اردو زبان ایک ایسی شیریں اور دل کش زبان ہے ،جس کی شیرینی اور مٹھاس کو ہر صاحب ذوق اور اہل عقل وخرد نے محسوس کیا ہے ۔اس کی جادوئیت اور کشش کا اپنو ں کے علاوہ غیروں نے بھی اعتراف کیا ہے۔اس سے منسوب آج کی اس مادیت پرست دنیا میں بھی نہ صرف یہ کہ برصغیر ہندوستان و پاکستان اور بنگلہ دیش میں بہت سے ادارے قائم ہیں بلکہ عرب ممالک میں بھی اردو کے محبین پورے آب وتاب کے ساتھ اس کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں ۔خلیجی ممالک میں بھی اس وقت اردو کا سکہ بہت اچھوتے انداز میں رائج اور متداول ہے ۔اس کے علاوہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ،یورپ اور امریکہ میں بھی اب اردو کی نئی بستیاں آباد ہوچکی ہیں۔یہاں کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں یہا ںکے کانفرنس ہال میں اردو سے محبت کرنے والے لوگ اپنی اردو نوازی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے سیمینار اور مشاعروں کا انعقاد وقتا فوقتا پورے اہتما م کے ساتھ کرتے رہتے ہیں ۔جن کی گواہی ہندوستانی اردو اخبار ات ان کی خبریں چھاپ کر اور یہاں کے ادبی مجلات ان مشاعروں اور ادبی محفلوں کی روداد بروقت شائع کر کے دیتے رہتے ہیں ۔ غرض یہ کہ اردو ایک زندہ زبان اور پیشہ ورانہ زبان کے بطور اب بہر حال متعارف ہوچکی ہے ۔ گنگا جمنی تہذیب کی امین اور قومی یکجہتی کی علمبردار یہ خوب صورت زبان یونی ورسٹیوں میں پڑھائی جارہی ہے ۔جب کہ غالب اس سہیلی نے محققین اور مبصرین کو تحقیقات و ریسرچ کے میدان میں بھرپور وسعتیں فراہم کی ہیں ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آج سے پانچ چھ سال پہلے جو اردو کی حالت تھی اب وہ نہیں رہی بلکہ اس نے بہت سی ترقیاں کی ہیں ۔صحافت کی دنیا میں بھی اس نے کا فی وسعت اور ہمہ گیریت حاصل کی ہے ۔جس کی دلیل کے طور پر یہ تذکرہ یقینا کافی ہے کہ اس وقت ملک کے طول وعرض سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ۹۳۵؍اردو اخبارات و مجلات شائع ہورہے ہیں۔جن میں روزنامہ، سہ روزہ ، ہفتہ وار ، پندرہ روزہ ، ماہانہ ، سہ ماہی اور ششماہی مجلات و رسائل شامل ہیں ،جب کہ شعرو ادب کی دنیا میں بھی اس نے بے پناہ مقبولیت کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے میں پہلے ہی بھر پور کامیابی اپنے کھاتے میں درج کرائی ہے ۔ تاہم اردو کو بحیثیت ملکی زبان جو حقوق ومراعات ملنے چاہئیں تھے وہ حکومتی سطح پر اب تک اُسے نہ مل سکے بلکہ اس حوالے سے ماضی میں اسے حاصل شدہ دائرہ کو بھی مختصر کرنے کی مجرمانہ کوشش پس پردہ ہورہی ہے ۔یہ ایک تشویش ناک امر ہے ۔
ہندوستان میں اردو زبان ایک عرصہ تک دفتری زبان کی حیثیت سے مستعمل رہی ہے ، یہاں تک کہ انگریزوں کے دور میں بھی اردو کو باضابطہ زبان کی حیثیت حاصل تھی۔اس وقت کے رواج کے مطابق باضابطہ طور پر یہ زبان پڑھی لکھی اور بولی جاتی تھی ۔فورٹ ولیم کالج ،اور دلی کالج جیسے انگریزی ادارے میں بھی اردو کو ایک باوقار مقام حاصل تھا ۔ ان اداروں میں شعبہ ٔ تراجم باقاعدگی کے ساتھے قائم تھا جس میں ملک بھر سے ادبا اور مترجمین کی خدمات لی جاتی تھیں ۔وہ انگریز افسران کو پڑھاتے تھے ۔اس کے علاوہ نصابی کتابیں تیار کرتے تھے ۔زیادہ تر زبان کے سیکھنے سکھانے کا عمل یہاں انجام دیا جا تا تھا۔گویااردو اس وقت صر ف ایک طریقہ اظہار اور وسیلہ ترجمانی خیالات کی حیثیت سے محض ایک زبان جس پر مسلم اور غیر مسلم کا لیبل نہیں لگا ہوا تھا ، کے بطور متعارف تھی۔