ماجد مجید ،کشمیر یونیورسٹی
برسوں پہلے یونیورسٹی میں تحقیقی کام سے جڑے میرے نگران نے مجھے کلاس میں پڑھانے کے زیادہ مواقعے فراہم کیے۔ شاگرد میرے پڑھانے پر حد سے زیادہ مطمئین دکھنے لگے۔ نگران کی نسبت مجھے زیادہ اہمیت دیتے رہے میں بھی اُن کے مسائل کا حل مفصّل انداز میں سمجھاتا رہا۔ سبوں نے میرا رابطہ نمبر محفوظ رکھا اور میرے ساتھ ایسے جڑے رہے کہ باقی استادوں کے مشکل مسائل کا حل بھی میرے پاس لے آتے رہے اور میں ہر ممکن ازالہ کرتا رہتا۔پھر طائر وقت پرواز کرتا گیا اور لیل ونہار کی گردشیں وقت کو اپنی لپیٹ میں لیتی رہیں۔ میں بھی سبکدوش کی زندگی گزارنے لگا ،البتہ شاگرد رابطے میں رہ کر بھی اپنے اپنے مسائل کا حل کرواتے رہے۔
بد قسمتی سے ایک بار کسی پڑوسی نے اپنی سواری میرے گھر کے کھڑکی کے سامنے رکھ دی، کمرہ اُجالے کے بدلے اندھیرے میں بدلا ہوا کمرے میں نہ گھسنے کے سبب دم بھی گھٹنے لگا۔ پڑوسی کو بار ہا سواری ہٹانے کو کہا لیکن ہمیشہ سن ان سنی کرتا رہا۔
اسی دوران کسی شاگرد کا فون آیا اور خیر و عافیت کے بعد اپنے مسائل بیان کرنے لگا ۔ میں نے بھی رہبری فرمائی لیکن وہ میری دُکھی آواز محسوس کرتے بولے ،’’استاد محترم ! خیریت ہے۔ آپ اس قدر کیوں اکھڑے اکھڑے دُکھ بھری آواز میں باتیں کررہے ہیں؟‘‘
’’کچھ نہیں بیٹا! کئی روز سے پڑوسی کی سواری میری کھڑکی سے لگی ہے، کمرہ اندھیرے میں تبدیل ہوگیا، ہوا نہیں گھستی ۔ میں نے بار ہا اسے سواری ہٹانے کو کہا لیکن وہ سنی اَن سنی میں بات ٹالتا رہا۔‘‘
’’استاد محترم! آپ مجھے صرف 10 منٹ کی فرصت دے دیجئے سب کچھ بدل جائےگا۔‘‘ شاگرد نے کہا اور فون کاٹا ۔
پھر ٹھیک 10 منٹ کے اندر اندر واقعی سب کچھ بدل گیا سواری بھی ہٹی اور بھول پر افسوس بھی ہوا۔
میں اپنے شاگردوں کے کردار پر مطمئین دماغ پر زور دینے لگا کہ ’’جب تک شاگرد ہے ۔ اُستاد بے بس نہیں۔‘‘
[email protected]