موجودہ حالات میں جموں وکشمیر میں کئی طرح کی بے چینیاں پائی جاتی ہیں۔جن میں ایک بے چینی یہ بھی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں اُردو زبان کے تئیں سرکار کی عدم دلچسپی کی شکایت کا برملا اظہار ہوتا رہتا ہے۔اس کے پیچھے سرکار کی غیر واضح اور غیر منظم لسانی پالسی ہے۔اُردو زبان کے فروغ کی کیا صورتیں ہوں گی۔تعلیم اور دوسرے معاملوں میں اُردو زبان کا کیا رول ہوگا اور ریاست میںلسانی فارمولے کے اطلاق کی کیا صورت ہوگی ،یہ اور اس طرح کے معاملات پر سرکار یکسر خاموش ہے۔ اُردو کو سرکاری منصب پر تو بٹھایا گیا ہے لیکن اس کے status planning کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ہماری ریاست میں ابتدائی درجات کے طلبا کو اردو کی تعلیم حاصل کرنے میں جو مسائل درپیش ہیں ان کی فہرست خاصی طویل ہے۔ایک طرفہ اچھے تجربہ کار،ہمدرد ،بے غرض اور پر خلوض اساتذہ کا فقدان ہے تو دوسری طرف سب سے بڑی پریشانی نصابی کتابوں کی عدم فر اہمی اور عدم دستیابی ہے۔عام شکایت یہ ہے کہ کتابیں وقت پر شائع نہیں کی جاتیں۔بہ وقت تمام شائع ہو بھی جاتی ہیں تو ان کو اسکولوں ،کالجوں اور مارکیٹ میں بک سیلرز کے پاس وقت پر نہیں پہنچایا جاتا۔نیا تعلیمی سال شروع ہونے سے لے کر سالانہ امتحان سر پر آجانے تک طلبا اردو کی کتابوں کے لئے سر گردان اور پریشان رہتے ہیں۔عام بک سیلزر کا رویہ اور طرز عمل بھی اردو کی کتابوں کے ساتھ نہایت گھٹیا ،عامیانہ اور متعصبانہ ہوتا ہے۔وہ جان بوجھ کر سرکاری اداروں اور پریس سے کتابیں نہیں منگاتے یا آرڈر دیتے بھی ہے تو اس امر میںکوئی سر گرمی نہیں دکھاتے کہ کتابیں وقت پر طلبا کو دستیاب ہوں سکیں۔پھر اگر ان کے پاس کتابیں آ بھی جاتی ہیں تو ان کی بہترطور پر تشہیر نہیں کرتے ،جیسی وہ دوسروں زبانوں میں کرتے ہیں۔
عام طور سے ارود کی سرکاری نصابی کتابیں گھٹیا ،ردی اور بے کار قسم کے اخباری کاغذ پر شائع کی جاتی ہیں۔ایسی کتابوں کو طلباء صحیح ڈھنگ سے پڑھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ کیونکہ ان میں کتابت و طباعت کا بھی کوئی معیار نہیں ہوتا جب کہ انگریزی کی کتابیں انتہائی نفیس ،دیدہ زیب ،بہترین ،سفید ،دبیز اور اجلے کاغذ پر شائع کی جاتی ہیں اور ان میں موجودہ تصاویر بھی بہت خوبصورت اور ملٹی کلر ہوتی ہیں جب کہ اردو کی کتابوں میں تصاویر انتہائی بھدی،گندی اور غیر واضح ہوتی ہے۔اردو کی کتابوں میں کتابت اور انگریزی کی کتابوں میں کمپیوٹر کمپوزنگ کی نفاست اور ان کے معیار میں بھی زمین اور آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔زمانے ،وقت ،سماجی ضرورت اور عصری حالات و تقاصوں کے تحت اردو نصاب میں کئی سالوں سے کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی۔یہ رویہ خاص کرجموں وکشمیر سٹیٹ بوڑ آف اسکول ایجوکیشن کی نویں ،دسویں،گیارھویں اور بارھویں کلاس کی کتابوں کے ساتھ اختیار کیا گیا ہے۔چناچہ جونثر نگاروں اور شعراء نویں میں شامل کتاب ہیں ان کو بارھویں کلاس کی کتاب میں پھر سے دہرائے گیا ہے۔اسی طرح جونثر نگاروں اور شعراء دسویں میں شامل کتاب ہیں ان کو گیارھویں کلاس کی کتاب میں پھر سے دہرائے گیا ہے۔کیا اردو ادب کا دائرہ انتا سمٹ گیاہیں؟تخلیقی ادب میں آے دن کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آجاتی ہے۔