یہی وجہ تھی کہ لوگ اُسے پڑھتے تھے اور اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اُسے فخریہ استعمال کرتے تھے۔جہاں تک اس کے ارتقا ء اور عروج کا تعلق ہے تو جب اس میں فارسی زبا ن کی آمیزش ہوئی تو اس نے اس کی دل کشی میں خاطر خواہ اضافہ کردیا جس سے یہ زبان اور ر نکھر کر سامنے آگئی ۔اس کے کردار کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی چوطرفہ جلوہ گری ہرسو محسوس کی جاسکتی ہے ۔دینی اداروں سے لے کر صوفیاء کی مجلسو ں تک ۔ سرکاری دفتروںسے لے کر سیاسی اکھاڑوں میں بھی اس کی گونج سنائی دیتی ہے ۔چنانچہ جنگ آزادی جو ۱۸۰۳ء سے دراصل شروع ہوئی اور ۱۸۵۷ء میں کھل کر سامنے آگئی کی پوری تاریخ جو دیانت داری کے ساتھ تحریر کی گئی ہے اس میں اردو کی شرکت ناقابل انکار ہے ۔شعرا ء اور ادباء نے اپنی اپنی تخلیقات کے ذریعہ ہندوستانیوں میں آزادی کی روح پھونکی۔یہی وہ زبان تھی جس نے کبھی محمد علی جوہر بن کر ،کبھی شوکت علی گوہر بن کر اور کبھی حسرت علی موہانی بن کر تو کبھی مولانا ابوالکلام آزاد بن کر اُبھر کر سامنے آئی ۔غبار خاطر ہو یا اردوئے معلی ، ہمدرد ہو یا الہلال ہر مجلہ میں اردو کی جلوہ گری قابل رشک اور لائق تقلید رہی ہے ۔جی ہاں اردو ماضی میں بھی رابطہ کی زبان رہی ہے اور ماضی قریب میں بھی مواصلت کا ذریعہ رہی ہے ۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اُسے سلیقہ سے سیکھا اور قرینہ سے برتا جائے ۔اردو کی ترویج اور ترقی کی وہ کوششیں عملی طور پر کی جائیں جن کی وہ حقدار ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد یہ زبان چند متعصب سیاست دانوں کے ظلم وستم کا شکار ہوئی چنانچہ قومی زبان کا درجہ اس کی بہن ہندی کو دیا گیا جب کہ بیش بہاقربانیوں کے باوجود صرف ایک ووٹ سے اردو ملک کی قومی زبان بننے سے رہ گئی ۔ ۱۹۴۷ء میں جب ملک کی تقسیم عمل میں آئی تو اردو داں طبقہ کی ایک بڑی تعداد وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی تو اردو وہاں بھی پہونچی ۔مگر ہندوستان میں اس تقسیم سے اردو کوجو نقصان ہوا وہ یہ کہ ۱۹۵۰ء میں جب ریاستوں کی تقسیم زبان کی بنیاد پر عمل میں آئی تو اردو کے حصہ میں کوئی ریاست بہت کوششوں کے باوجود نہ آسکی ،جو سیاسی سطح پر اس کے ساتھ برتا گیا تعصب کی واضح اور بین دلیل ہے ۔ جہاںتک اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں ملک میں اردو کی موجودہ صورت حال کا تعلق ہے تو وہ کسی صاحب عقل وخرد سے مخفی اور اہل فکر ونظر سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ بلکہ اردو کی زبانی اس صورتحال کی ترجمانی اس طرح بھی کی جاسکتی ہے ؎
میں اپنے گھر میں بھی محفوظ رہ نہیں سکتی
مجھے نیت دیوارو در نہیں معلوم
یہ بات بھی ہم اہل اردو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو کو اس کا جائز مقام اور استحقاقی حق نہ ملنے کے اصل ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ ہم نے ہی اس زبان کو کما حقہ سیکھنے سے پہلو تہی کی ہے ۔اور اگر ہم اس زبان کی تحصیل میں سرگرداں بھی ہیں تو چھلچھلاتی معلومات تک ہی خود کو محدود کرلیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہم اس زبان میں بیچلرز ،آنرز اور ماسٹرس کی ڈگریاں تو حاصل کرلیتے ہیں مگر اس میں خاطر خواہ اور مطلوبہ گہرائی و گیرائی حاصل نہیں کرپاتے ۔ اسی طرح اس کی بدنامی کے موجب بھی ہم خود ہیں ۔ بسا اوقات ہم ہندی بیک گرائونڈ کے ہوتے ہوئے بھی سرکاری نوکری کی ہوس میں مست ہوکر اردو عہد ے پر جس طرح بھی ہو تقرری حاصل کرلیتے ہیں اورمذکورہ زبان میں مہارت سے عاری ہونے کی وجہ سے ہندی میں اردو لکھتے اور پڑھاتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہے دونوں زبانوں کے مابین پائے جانے والے ساختیاتی فروق اردو دشمن متعصب افراد کو مٹتے دکھائی دیتے ہیںاور اس ہندی آمیز اردو سے ’’اردو‘‘ کی حقیقی شکل و صورت اور اس کی سچی دل کشی سامنے نہیں آپاتی ہے بلکہ اردو کے نام نہاد ایسے محبین کی اس ناعاقبت اندیشانہ حرکت سے اردو رسوا اور بدنام بھی ہوجاتی ہے ۔ موجودہ دور میں اردو داں طبقہ کا ایک اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اردو!اردو! کا نعرہ تو خوب لگاتے ہیں مگر اپنی زبان سے اس کی ترجمانی میں عار محسوس کرتے ہیں ۔ انگریزی زبان کی فرسودہ چمک دمک سے ان کی نگاہیں اس قدر خیرہ ہوجاتی ہیں کہ وہ یا تو مرعوب ہوکر زعفرانی اردو بولنے لگتے ہیں یا اپنی اردو گفتگومیں انگریزی لفظ کا بکثرت استعمال کرنا فخر تصور کر نے لگتے ہیں ۔ان کی اسی انگریزی دوستی کے باعث نہ ان کی تقریر خالص اردوئی رہ جاتی ہے اور نہ ان کی تحریر موثر ثابت ہوتی ہے جب کہ ان کے زیر تربیت بچے بھی اردو گفتگو کی مطلوبہ اور بھرپور قدرت اپنے اندر نہیںرکھ پاتے ، پھریہی تربیت یافتہ افراد جب کسی ادارہ میں اردو کے استاد مقرر ہوجاتے ہیں تو اس کا اثر بعیٖنہ اگلی نسل کی اردو تعلیم وتربیت پر بھی مرتب ہوتا ہے ۔اس لیے ضرورت ہے کہ اساتذہ کرام اردو زبان پر اتنی قدرت اچھی طرح ضرو ر حاصل کریں کہ مافی الضمیر کی ادائیگی میں ہمیںکسی طرح کی رکاوٹ نہ ہو اور نہ ہی کسی دوسری زبان کا ہمیں اس حد تک سہارا لینا پڑ جائے کہ ہماری اردو گفتگو اس مستعار زبان کے الفاظ سے مغلوب ہوجائے ۔مختصر یہ کہ اردو کو اسم بامسمیٰ بنا کر پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ اس کی اصل من موہنی صفت سامنے آئے اور اس میں پائی جانے والی فطری جاذبیت لوگوں کے ذہن ودل کو اپیل کرے ، متعصبین کو اس کے دامن میں پائے جانے والے یکجہتی کے پیغامات و جواہر پارے سے واقفیت حاصل ہواور وہ اس کی مقناطیسی کشش اورسحرانگیزی سے متاثر اور مجبور ہوکر اردو کو صرف ایک دل کش زبان کی حیثیت سے دیکھیںاور تعصب وتنگ نظری کے گہرے غار سے نکل کر اس قومی زبان کو اس کا جائز مقام دلانے میں ہمارے لیے کسی قسم کی رکاوٹ کا سبب نہ بنیں۔اس طرح بھی اردو کو اس کا جائز مقام دلانے میں اردو کے شیدائی اپنی کامیاب اور مخلصانہ کوشش کرسکتے ہیں۔
میں نے بنگلور یونی ورسٹی سے اردو زبان وادب میں ایم اے کیا ہے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرحومہ پروفیسر یاسمین محمدی بیگم رحمۃ اللہ علیہا نے تعارفی کلاس میں اس وقت کے حالات اور اپنے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں بڑا پُرمغز لیکچر اردو کے حوالے سے دیا تھا ۔اس کا ایک جملہ خاص طور سے یہاں قابل ذکر ہے ۔اور وہ یہ ہے ’’ اکیسویں صدی میںاردو کو بطور ایم اے مضمون منتخب کرنا ایک چیلنج ہے کیونکہ بطور معاش اردو کا اختیار کرنا اس کے دائرہ کار اور حکومتی سطح پر اس کی مقبولیت کو پیش نظر رکھ کر بہت مشکل نظر آتا ہے ،خاص طور سے ایسے عہد میں جب کہ اردو کے پروفیسر بھی عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر اپنے بچوں کو اردو نہ پڑھا کر انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھاتے ہوں‘‘اس کے بعد انہوں نے یہ بھی کہاتھا کہ’’ میں آپ سب کومبارکباد دیتی ہوں اور ساتھ ہی یہ کہتی ہوںکہ یہ چیلنج جب آپ نے قبول کیا ہے تو طے کرلیجیے کہ اپنی طالب علمی کا حق بہر حال ادا کرنا ہے کیونکہ یہ صدی پرفیکشن اور تخصص کی قائل ہے ۔