ڈاکٹر گلزار احمد صدیقی
استاد کو جب کچھ وقت میں ایسا محسوس ہو جائے کہ اب جماعت کے بیشتر بچے حروف تہجی کی تخصیص مع لکھاوٹ کے اچھی طرح کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تب اساتذہ کرام کو چاہیے کہ بچوں کو ایسی سطور سے واقف کار کریں جو لفظ کہ صورت میں تو ہوں مگر اپنی اصلی ہیئت میں لفظ میں بھی اپنا وجود رکھتے ہیں مثلاً:
دو دوات راس آب
آس آن آم آج
آری دام آپ اون
اس مشق میں یہ لحاظ ضرور رکھیں کہ پہلے دو حرفی الفاظ سالم صورت میں دئے جائیں۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہے کہ بچے کو ایک تو ادھ حرف لکھنے کی مشق کرانی باقی ہے مگر بغیر حرف کے جوڑ سے وہ لفظ بنانے کے عمل سے گزر سکتے ہیں۔اور انہیں حروف کو نزدیک لکھنے سے ایک خوشگوار ماحول ذہن میں پیدا ہو سکے۔اس عمل سے گزرنے میں استاد کو کئی دن لگ جائیں گے۔اس کے بعد سے وہ اور ایک مشق بچوں کو سکھائے۔وہ ہے ادھ حروف کی نشاندہی اور سکھانے کا عمل ۔اس کے بعد بچوں کوایک نئی مشق سے روشناس کرائے وہ یہ کہ چند حروف ہر جگہ اپنی سالم صورت میں لفظ میں آتے ہیں یعنی کہ ان کی ادھ حرف شکل نہیں ہے ۔وہ کچھ یوں ہیں ۔
ا _۔۔۔۔۔اماں۔۔۔۔۔۔۔ابد۔۔۔۔۔۔امتحاں۔۔۔۔۔ مکان
اس میں ا ہر جگہ اپنی سالم صورت میں استعمال ہوا ہے ۔چاہے الف پہلے مستعمل ہوا ہے، بیچ میں ہوا ہے یا پھر لفظ کے آخر میں آیا ہے۔
ر۔۔۔۔۔ ربڑ۔۔۔۔۔ رب۔۔۔۔ شہر۔۔۔۔۔ شکر۔۔۔۔ہمارا
ڑ ۔۔۔۔۔ ربڑ۔۔۔۔۔ گڑ بڑ۔۔۔۔۔ ہڑ بونگی
ز۔۔۔۔۔ سبز۔۔۔۔۔سبزی۔۔۔۔۔ جہاز۔۔۔۔۔زہر
ژ۔۔۔۔۔ مژگاں۔۔۔۔۔ پژمردہ۔۔۔۔۔۔ سبو تاژ
ط۔۔۔۔۔۔ طمانچہ۔۔۔۔طوطا۔۔۔۔۔ رطوبت _ مربوط
ظ ۔۔۔۔۔۔۔ ظالم۔۔۔۔۔ ظروف۔۔۔۔۔ مظالم۔۔۔۔۔۔۔ تقریظ
و ۔۔۔۔۔۔ رطوبت۔۔۔۔۔۔۔ وردی۔۔۔۔۔۔ ماورا۔۔۔۔۔۔۔ موج
مندرجہ بالا مشق میں ہر حرف کو ہرجگہ کے استعمال کے الفاظ دیے گئے ہیں تاکہ بچہ حرف کے ہر جگہ پر مستعمل ہونے کی سالم صورت سے واقف کار ہوسکیں۔جیسے:
ا۔ ابا۔ مکان۔ آسرا
ر۔ ربڑ۔ شہر شکر
ڑ ربڑ ہڑبونگ گڑبڑ
ز۔ زہر سبزی۔ جہاز
ژ پژمردہ مژگاں۔ سبو تاژ
ط۔ طمانچہ۔ مظالم تقریظ
و وردی۔ موج۔ لڈو
بچوں کے لئے اس طرح کا نصاب ترتیب دینا ضروری ہے جو کہ ان کی نفسیات کے عین مطابق ہو۔ اطفال کے لئے چھوٹی چھوٹی نظمیں ترتیب دی جائیں جو کہ نہ صرف ماحول و اخلاقیات پر مبنی ہوں بلکہ ان کی ذہنی آسودگی کا بھی سامان مہیا کرتی ہو۔
جماعت اول و دوم کے لئے تمام نثری مواد چھوٹے چھوٹے جملوں تک محدود ہو ۔ اس سے ان کی ذہنی میلان کے مطابق ترتیب دیا جائے تاکہ بچے انہیں پڑھ کر ذہنی طور بار محسوس نہ کریں ۔کہانیوں کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں پیش کیا جائے۔