لیکن ان کتابوں کو ادب کے عصری تقاضوں اور وقتی ضرورترں سے دور ہی نہیں بلکہ محروم رکھا گیا ہے۔کیا آج کے افسانے کا مزاج وہی ہے جو ساٹھ کی دہائی میں تھا ؟کیا آج کے طلب علم کو سرسیدتحریک اور ترقی پسند تحریک کے بعد ادب میںجدیدیت ،مابعدجدیدیت اور نظریات ،تجرید ،جدید افسانہ ،روایتی افسانہ اور موجود دور میں لکھے جانے والے افسانے کے معیا رومزاج کو سمجھنے کا کوئی حق نہیں ؟کیا شاعری کا معیار ومزاج اور قارئین کا شعری رجحان وہی ہے جو آج سے تیس سال تھا؟کیا ہماری آج کی غزل ماضی کی روایتی غزل کے مقابلے ہمارے زندگی سے زیادہ قریب نہیں آگئی؟کیا آج کی غزل نے وسیع کینوس کے ساتھ زندگی کے ہر رنگ سے اپنے دامن کو نہیں سجالیا ہے؟کیا ان سات سالوں میں کئی نئی شعری اصناف وجود میں نہیں آگئی ہیں؟ان سارے سوالات کا جواب یقینا اثناب میں ہے۔پھر کیا وجہ ہے کہ ۲۰۱۰ میں ترتیب دی گئی کتابوں کو آج ۲۰۱۷میں سات سال گرزنے کے باوجودrenew نہیں کیا گیا ہے۔ان کی جدید کاری نہیں کی گئی ہے۔ہماری ریاست کے سابقہ وزیر تعلیم پروفیسر خواجہ غلام السدین ر قم طراز ہیں:’’جہاں تک اسکولی نصاب کا تعلق ہے دانشوروں کی رائے میں ہر پانچ سال کے بعد نصاب تبدیل ہوتے رہنا چاہے۔اس کا سبب تو یہ ہے کہ پانچ سال میں نہ صرف بچوں کے ادب کی قدروقیمت میں ترقی ہوجاتی ہے بلکہ جو نئی نسل پانچ سال بعد اسکولوں میں آتی ہے ان کی ذہنی اور اکتسابی صلاحیتوں میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔‘‘(اصول تعلیم۔۔ پروفیسر خواجہ غلام السدین۔۔۔ض۔۔۲۱)
اتنے سال میں تو ایک دو نسلیں جوان بھی ہوکر پروان بھی چڑھیں لیکن ان سات برسوں میں ہمارا نصاب وہیں کا وہیں ہے۔جب کہ اس عصرصے میں کتنے ہی اعلی شعری اور نثری شاہکار وجودمیں آگئے ،کتنے ہی اعلی قلم کاروں نے اردو دنیا سے اپنی عظمت وشہرت کا لوہا منوایا لیکن نصابی کتابوں کے حوالے ہمارا طالب علم ان سارے ناموں سے ناواقف ہے۔واضح رہے کہ یہاں مڈل،پرایمری اور سیکنڑری کتابوںکے تناظر میں بات کی جارہی ہے۔بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نویں اور دسویں کی درسی کتاب میں میں کچھ گنے چنے قلم کاروں کی شعری ونثری تخلیقیات موجود ہونے کے باوجود ان میں کسی ایک خاتون قلم کار کی کسی تخلیق کو شائع نہیں کیا گیا ہے۔کہاں ہے نسائی ادب کی حمایت وموافت کرنے والے۔؟کیا آج اس امر کی ضرورت نہیں کہ ہم پرین شاکر،زاہد حنا،صغری مہدی،ادا جعفری،واجدہ تبسم،،عصمت چغتائی،قراۃالعین حیدر جیسی تخلیق کاروں اور شاعرات کو بھی طلباء سے روشناس کرائیں۔جن بچوں کو شروع سے ادبی ذوق ہوتا ہے وہ تو اپنی پسند کے سبھی قلم کاروں کو پڑھتے ہی ہیں لیکن یہاں نصابی کتب کے جوالے سے یہ نظریہ پیش کیا گیا ہے۔
اردو کی جو سرکاری نصابی کتابیں جونئیر کلاسیز کے لئے شائع کی گئی ہیں ان میں کمپوزنگ کی غلطیاں پائی جاتی ہے۔ان کتابوں کو شاید پروف ریدنگ اور تصحیح جسے عمل سے کوسوں دور رکھا گیا ہے۔ان کتابوں کے صفحات کا پزنٹ اور تصوریں دیکھ کر کئی باریوں لگتا ہے کہ یہ سب ایک پلاننگ کے تحت کیا جاتا ہے کہ بچے یا تو اردو سیکھ ہی نہ سکیں اور اگر بفرض سیکھ بھی لیں تو اس کا معیار اتنا پست اور اس قدر گھٹیا ہو کہ اس کی کوئی عزت وقعت ہی نہ ہوسکے۔بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کتابوں کے تخلیقیات کے تحت جن لوگوں کے نام کتاب کے ابتدائی صفحات میں درج ہوتے ہیں ان میں بیشتر کا اردو سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔اس رویہ کو اردو کے ساتھ مذاق جیسے سرسری الفاظ لکھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے خلاق جب تک خود اردو عوام میں بیداری نہ ہوگی تب تک یہی سب کچھ چلتا رہے گا۔