یہاں مہارت اور قابلیت ہی سے انسان اپنی مطلوبہ منزل تک رسائی حاصل کرسکتا ہے ۔بڑی خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اب اردو میں پیشہ ورانہ مواقع کی راہیں بھی بڑی تیزی سے ہموار ہورہی ہیں۔نصاب تعلیم میں گرانقدر اور شاندار تبدیلیاں عمل میں لائی جارہی ہیں ۔کمپیوٹر اور ٹیکنیکل ایجوکیشن سے اردو کو باضابطہ طورپر جوڑ دیا گیا ہے ۔‘میر ے خیال میں اردو کی جس قدر تعلیم آج کے دور میں ہورہی ہے اور اس سے منسوب جتنے ادارے اس دور میں قائم ہیں وہ کافی ہیں ۔ بہرکیف آج بھی اگر ہم اردو کی بقاء اوراس کی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں اس زبان کو اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں بہرحال استعمال کرناچاہیے ۔ کیونکہ کسی چیز کے تحفظ سے پہلے اس کی ترویج ضروری ہے ۔ لہٰذا ہر وہ جگہ جہاں اس زبان سے ترجمانی کام چل سکتاہو ،ضرورتوں کی تکمیل ہوسکتی ہو، مافی الضمیر کی ادائیگی ممکن ہو،وہاں اسے ہی استعمال کریں۔ ملک کے ارد وادباء و شعراء کو بھی چاہئے کہ وہ اردو اخبارات کے صرف ادبی ایڈیشنوں کے مطالعہ پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ اردوروزناموں کا مسلسل مطالعہاپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔ اردو پڑھے لکھے لوگ شوقیہ طور پر اردو تخلیقات کے حسن وقبح کا تجزیہ کریں اور اپنے تخلیقی سفر میں اردو کی بقاء کو اپنا ہمسفر اور اردو کی آبرو کو اپنای زادِ راہ بنائیں۔اردو اساتذہ جو اسکول میں دسویں یا بارہویں سطح پر اردو کی درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہوں اردو ادب کا وسیع مطالعہ کریں ۔ اردو تدریس کے باب میں خاصی سخاوت کا مظاہر ہ کریں۔زیر تدریس اسباق پر محققانہ نظر اور مبصرانہ روشنی ڈالنے کا معمول بنائیں۔اردو کی دل کشی اور اس کی صداقت شعاری کی تبلیغ اپنے عمل کی حسانت سے ثابت کریں ۔یونیورسٹی کے شعبہائے اردو میں قبضہ جمائے اردو اساتذہ اس قومی زبان کی مٹائی جا رہی تہذیبی اور ثقافتی اور لسانی روایت کو ازسر نوجلا بخشنے کی دیانت دارانہ کاوشیں کریں اورملک کے دستور کو سامنے رکھ کر اربابِ اقتدار سے یہ مطالبہ زور وشور سے کریں کہ اردودان اُمیدواروں کو بھی تقرریوں میں ریزوریشن فراہم کی جائے ۔البتہ یہ ذہن پروان چڑھائیں کہ اردو صر ف نوکری حاصل کرنے کے مقصد سے ہی نہ پڑھی جانی چاہیے بلکہ اس زبان کے ساتھ اس لئے راہ و رسم اسی بنا پر بڑھائی جائے کہ اس میں لکھی گئی اخلاقیات اور مطالعۂ معاشرت کی کتابیں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھا تی ہیں اور بتای ہیں کہ قومی ایکتا اور ملّی تشخص کی حفاطت کے لئے کیا کیاجانا چاہیے ۔محبان اردو کو چاہیے کہ وہ اہم اور نادر اردو کتابوں کا ذخیرہ اپنے گھروں میں کرکے بچوں میں اس سے استفادے کا شوق بڑھائیں۔ الغرض ہرو ہ کام کیا جائے جس سے اردو کا فروغ ، تحفظ ،ترویج ، اشاعت ،تعمیم ممکن ہو ۔ یہی وہ موثر اقدامات ہیں جن سے نہ صرف اردو کا احیاء نو ہو سکتاہے بلکہ اس سے یہ زبان حوصلہ شکنیوں کی بادسموم میں بھی سر اٹھا کر جینے کا حق پاسکتی ہے ۔
نوٹ : مضمون نگار صدر سفینہ ایجوکیشنل اینڈ چری ٹیبل ٹرسٹ انڈیا ہیں