کرکے آیا ہو ۔ ایسا نہ ہو کہ بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر کے صرف پوائنٹس کے حصول کے لئے موقع پرستی کے تحت اس مقدس پیشہ کو اختیار کیا ہو، ایسے اساتذہ کے نہ صرف ذہن بلکہ روح بھی بے قرار رہتی ہے ۔ اس پیشہ کو مقدس جاننے والے اساتذہ ہی اس کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں اور وہی آگے جا کر قوم کی تعمیر کے معمار اور اخلاق کے مینار ثابت ہوتے ہیں ۔ خلاصہ کلام یہی ہے کہ ہمیں صدق دل سے یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اندر ان تمام اوصاف کو پیدا کریں جو کامیاب اُستاد ہونے کے لئے مطلوب ہیں ۔ انہی اوصاف کے تحت ہم اپنے تعلیمی اداروں کا معیار مزید بلند کر سکتے ہیں ۔ ہمیں سبھی اچھے اساتذہ کے کردار کو اُجاگر کرنا چاہئے تاکہ اُن کے حوصلے ہمیشہ بلند رہیں ۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کا نظام بہتر بنانا ہوگا، انہیں رسمی ہونے کے ساتھ ساتھ جدید طرز اور نئی قومی تعلیمی پالیسی سے ہم آہنگ بنانا چاہئے ۔ تمام انسانوں کو انسانیت کے مقدس پیغام سے آراستہ کرنا چاہئے اور ملک کی سالمیت، بھائی چارگی، ترقی، خوشحالی، بہبودی اور امن کے راہ کو ہموار بنانے میں گامزن ہونا چاہئے ۔
رابطہ۔ 9858109109