اس کے برعکس چند اداروں کو چھوڑ کر اردو کی نصابی کتابوں کے مرتبین اور ناشترین کے پاس کتابوں کی ترتیب و تدوین کے لئے کوئی ایسا بورڑ یا پینل نہیں ہے جو بچوں کی عمر کو زمرے میں بانٹ کر اور ان کے مزاج ،رجحانات یا سماجی ضروورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک منظم طریقے سے کتابوں کی ترتیب کا کام انجام تک پہنچائے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نصابی کتابوں کی پانچ چھ برسوں میں جدید کاری کی جائے۔نئے موضوعات پر مضامین اور دل چسپ وبامقصد کہانیاں شامل کی جائیں۔آج کے بچے کو جدید ٹیکنالوجی اور سائنس سے متعلق مواد چاہے۔دیکھا جاتاہے کہ برسوں پہلے جن موضوعات پر مضامین شامل نصاب تھے و ہ تین چار دہائی بعد بھی آج کی کتابوں میں بھی موجود ہیں بھلے ہی وہ اپنی افادیت واہمیت کھوچکے ہوں اور آج ان کی قطعی ضرورت نہ ہو۔اکثر مر تبین بیشتر کہانیوں اور نظموں کے تخلیق کا رکے نام ،ان کی تخلیقیات کے ساتھ لکھنے کے بجائے’’ماخوذ‘‘لفظ لکھ کر اپنی خود ساختہ ذمے داری سے دست بردار ہوجاتے ہیں۔یہ بددیانتی سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ ہر تخلیق کے ساتھ اس کے فنکار کا نام درج کرنا مرتب کی ذمہ داری اور اس کا فرض ہے۔سائنس اور انگریزی کی نصابی کتابوں میں یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ۔سائنس کی درسی کتابوں میں جونیر کلاسیز سے ہی اہتمام کیا جاتا ہے کہ ہر مضمون ،کہانی،ڈرامہ،یا نظم کے مصنف کا چار یا چھ سطروں میں مختصر لیکن جامع تعارف بھی پیش کیا جائے کیونکہ اس سے بچوں کی معلومات بڑھتی ہے اور ان کے اندر تحقیق کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔لیکن اردو کی جونئیر کلاسیز کی بیشتر کتابوں کے مرتب اس طریفہ کار سے گویا نابلداور ناواقف ہیں۔حسن اتفاق سے کسی کتاب میں مذکورہ طرر کا تعارف مل بھی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ مرتب نے اس کا معیار طلباکے تعلیمی معیار کے بجائے اپنی ڈگریوں کے حساب سے رکھا ہے۔اس لئے جیسا چاہے طلبا اس سے مستفید نہیں ہوپاتے۔
آج ضرورت ہے کہ نصابی کتابوں میں اخلاقیات ،صحت وتندرستی ،کھیل کود،جدید سائنسی ترقی اور ایجادات ،دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے سماجی اور جغرافیائی حالات،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت و افادیت ،جنرل نالج ،جذبہ خیر سگالی اور ہمدردی ،آپسی میل جول،ملک کے تاریخی حالات وواقعات اورتاریخی نوعیت کی عمارات والے مضامین شائع کرنے کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔وہ تعلیمی ادارے جو بچوں کے لئے درسی کتابیں ترتیب دے کر شائع کرتے ہیں انھیں اپنے نصاب میں مذکورہ اموار کا خیال رکھنا چاہیے۔طلباء کے لئے سائنس اور انگریزی میں ہر طرح کی بہترین ریفرنس بکس اور جنرل نالج کی کتابیں ملتی ہیں لیکن اردو میں اس طرف یا تو سرے سے توجہ ہی نہیں دی گئی ہے۔