ایک کوا پیاسا تھا
وہ پانی کی تلاش میں اڑا
وہ ادھر ادھر اڑا
مگر پانی کہیں نہ ملا
وہ پانی تلاش کرتے کرتے ایک باغ میں پہنچا
کہانی کو ٹکڑوں میں منقسم کیا جائے تا کہ ہر جملہ ایک سطر میں معنی و مفہوم رکھتا ہو ۔اس سے کئی فائدے ہیں۔ مثلا ایک تو بچہ پورے جملے کو پڑھ سکے ۔دوسری بات یہ ہے کہ نفسیاتی طور پر کہانی کے طول کا بار بھی محسوس نہ کرے۔کیوں کہ جملہ زبان اور خیال کی ناقابل تحلیل وحدت ہے اور جملہ ہی وہ چیز ہے جس سے ناخواندہ بچہ واقف ہو جاتا ہے ۔ جملہ واری طریقہ مکمل خیال ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے اس طریقہ کو “طریقہ خیال” بھی کہا جاتا ہے لیکن جملہ قدرتی ہو یعنی جنہیں ادا کرنے میں بچے خود بناتے اور بولتے ہیں۔ بالخصوص ان جملوں سے کام لیا جاتا یے جو بچے بول چال جانتے ہیں کیونکہ لفظ کے بدلے جملے بنائے جاتے ہیں۔یہ قانون فطرت کے عین مطابق ہے۔ بچہ شروع سے ہی بولنا پسند کرتا ہے۔ جملے کہنے سے ان کی رفتار گفتگو میں قدرتی طور پر سرعت آجاتی ہے۔ پڑھانے کے وقت ان باتوں کا خیال روا رکھا جائے۔ الفاظ آسان ہوں جو بولنے اور لکھنے دونوں صورتوں میں پیچیدہ نہ ہوں۔
جماعت کے کمروں می لکھنے کی سرگرمیاں
جماعت کے کمروں میں لکھنے کی سرگرمیاں استعمال کرکے استاد بچوں کے اندر لکھنے کی صلاحیت پیدا کرا سکتا ہے۔
۱۔ استاد تمام بچوں کو بورڈ کے سامنے مناسب فاصلے پر بٹھا کر حروف تہجی کو خوشخطی سے لکھ کر بچوں کو ان پر نظر رکھنے کو کہہ سکتا ہے۔اور حروف تہجی کے حروف کو الگ الگ کرکے لکھا جائے کہ ا ب پ ت جیسے حروف کو کس طرح اور کہاں سے شروع کرکے لکھا جائے۔
۲۔ حروف تہجی کے اپنے اپنے خاندانوں میں منقسم کرکے بورڈ پر خوش خطی سے لکھیں تاکہ بچوں کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے جس طرح مندرجہ بالا میں آیا ہے۔
۳۔ استاد ایک ایک بچے کو من و عن اتارنے کے لئے کہے گا۔
۴۔ استاد بچوں کو کمرے کے بیچوں بیچ بٹھا کر ان سے لکھنے کو کہہ سکتا ہےلکھتے لکھتے استاد ساتھ ساتھ قوت قرات کا سلیقہ بھی سکھا سکتا ہے اور جس سے بچے لکھنے کے گر سے بھی واقف ہو سکتے ہیں۔
۵۔ استاد کاغذ کے مختلف ٬ ٹکڑوں پر بھی جلی حروف میں لکھ کر اور پھر ان حروف میں مختلف قسم کے رنگ بھر کر بچوں کو دکھا سکتا ہے٬ جس سے بچے لکھنے کی طرف مائل ہو جائیں۔اور ان میں قوت تحریر پیدا ہوسکے۔جیسے:
ب۔ ت۔ ٹ۔ ث وغیرہ
اس طرح کا عمل بچوں میں اردو حروف و الفاظ کو سیکھنے میں بہت حد تک مدد فراہم کر سکتا ہے۔
[email protected]>