یاکچھ کتابیں بازاروں میں ملتی بھی ہیں تووہ صرف کاروباری نقطہ نظر سے،بازارو قسم کے ناقص مواد کے ساتھ اتنہائی گھٹیا اور ردی کاغذ پر چھپی ہوتی ہیں جن کو پڑھ کر بلکہ رٹ رٹا کر طلبا امتحان میں پاس تو ہوسکتے ہیں لیکن ان میں علمی ذوق شوق ،جوش وجذبہ بھی پیدا ہو ،یہ ضروری نہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ بہت پرائیوٹ ادارے عام معلومات یا جنرل نالج اور کوئزکے مقابلے کراتے ہیں جن میں ہر عمر کے طلبا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن اسکولوں میں اردو کے متعلق سے اس طرح کے مقابلوں کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔برسوں پہلے ،بیشتر اسکول کالجوں میں بیت بازی،تمثیلی مشاعروں اور ڈراموں کا اہتمام کیا جاتا تھا،ان ذرائع سے بھی بچوں میں اردو کے تئیں دل چسپی بڑھتی تھی اور وہ اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لئے بچوں کے رسالے بھی کھنگا لتے تھے،چونکہ رسالوں میں بچوں کی دلچسپیوں کے سارے سامان موجود ہوتے ہیں اس لئے ماضی میں اردو رسالے بچوں اور خاص کر طلباکے لئے لازم وملزوم بن گئے تھے۔اس کے بر عکس آج جو صورت حال ہے اس کو بغیر کسی تبصرے کے قارئین خود ہی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔اردو کی تدریس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ والدین کی لاپروائی اور عدم دلچسپسی کا بھی ہے جو اپنے بچوں کی انگریزی،حساب،سائنس یا دیگر مضامین کی ٹیوشن پر سیکنڑوں یا ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن اردو کے معاملے میں ان کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ اردو پڑھ کر کیا کرے گیے۔اس طرح بہت سے بچے،فطری صلاحیت ہونے کے باوجود ،اردو کی اچھی تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔اردو کی تدریس کے مسائل میں اساتذہ کا انتخاب ایک اہم مسئلہ ہے۔ایسے ماحول میں جب کہ تعلیم کا مقصد صرف روپے کماناہو،یہ مسئلہ اور بھی زیادہ سنگین اور دشورار ہوجاتا ہے۔اگر چہ دنیا کے مشکل،اہم اور قابل احترام پیشوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں سب سے زیادہ اہم پیشہ استاد کا ہے لیکن موجودہ دور میں اس پیشے کی جو حالت ہوچکی ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔استاد کا کام قوم کی تعمیر حیات اور قوم کی زندگی کو بناناسنوارانا ہے۔بچوں کی شکل میں قوم کا بیش قیمیت سرمایہ استاد کے سپرد کیا جاتا ہے اس لیے استاد کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ضروری اور اہم ہی نہیں بلکہ ایک مقدس کام کو اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے۔اس پیسے کا مقصد صرف روپیہ کمانانہیں ہونا چاہیے اور ایک ایسے بڑے مقصد اور مشن کے تحت اپنی خدمات انجام دینی چاہییں۔دنیاوی دھن دولت اور عیش آرام اس کے مقدس کام کا معاوضہ نہیں ہوسکتے۔بہرحال استادوں،اردو اداروں ،سماجی اور ادبی تنظیموں اور خود طالب علموں کی کوشش سے اردو کی راہ میں حائل ساری دشواریوں کو رفع کیا جاسکتا ہے۔شرط صرف یہ عزم کرنے کی ہے کہ ہمیں اردو خواندگی کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔ ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
رابطہ : رعناواری سرینگر،رابطہ9697330636
ail.com salimsuhail3@gm